مولانا عبدالحمید نعمانی
ہندوتو وادیوں نے حقائق و شواہد پر مبنی تاریخ لکھنے پر کھبی سنجیدہ توجہ نہیں دی، ان کی تمام تر توجہ من پسند کہانیاں اور ڈرامے لکھنے اور مفروضات کو حقائق باور کرا کر اپنا تفوق قائم کرنے اور اس کے ذریعے سماج کے وسائل حیات کا اپنے لیے بھر پور استعمال و استحصال رہا ہے، اس کے لیے برہمن وادی عناصر نے تواریخ اور سچائیوں کا قتل کر کے حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ باور کرانے کی زبردست مہم چلائی، انھوں نے مفاد عامہ اور ملک، سماج کے عوام اور اکثریت کے مفاد میں کوئی تخلیقی و تعمیری کام انجام دینے کے بجائے، دیگر کے کارناموں کو مٹانے اور تیار کردہ یادگاروں پر قبضہ کر ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کے جائز، ناجائز طریقوں سے کام لیا، اس کی ایک نمایاں مثال اڑیسہ پوری کا جگن ناتھ مندر ہے، یہ تاریخی طور سے ثابت ہے کہ مندر، بودھ وہار کی جگہ ہے، سامنے کی مثال بابری مسجد کی جگہ، رام مندر کی تعمیر ہے، اس طرح کی سرگرمیوں کا شکار، ملک کے قدیم باشندے، دراوڑ، موہن جوداڑو، آدی واسی، محنت کش طبقات، دلت، جین مت اور بدھ مت بھی ہوئے ہیں، بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد کے بعد ان کو لگا کہ ہمارے لیے امید کا راستہ کھل گیا ہے، علماء، صوفیاء اور صالح مسلم تجار کے کام و کردار سے متاثر ہو کر ایک بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہو گئی، اگر ان کو مسلم حکمرانوں کا بہتر تعاون ملتا اور وہ انصاف و برابری پر عمل کرتے ہوئے اکثریتی سماج کے مظلوم و مقہور طبقات کے افراد پر توجہ دیتے اور انسانیت و بھائی چارے کے فروغ میں مطلوبہ کردار ادا کرتے تو آج بھارت کی تصویر کچھ اور ہوتی، زبردستی اسلام پھیلانے کے الزام کی حقیقت کا پتا اسی بات سے چل جاتا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے مراکز، پایہ تختوں اور ان کے قرب و جوار میں ہمیشہ سے غیر مسلم اکثریت میں اور مسلمان اقلیت میں رہے ہیں اور اس حالت میں آج تک کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے، ترک، مغل، پٹھان حکمراں، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سماجی لحاظ سے اونچ نیچ اور قبائلی و علاقائی تفاخر میں برہمن وادی اور پروہت طبقے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھے، بس مساجد کے کردار نے ایک امتیاز قائم کر رکھا تھا، اس سلسلے میں ضیاء الدین برنی کی جارحانہ سوچ کی جھلک اس کی کتاب فتاوی جہاں داری اور تاریخ فیروز شاہی میں ملتی ہے، مذکورہ مسلم حکمرانوں نے بھارت کے مظلوم و مقہور طبقات اور محنت کش عوام کو اوپر اٹھانے اور مین اسٹریم میں لانے پر مطلوبہ توجہ دینے کے بجائے ان کو برہمنوں، پروہتوں اور ہندو سماج کے طبقاتی نظام کے اوپر کے تین طبقات برہمن، کشتری (چھتری) اور ویش کے تحت استحصال کے لیے چھوڑ دیا اور ان کو حکومت کے کاموں کی انجام دہی میں اپنے نظام میں شامل کر لیا، اس سلسلے میں اچھے حکمرانوں میں شامل اورنگزیب بھی مختلف نظر نہیں آتا ہے، اس نے بھی منو مہاراج کے طبقاتی نظام تقسیم کے مطابق جاری چلن کو باقی رکھتے