ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا

ارشاد احمد قاسمی

نانپور، سیتامڑھی

خبر ایک ایسی معلومات یا اطلاع ہوتی ہے جو عام لوگوں کے لیے اہمیت رکھتی ہو اور جس کا تعلق حالیہ یا موجودہ واقعات سے ہو۔ خبر کا مقصد عوام کو تازہ ترین واقعات، تبدیلیوں، اور حالات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ خبروں میں عام طور پر وہ معلومات شامل ہوتی ہیں جو ناظرین، قارئین، یا سامعین کے لیے اہم اور دلچسپی کی حامل ہوتی ہیں۔

 لیکن بہار کے اخباروں میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت ساری ایسی چیزیں خبر کے کالم میں شائع ہوتی ہیں جن کا خبر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ خبر لکھنے والے کو مراسلہ، نیوز، رپورٹ اور مضمون کے مابین امتیاز کا علم نہیں ہوتا۔ انہیں یہ بھی تمیز نہیں ہوتی کہ لکھی جانے والی چیز اخبار میں شائع ہونے لائق ہے بھی یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخبار میں صرف ایسی چیز شائع ہونی چاہیے جس کا تعلق سیدھا عوام سے ہو نہ کہ کسی کی ذاتی زندگی سے۔ اخبار میں ایسے لوگوں کی مدح سرائی کی جاتی ہے جس سے قوم و ملت کو کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن ان کی تعریف کے ایسے پل باندھے جاتے ہیں جیسے کہ وہ قائد اعظم اور ملک و ملت کے بڑے ہمدرد ہوں۔ ایک صحافی اپنے والد کی تعریف میں مبالغہ آرائی کے ساتھ چند جملے لکھتا ہے اور اسے خبر کے کالم میں خبر کی حیثیت سے شائع کر دیا جاتا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحافی یا ادارے کو صحافت سے کوئی رشتہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی وابستگی۔ حد تو یہ ہے ان اخباروں میں ختنہ، میلاد، شاشی بیاہ، منہ دیکھائی اور دیگر واہیات رسوم کی خبریں بھی کئی کالموں میں شائع ہوجاتی ہیں۔ ایسے ہی مواد کی وجہ سے آج اردو اخباروں کا معیار زوال پذیر ہے۔ حالانکہ ان ہی اخباروں کے مالکان کئی اردو تنظیموں کے ذمہ داران بھی ہیں اس کے باوجود اردو کے تئیں ان کا یہ رویہ اردو حلقہ کے لئے باعث حیرت ہے۔

ایک شخص کا کسی کی جھوٹی تعریف میں خبر بنانا ایک انتہائی قابل مذمت عمل ہے جو صحافت کی بنیادی اخلاقیات اور سچائی کی قدر کے خلاف ہے۔ صحافت کا مقصد معاشرے کو حقائق فراہم کرنا اور لوگوں کو درست معلومات سے آگاہ کرنا ہے، نہ کہ کسی کے ذاتی مفادات کی خدمت کرنا۔ جب کوئی شخص کسی کی جھوٹی تعریف میں خبر بناتا ہے، تو وہ نہ صرف صحافت کے پیشے کی توہین کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ بھی انصاف نہیں کرتا۔ جھوٹی تعریف سے وقتی طور پر فائدہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے سچائی اور اعتبار کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ ایسی خبریں نہ صرف عوام کو گمراہ کرتی ہیں بلکہ صحافت جیسے اہم اور ذمہ دارانہ پیشے کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص سچائی کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفادات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ ایسے رویے کو معاشرتی طور پر مسترد کیا جانا چاہیے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ صحافت کی سچائی اور غیر جانبداری کو برقرار رکھا جا سکے۔ جھوٹی تعریف سے وقتی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن طویل مدتی نقصان ناگزیر ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ صحافی اور عام لوگ سچائی اور انصاف کو ہر حال میں ترجیح دیں۔

