نئی دہلی : آل انڈیا یونائیٹید ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر، جمیعۃ علماء صوبہ آسام کے صدر اور سابق ممبر آف پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے چیف جسٹس آف انڈیا کو خط لکھکر اس خطرناک رجحان کو روکنے کی درخواست کی ہے جس کے تحت حالیہ دنوں میں ملک کی مختلف نچلی عدالتوں میں یہ درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں کہ بہت سی مسلم عبادت گاہیں اصل میں مندر تھیں۔ با وجود اس کے کہ اس طرح کی درخواستیں “پلیسیس آف ور شپ (اسپیشل پروویژن) ایکٹ، 1991” کے خلاف اور اس سے متصادم ہیں پھر بھی عدالتیں اس کی وجہ سے مساجد، درگاہوں اور دیگر مسلم عبادت گاہوں کے سروے کے حکم دے رہی ہیں، جس سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور بدامنی پیدا ہو رہی ہے۔
مولانا اجمل نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ جیسا کہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ، “پلیسیس آف ور شپ (اسپیشل پروویژن) ایکٹ، 1991” کو اس مقصد کے لیے نافذ کیا گیا تھا کہ 15 اگست 1947 کو جو مذہبی مقامات موجود تھے، انہیں ان کی حیثیت اور حالت پر بر قرار رکھا جائے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور ان کی حفاظت کی جائے گی۔ اس قانون کا مقصد مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا اور مذہبی مقامات کی حیثیت پر تنازعہ کا خاتمہ کرنا تھا۔ مزید برآں بابری مسجد کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں بھی اس قانون کی روح کی پر زورتائید کی ہے اور یہ اصول تسلیم کیا تھا کہ مذہبی مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جانی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے بعض عناصر نے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف عدالتوں میں یہ دعویٰ دائر کیا ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات بشمول بنارس کی گیان واپی جامع مسجد، متھرا کا شاہی عیدگاہ، سنبھل کی جامع مسجد، بدایوں کی شمسی جامع مسجد، لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد، جونپور کی اٹا لا مسجد، کرناٹک کا پیر پاشا بنگلہ درگاہ، مشہور اجمیر درگاہ، اور تاج محل، دراصل مندر تھے۔ ان درخواستوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ جذبات ابھرے ہیں اور اس سے امن و سکون متاثر ہو رہا ہے۔اب تو ہر دن کسی نہ کسی مسجد سے اور درگاہ سے متعلق اس طرح کے دعوی کی خبریں آنے لگی ہیں اور نچلی عدالتوں میں اس سے متعلق درخواستیں دائر کی جانے لگی ہیں جو انتہائی تشویش کا باعث ہے۔
انہوں نے اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ مسلمان جو اس ملک کي دوسری سب سے بڑی آبادی ہے اسے اس بات کا احساس ہے کہ حکومتیں تو ان کے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنا ہی رہی تھیں اور فرقہ پرستوں کے نفرت انگیز اقدامات پر سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی تھیں البتہ مسلمانوں کو عدالتو ں سے انصاف کی امید وابستہ ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کئی نچلی عدالتوں نے نفرت انگیز عناصر کی درخواستوں کی بنیاد پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے سروے یا تحقیقات کا حکم دیا ہے، جس سے مزید کشیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال کے جاری رہنے سے ملک کے سماجی تانے بانے میں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس رجحان کو روکنے کے لئےفوری اقدامات کئے جائیں۔
مولانا اجمل نے چیف جسٹس آف انڈیا سے گزارش کي ہے کہ وہ اس سلسلہ میں درج ذیل اقدامات کی ہدایت دیں:
(1)تمام عدالتوں، خصوصاً نچلی عدالتوں کو یہ واضح ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ایسی درخواستوں کو مسترد کر دیں جو “پلیسس آف ور شپ ایکٹ، 1991” کی خلاف ورزی کرتی ہوں۔
(2)مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ ہدایت دی جائے کہ وہ “پلیسيس آف ور شپ ایکٹ، 1991” کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کریں اور اس کے خلاف کسی بھی کوشش کے خلاف فوری کارروائی کریں۔
(3)ایسی حساس نوعیت کے معاملات، جو فرقہ وارانہ فسادات کا سبب بن سکتے ہیں، کو انتہائی احتیاط کے ساتھ نمٹایا جائے، تاکہ امن، رواداری، مذہبی ہم آہنگی اور قومی یکجهتی کو فروغ دیا جاسکے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اگر مسلم عبادت گاہوں کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کے خطرناک رجحان کو روکا نہ گیا تو اس کے نتیجے میں ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگیاں بڑھ سکتی ہیں اور ملک کا سماجی تانا بانا متاثر ہو سکتا ہے۔ لہذا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ فوری طور پر مداخلت کریں تاکہ مذہبی مقامات کی تقدس کو محفوظ رکھا جا سکے اور ہمارے ملک کا امن و سکون برقرار رہے۔ اسلئے میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لیں گے اور قومی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لئے مناسب ہدایات جاری کریں گے۔