ہوئے فرمان جاری کر دیا کہ سوائے راجپوت کے دیگر اقوام کے ہندو ہتھیار نہ لگائیں اور ہاتھی، پالکی، اور عراقی، عربی گھوڑے پر سوار نہ ہوں، اس فرمان کو محمد ساقی مستعد خاں نے ماثر عالمگیری میں “راجپوتوں کو عظیم ترین مراعات “کے تحت درج کیا ہے، ترک، مغل، پٹھان مسلم حکمرانوں نے ہندو سماج کے مبینہ اونچے طبقے کا حد سے زیادہ لحاظ رکھنے کی سوچ کے تحت کئی سارے ضروری امور کو نظرانداز کر دیا، جس کے بعد کے دنوں میں بڑے دوررس اثرات و نتائج مرتب و برآمد ہوئے، حد سے زیادہ لحاظ داری سے حوصلہ و تقویت پا کر ایک حصہ ،حکومت کے خلاف مسلسل بغاوت و سازش میں لگ گیا، برٹش دور حکومت میں بھی اس گروہ نے اس کے ساتھ ہو کر کام کیا، گرچہ ایک بڑی تعداد، فرقہ وارانہ اتحاد کر کے گزرتے دنوں کے ساتھ برٹش سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک میں بھی شامل رہی ہے تاہم تحریک آزادی سے الگ رہنے والے عناصر، ہندو مسلم تفریق و نفرت کی راہ پر گامزن رہے، فرقہ پرست عناصر کا یہ گروہ ہندو مسلم تفریق و نفرت کو بڑھاوا دے کر اپنے مقاصد و عزائم کی تکمیل میں آج بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے ،اس کے لیے اسلامی، مسلم شناخت، تاریخی مقامات، معابد و ماثر، مسجد، مزار، مدرسہ سب قطعی ناقابل برداشت ہیں، کہا جاتا ہے کہ راون کا سر کاٹنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس کی نابھی مدرسہ پر وار کرو، ہر تاریخی و معروف عمارت، مسجد، خانقاہ، مزار کو ہندو عمارت، مندر قرار دے کر اس پر قبضہ کرنے کی راہ پر گامزن ہے، اس گروہ کی پھیلائی ہوئی بیماری میں تقریبا تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد مبتلا و متاثر ہیں، اس بیماری کا صحیح علاج کیے بغیر صورت حال میں کسی بہتر تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی ہے، جب پارلیمنٹ کے اسپیکر، عدالتوں کے ججز تک جانبداری اور فرقہ پرستی میں مبتلا اور آر ایس ایس سے وابستگی کا کھلے عام زبانی و عملی اظہار کرتے ہوں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بات کس حد تک ناگفتہ بہ ہو چکی ہے ، تحفظ عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں بھی مختلف تاریخی معابد و ماثر کو مندروں کو توڑ کر بنانے کے نام پر عدالتی سروے کی اجازت و ہدایت ایک ناقابل فہم عمل اور تحفظ عبادت گاہ قانون اور اس کے مقصد کے خلاف ہے، ویسے بھی جب قانون کی رو سے کسی عبادت گاہ و عمارت کی، 15/اگست 1947 والی ہیت اور مذہبی کردار کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے تو اس کی اصل تاریخی حیثیت جاننے کے بے فائدہ عمل کا کوئی معنی و جواز نہیں رہ جاتا ہے، یہ قطعی طور سے من گھڑت تاریخ جاننے، بتانے کے نام پر فرقہ وارانہ نفرت و تفریق کی تاریکی پھیلانے کا شر پسندانہ عمل ہے، گرچہ جمیعتہ علماء ہند سمیت دیگر کی عرضی پر سپریم کورٹ نے تا حکم ثانی نئے معاملے درج نہ کرنے کی ہدایت دی ہے تاہم جاری عدالتوں میں داخل مقدمات کی کارروائی پر روک نہیں لگائی گئی ہے، اس کا مطلب بہت صاف ہے کہ معاملے کو ختم سمجھ لینا عقلمندی نہیں ہوگی، کچھ دلت دانش ور کہہ رہے ہیں