جھوٹی تعریف اور نامناسب صحافت دو ایسی بیماریاں ہیں جو ہمارے معاشرتی اور صحافتی نظام میں سرایت کر گئی ہیں۔ جھوٹی تعریف کا مطلب ہے کہ کسی کو خوش کرنے یا فائدہ اٹھانے کے لیے اس کی تعریف کرنا، چاہے وہ تعریف حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ یہ رویہ نہ صرف شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی منافقت اور جھوٹ کو فروغ دیتا ہے۔ گھٹیا صحافت کی بات کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غلط معلومات پھیلانے، سنسنی خیزی پیدا کرنے، یا ذاتی مفادات کے لیے صحافت کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ رویہ عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور صحافت جیسے معزز پیشے کی ساکھ کو خراب کرتا ہے۔ جھوٹی تعریف اور گھٹیا صحافت دونوں معاشرتی بیماریوں کی علامت ہیں، جو ہمیں سچائی، انصاف، اور دیانتداری جیسے اصولوں سے دور کر رہی ہیں۔ ان مسائل کا حل تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے اندر سچ بولنے اور سچائی کے لیے کھڑا ہونے کا جذبہ پیدا کریں۔

موجودہ صورتحال کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اردو کی بربادی میں اردو اخبارات کا کردار انتہائی اہم اور افسوسناک ہے۔ اردو اخبارات، جو کبھی اردو زبان و ادب کی ترقی اور فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے، آج خود اپنی زبان کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس بربادی کی کئی وجوہات ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔

:معیاری زبان کی عدم موجودگی

اردو اخبارات میں آج کل معیاری زبان کا فقدان پایا جاتا ہے۔ بے شمار اخبارات میں لکھنے والے صحافیوں اور ایڈیٹرز کی جانب سے اردو کے بنیادی اصولوں اور قواعد کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ غلط املا، ناقص جملے، اور غیر معیاری زبان کا استعمال روزمرہ کا معمول بن چکا ہے، جس سے نہ صرف زبان کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ قارئین کو بھی صحیح اردو سے دور کیا جا رہا ہے۔

: غیر ضروری انگریزی الفاظ کا استعمال

بہت سے اردو اخبارات میں غیر ضروری طور پر انگریزی الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف اردو کی پہچان کو ختم کر رہا ہے بلکہ اردو بولنے اور لکھنے والے لوگوں کی زبان دانی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اردو کی بجائے انگریزی الفاظ اور محاورے استعمال کرنا زبان کی اپنی شناخت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

: صحافتی ذمہ داریوں کی کمی

اردو اخبارات میں صحافتی ذمہ داریوں کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کئی اخبارات میں صحافیوں کی تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر معیاری اور غیر ذمہ دارانہ صحافت سامنے آتی ہے۔ اس غیر ذمہ داری کا اثر اردو زبان پر بھی پڑتا ہے، کیونکہ جب صحافی خود اردو کی درستگی کا خیال نہیں رکھیں گے، تو قارئین میں بھی زبان کے حوالے سے لاپرواہی پیدا ہو جائے گی۔

: زبان کی ترقی کے لیے کمزور کوششیں

اردو اخبارات میں زبان کی ترقی اور فروغ کے لیے سنجیدہ کوششوں کا فقدان ہے۔ نہ تو نئی نسل کو اردو سے جوڑنے کے لیے کوئی خاص مہم چلائی جاتی ہے، اور نہ ہی زبان کے فروغ کے لیے کسی قسم کا مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کی بجائے، زیادہ تر اخبارات تجارتی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں، جس سے اردو زبان کے فروغ میں کمی آتی جا رہی ہے۔

: نتیجہ

اردو کے زوال میں اردو اخبارات کا کردار افسوسناک ہے، اور وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اردو اخبارات کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور معیاری زبان کے فروغ کے لیے کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔ یہ اخبارات اردو زبان کی نمائندگی کرتے ہیں، اور ان کی غلطیوں کا اثر نہ صرف زبان پر بلکہ معاشرتی سطح پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ہم نے اپنی زبان کو بچانا ہے تو اردو اخبارات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور زبان کی درستگی اور فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔

جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر

ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا

رابطہ: 9431664474

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com