تعصب، امتیاز اور تشدد امریکہ سے ہندوستان تک

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز 

’’امریکہ میں ہندوستانیوں کے ساتھ تعصب اور امتیاز کا جو مظاہرہ کیا جارہا ہے ایسا ہی رویہ ہمارے اپنے ملک میں یہاں کی تنظیمیں اور بعض قائدین اختیار کئے ہوئے ہیں۔چاہے کنہیا کمار ہوں کہ خالد عمر، شہلا رشید ہوں کہ روہت ویمولا یا پھر دہلی یونیورسٹی کی تازہ ترین مثال گرمہر کور‘ یہ سب انتہا پسند ذہنیت کی حامل عناصر کے تعصب اور ان کی تشدد پر مبنی سیاست کے شکار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ظلم سہہ کر ہی یہ نوجوان قومی سطح پر ایک نئی قیادت کے طور پر ابھرنے لگے ہیں۔ اور جب یہ ارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں تو وہ لوگ جنہوں نے ان کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا تھا‘ اپنے آپ سے ناراض بھی ہوتے ہیں اور شرمندہ بھی۔‘‘

حالیہ چند دنوں کے دوران کچھ ایسے واقعات پیش آئے جس نے سبھی کو چونکا بھی دیا، دہلا بھی دیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کے عہدہ کا جائزہ کیا لیا‘ مسلم مخالف طاقتوں کو گویا اپنی دشمنی اور بھڑاس نکالنے کا لائسنس مل گیا۔ ایرپورٹ پر محمد علی کلے جیسے افسانوی شخصیت کی اہلیہ اور ان کے فرزند کو محض ان کے مسلم نام کی بناء پر روکے رکھنا تعصب، امتیازی سلوک کی بدترین مثال ہے۔ ایک ایسی شخصیت کے ارکان خاندان کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کیا گیا‘ جس نے امریکہ کے نام کو ساری دنیا میں روشن کیا۔ گذشتہ سال 3؍جون کو ان کے انتقال کے موقع پر جس طرح سے امریکی قوم نے عالمی برادری کے ساتھ اس عظیم شخصیت کو اشکبار آنکھوں سے وداع کرکے خراج عقیدت پیش کیا تھا لگتا ہے کہ ٹرمپ آنے کے بعد اس عظیم ہستی کے مقام و مرتبہ کو بعد از مرگ گھٹانے کی کوشش کی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے تعصب پسند رویہ کے خلاف وائٹ ہاؤس کے سیکوریٹی اسٹاف میں شامل بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی مسلم خاتون نے جو اپنے حجاب کے لئے مشہور تھیں‘ یہ کہتے ہوئے مستعفی ہوگئیں کہ موجودہ ماحول میں ان کے لئے کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے منہ پر اس سے زیادہ کرارا طمانچہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ نے مسلم دشمنی کی بدولت اقتدار حاصل کیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سنگھی پریوار ذہنیت کے حامی ہندوستانی نژاد امریکیوں نے ان کا جوش و خروش کے ساتھ ان کا ساتھ دیا بلکہ باقاعدہ ریپبلکن ہندو کولیشن تشکیل دی گئی اور بڑے پیمانے پر ان کے لئے ہتھیار اکٹھا کئے گئے۔ ہندو فار ٹرمپ کے پرچم تلے ثقافتی پروگرام کا اہتمام کرتے ہوئے ٹرمپ کو تقویت دی گئی۔ شلاب کمار نامی ہندوستانی نژاد امریکی نے تنہا 9لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا۔ بہرحال ٹرمپ سے امریکہ میں مقیم کٹر پسند ہندوؤں نے بہت ساری توقعات وابستہ کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیا اس لئے کہ ٹرمپ میں انہیں مسٹر نریندر مودی کی جھلک دکھائی دی۔ مگر ٹرمپ نے ان سب کو اُس وقت مایوس کیا جب مسوری اسٹیٹ کے شہر کنساس میں ایک تخریب کار کی اندھادھند فائربنگ میں ایک ہندوستانی انجینئر سرینواس کوچی بوتھلا کی موت واقع ہوئی جبکہ ایک اور ہندوستانی جوڑا شدید زخمی ہوا۔ اس واقعہ پر ہندوستان کا غم و غصہ واجبی ہے۔ پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ یہ امید کی جارہی تھی کہ ہندوستانی ہندوؤں کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ اس واقعہ کی مذمت کریں گے۔ امریکی صدر ٹوئیٹر پر ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ کم از کم ان سے ٹوئٹ پیغام کی امید کی جارہی تھی مگر کانگریس کے اجلاس میں بھی ٹرمپ نے اس واقعہ پر خاموشی اختیار کی جس خاموشی کو ہندوستان نے بھی محسوس کیا اور امریکہ میں مقیم اُن ہندو بھائیوں نے بھی جنہوں نے ٹرمپ کی بڑھ چڑھ کر مدد کی تھی۔ یہ احساس شاید ہوچکا کہ ٹرمپ جنہیں ڈان کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے‘ ایک بے حس انسان ہیں۔ وہ کسی کے دوست نہیں‘ انہیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں۔
ایک طرف امریکہ میں ہندوستانی نوجوان انجینئر کی ہلاکت پر پورا ہندوستان سوگوار اور غم و غصہ کا شکار ہے ۔ امریکی نسل پرستی، تعصب کی مذمت کی جارہی ہے بلکہ احتیاطی اقدام کے طور پر یہ ہدایات بھی جاری کردی گئی ہیں کہ امریکہ میں ہندوستانی تخریب کاروں اور تعصب پسند دہشت گردوں سے محفوظ رہنے کیلئے اپنی مادری زبان میں بات چیت سے گریز کریں۔یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ محض امریکی لب و لہجہ میں انگریزی بات چیت سے کوئی ہندوستانی اپنے آپ کو امریکی ثابت نہیں کرسکتا۔ اس کے خد و خال‘ چہرہ مہرہ ‘ ناک نقوش‘ رنگ کا کیا جائے۔ بہرحال یہ ایک سبق ہے اُن لوگوں کے لئے بھی جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر جبر و تشدد کرتے ہوئے ان سے ان کی مذہبی شناخت چھین لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 
امریکہ میں یا کسی اور ملک میں ہمارے اپنے شہری‘ ہمارے نوجوان تشدد کا شکار ہوتے ہیں تو ہم بلبلا اٹھتے ہیں اور یہ فطری تقاضہ ہے۔ تاہم ٹرمپ کے چاہنے والے یا اسے اپنا رہنما ماننے والوں نے تشدد کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہی راستہ اگر ہمارے اپنے ملک کے کچھ عناصر اختیار کرتے ہیں تو انہیں کیا کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ دہلی یونیورسٹی میں گذشتہ ایک ہفتہ سے حکمراں جماعت کی یوتھ ونگ کے کارکنوں نے انتہائی تشدد آمیز رویہ اختیار کررکھا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے رمجس کالج میں ایک سمینار میں خالد عمر ا ورجے ا ین یو اسٹوڈنٹس یونین کی نائب صدر شہلا رشید کو مدعو کیا گیا‘ تو اے بی وی پی کارکنوں نے پُرتشدد ہنگامہ آرائی کی۔ شہلا رشید کا موبائل چھین لیا گیا۔ اور خالد عمر اور ان کے ساتھیوں کو قوم دشمن قرار دیا گیا۔ اے بی وی پی کی اس غنڈہ گردی کے خلاف گرمہر نامی ایک طالبہ نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ سوشیل میڈیا پر مذمت کی تو اے بی وی پی کارکنوں نے گرمہر کور کے قتل اور اس کی عصمت ریزی کی دھمکی دی۔ گرمہر کور کارگل کے شہید مندیپ سنگھ کی بیٹی ہیں۔ جب کسی نے گرمہر کو یاد دلانے کی کوشش کی کہ وہ اُس ملک (پاکستان)کے لئے آواز اٹھارہی ہے جس ملک نے اس کے باپ کو شہید کیا تو گرمہر نے دوٹوک لہجہ میں جواب دیا کہ ان کے والد کو پاکستان نے نہیں بلکہ جنگ نے مارا ہے۔ بس پھر کیا تھا کئی لوگ میدان یں کود پڑے جن میں مرکزی مملکتی داخلہ ریجیجو بھی شامل ہیں جنہوں نے ٹوئٹ پیغام پر سوال کیا کہ آیا اس لڑکی کا ذہن کس نے آلودہ کی۔ ویریند سہواگ، رندیپ ہڈا بھی میدان میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بھی گرمہر کا مذاق اڑایا۔ تاہم اکثریت نے کارگل میں شہید کی حوصلہ مند بیٹی کی حمایت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے مرکزی وزیر کے بشمول اُن تمام عناصر کی مذمت کی جو اے بی وی پی حمایت کی خاطر ایک طالبہ سے اس کے اظہار خیال کی آزادی کا حق چھیننے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔
اے بی وی پی کے پُرتشدد رویہ کے خلاف 28فروری کو رمجاس کالج کے طلبہ نے احتجاجی مارچ منظم کیا جس میں گرمہر نے شرکت نہیں کی تاہم سوشیل میڈیا کے ذریعہ انہوں نے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے والے طلبہ کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا۔ اے بی وی پی کی پُرتشدد سرگرمیاں ایک حقیقت ہے۔ چوں کہ حکمراں جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لئے ان کے خلاف کاروائی میں پس و پیش کیا جاتا ہے۔ یاد ہوگا کہ گذشتہ سال یونیورسٹی آف حیدرآباد میں روہت ویمولا کی اے بی وی پی کارکنوں سے جھڑپ ہوئی تھی جس کے بعد مبینہ طور پر ویمولا کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ نے امتیازی رویہ اختیار کیا۔ ان کی اسکالرشپ روک دی گئی۔ ان کے بعض ساتھیوں کا داخلہ منسوخ کردیا گیا۔ اس رویہ سے دلبرداشتہ روہت نے خودکشی کرلی اور مرتے مرتے طلبہ برادری کو جگادیا۔
جے این یو دہلی میں خالد عمر، کنہیا کمار کے خلاف بھی اے بی وی پی نے پُرتشدد ہنگامہ آرائی کی تھی۔بلکہ قوم دشمن نعروں کے انتظامات بھی عائد کئے گئے۔ خالد عمر، کنہیا کمار کو جیل بھی جانا پڑا یہ اور بات ہے کہ جیل بھیج کر انہیں قومی ہیرو بنادیا گیا۔ الہ آباد یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی خاتون صدر رچاسنگھ کو بھی اے بی وی پی نے بہت ستایا۔کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ اے بی وی پی کی تخریب کاری کی سب سے بدترین مثال جے این یو کے طالب علم نجیب احمد کی 15اکتوبر 2016ء سے پُراصرار گمشدگی ہے۔ نجیب احمد کے لاپتہ ہونے سے پہلے اے بی وی پی کے بعض کارکنوں سے ان کی جھڑپ کی اطلاعات دینے کی چھ مہینے گذر گئے۔ نجیب ا حمد کا کوئی پتہ نہیں۔ خدا کرے وہ بقید حیات ہوں۔ ان کی والدہ ان کے انتظار میں آنکھیں بچھائی بیٹھی ہیں۔ ان کے آنسو خشک ہوچکے ہیں۔ اے بی وی پی کے ارکان کے ساتھ نرم رویہ معنی خیز ہے۔ بہرحال اس وقت ارباب اقتدار تعلیم کو زعفرانی دے رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ماحول کو بگاڑ رہے ہیں۔ نصابی کتابوں میں تاریخ کو مسخ کیا جاچکا ہے اور حکمراں جماعت کی اسٹوڈنٹس ونگ تشدد پر مبنی سیاست اختیار کررہی ہے۔ ہم کس سے شکایت کریں۔ امریکی تعصب پرستی کی یا دیسی امتیاز کی۔
ہندوستانی تعلیمی اداروں میں جو کچھ ہورہا ہے سوشیل میڈیا کی بدولت ساری دنیا اس سے لمحہ بہ لمحہ باخبر ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دوسرے ممالک کے تعصب پرست رویے پر سوال کرنے کے بھی اہل نہیں رہے کیوں کہ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو وہ تعصب پسند ممالک‘ ہمیں آئینہ دکھادیتے ہیں۔ 

(مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہی)
رابطہ : 9395381226