کہ ایسا ان کی طرف سے مندروں میں بودھ مٹھ، استوپ تلاش کرنے کی بات کے سبب سے ہوا ہے، چاہے بابری مسجد کا معاملہ ہو یا جامع مسجد بنارس(جسے غلط طور سے گیان واپی مسجد کہا جاتا ہے )دھار کی کمال مولا مسجد و مزار (جسے غلط طور سے بھوج شالہ مسجد کہا جاتا ہے) ،بدایوں مسجد، لکھنؤ کی ٹیلہ شاہ مسجد ہوں یا جامع مسجد سنبھل اور اجمیر میں حضرت خواجہ رح کی درگاہ ہو ،سب کے متعلق مفروضات اور من گھڑت کہانیوں کے سہارے اصل تاریخ اور اسلامی و مسلم شناخت و کردار کو ختم کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں، دہلی جیسی راجدھانی تک میں جس طرح مسلسل تاریخی مساجد اور عمارتوں کے کردار اور شناخت ختم کر کے ان کو ہندو شناخت اور تفریح و تماشا گاہوں میں بدلنے کے مذموم اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ واقف حال لوگوں سے مخفی نہیں ہیں، ہری شنکر جین، وشنو شنکر جین، وشنو گپتا اور جسٹس شیکھر یادو وغیرہم جن حوالوں سے باتیں کر کے اسلام کے مذہبی و معاشرتی مسائل اور ملک کی تاریخ کے مسائل زیر بحث لا رہے ہیں، ان پر پہلے مرحلے میں بحث و گفتگو کی ضرورت ہے، مذہبی احکام، تاریخ کے معاملے اور ہندو روایات و بیانات اور مذہبی کتب میں درج کہانیوں و نظریوں کے تناظر میں واضح سوالات کرنے اور باتیں کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں خبروں پر محض تنقید و تبصرے سے کوئی زیادہ بہتر نتائج بر آمد نہیں ہو سکتے ہیں ،یہ متعین پر کہنا ہوگا کہ جین اور گپتا کے دعوے تاریخی حقائق و شواہد پر مبنی نہیں ہیں، جناب شیکھر یادو کے ،ہندو دھرم شاستر، وید اور ہندو روایات کے نام پر، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دیے بیانات بھی مذہب و روایات اور عملی حالات کے بہتر معروضی وحقیقت پسندانہ مطالعے پر مبنی نہیں ہیں، ان کو مضبوط حوالوں سے با آسانی مسترد کیا جا سکتا ہے، ان کو کم از کم منو سمرتی کا پانچواں باب اور قانون ساز ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب رڈلس کا مطالعہ کر لینا چاہیے، گرو گولولکر نے بھی لکھا ہے کہ ہمارے یہاں گوشت خوری ممنوع نہیں ہے، جسٹس یادو کی باتوں سے لگتا ہے کہ انھیں قربانی اور گوشت خوری کے سلسلے میں ہندو اکثریتی سماج اور اس کی روایات کی صحیح جانکاری نہیں ہے، اسی طرح حضرت خواجہ رح کے مزار، درگاہ کے ہندو مندر، عمارت ہونے کی بات، ہر بلاس شاردا کی کتاب میں درج دعوے کی حیثیت مفروضہ سے زیادہ نہیں ہے، بالکل ایسا، جیسا کہ زمین کے گول ہونے پر چاول کی لمبائی سے استدلال کیا جائے، حضرت خواجہ رح کی قبر تقریباً ڈیڑھ سو سال تک کچی حالت میں تھی اسے پختہ کر کے عمارت کی شکل بعد میں دی گئی، اس لیے اسے کسی مندر کو توڑ کر بنانے کے دعوے میں نہ تو کوئی معقولیت ہے اور نہ اس پر مستند تاریخی شہادت ہے، دیگر اسلامی معابد و ماثر مسلم عمارتوں کے متعلق بھی یہی کہا جا سکتا ہے، ان کے سلسلے میں ہندوتو وادیوں کی طرف سے تمام تر سرگرمیاں اور کوششیں، تاریخ اور سچائی کو فرقہ وارانہ تاریکی میں ڈبو دینے کی مہم کا حصہ ہیں ان کو تاریخ اور اس کے حقائق و شواہد کو سامنے لا کر ناکام بنایا جا سکتا ہے۔