ایک کے بعد ایک

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 

(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ)

بابری مسجد کے سلسلے میں غیرواقعی اور دلائل سے عاری فیصلے نے فرقہ پرستوں کے حوصلے اس قدر بلند کردیے ہیں کہ وہ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں مسجد، مزارات اور دوسرے آثار پر تابڑ توڑ مقدمات کر رہے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی مندر کا نام دے کر عدالتوں سے سروے کروانے کے احکام جاری کروارہے ہیں، حالاں کہ بابری مسجد قضیہ کے وقت ہی 1991ء میں تحفظ عبادت گاہ قانون بن گیا تھا، جس کا خلاصہ تھا کہ 15/اگست1947ء میں جس عمارت کی جو حیثیت عرفی تھی اور جو استعمال تھا، اس کو بدلا نہیں جاسکے گا، پہلے بابری مسجد عدالتی فیصلے کے نتیجے میں گئی، اس کے بعد گیان واپی مسجد، دھار مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ، جامع مسجد سنبھل کا نمبر آیا، جامع مسجد سنبھل کے سروے کے حکم پر جو وہاں پولیس نے یک طرفہ کارروائی کی اور فرقہ پرستوں نے جو ننگا ناچ کیا، اس کی وجہ سے پانچ نوجوان شہید ہوگیے، حالات بے قابو ہوئے تو نیٹ بند کردیا گیا اور سنبھل کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا، آج بھی حالات وہاں کے ناگفتہ بہ ہیں، جامع مسجد سنبھل کا قضیہ1878ء میں انگریز دور حکومت میں اٹھا تھا، چھیدا سنگھ نامی ایک ہندو نے جامع مسجد کے ذمہ دار محمد افضل پر مقدمہ کیا تھا، ہائی کورٹ نے اس مقدمہ کی سماعت کی تھی اور ہندو فریق کے دعویٰ کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا، سر اسٹوراٹ چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ”اس پر کثیر شواہد ہیں کہ یہ عمارت طویل زمانہ سے بطور اسلامی مسجد کے استعمال کی جاری ہے، یہ کہنا ناقابل توجیہ حد تک لغو ہے کہ بوقت ضرورت اسے ہندو بھی استعمال کرتے رہے ہیں، اس لیے مع کلی اخراجات عدالت ہم اسے (ہندو فریق کے دعوے کو) خارج کرتے ہیں“۔

تازہ تنازعہ سپریم کورٹ کے وکیل وشنو شنکر جین اور کلکی دیوی مندر سنبھل کے مہنت رشی راج گری سمیت آٹھ افراد کا کھڑا کیاہوا ہے، ان لوگوں نے 19/ نومبر 2024ء کو سول جج آدتیہ سنگھ کی عدالت میں ایک درخواست دی تھی اور جامع مسجد کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جج صاحب کوبھی جلدی تھی، تین گھنٹے سماعت ہوئی، کمشنر سروے کے لیے مقرر ہوا، تین بجے سروے کا فیصلہ آیا اور اسی دن شام کے سات بجے جاکر سروے کا کام شروع ہوگیا، اتنی تیزی سرکاری کاموں میں عموماً نہیں ہوتی ہے، لیکن جب نیت میں کھوٹ ہوتو کچھ بھی ہوسکتاہے، جلدی اس لیے کی گئی کہ کہیں مسجد کمیٹی اس حکم کے خلاف اوپر کی عدالت سے اسٹے نہ لائے اور اس کے بعد وہاں کے مسلمانوں پرجوگذری اس کی رپورٹیں سوشل میڈیا اور اخبارات میں آچکی ہیں، معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کے نفاذ پر روک لگادی اور مسجد کمیٹی کو الٰہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دی ہے، اور سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی سماعت منظور کرلی ہے، اور 8/ جنوری 2025ء کو دوبارہ اس مقدمہ کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوگی، چیف جسٹس آف انڈیا سنجو کھنہ نے سماعت کے دوران یہ بات کہی ہے، لیکن اس فیصلے کے خلاف باہری حصے میں آج بھی سروے کا کام ہو رہا ہے۔

اب معاملہ مساجد سے مزارات تک پہونچ گیاہے، درگاہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ کوبھی مندر ثابت کرنے اورسروے کرانے کی درخواست پڑچکی ہے، ڈیڑھ دن کا جھونپڑاکو بھی مندر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کے علاوہ فرقہ پرستوں کا دعویٰ بھوج شالہ کمال مولیٰ مسجد، دھار مدھیہ پردیش، جامع مسجد جون پور، جامع مسجد بدایوں، جامع مسجد دہلی، تاج محل، قطب مینار وغیرہ پربھی ہے اوریہ فہرست آخری نہیں ہے، دن بدن اس میں اضافہ ہورہاہے، اسی لیے کانگریس صدر نے بھاجپا کو طنزاً یہ مشورہ دیاہے کہ جتنی عمارتیں مسلمانوں کی بنوائی ہوئی ہیں، سب کو منہدم کرادو، واقعہ یہ ہے کہ مسلم عہد حکومت میں تعمیر شدہ مساجد، مزارات، تاریخی عمارتیں اس ملک کی پہچان اور شناخت ہیں،جس طرح ان عمارتوں کو مندر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اصلاً ہندوستان کے آثار قدیمہ اوریہاں کی تہذیب و شناخت پر حملہ ہے، یہ بات ہمارے جج صاحبان کو سمجھ لینی چاہیے،اور تحفظ عبادت گاہ قانون کو سامنے رکھتے ہوئے اس قسم کی عرضیاں قبول ہی نہیں کرنی چاہیے، چہ جائے کہ اس کے سروے کا حکم دے کر نفرت اور فرقہ پرستی کے نئے دروازے کھولے جائیں اور ملک کو انتشار کے راستے پر گامزن کیاجائے، ہندوستان کا دستور اور آئین اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، فرقہ پرستوں کویہ بات کوئی سمجھائے خصوصاً اس شکل میں جب حالت یہ ہے کہ اس وقت”ہر مورخ کا قلم ہے زہر میں ڈوبا ہوا“

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com