لکھنو(ملت ٹائمز)
حالیہ اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان مایاوتی کو ہوا ہے، تاہم مایاوتی نے پارٹی کی ناقص کارکردگی پر کہا کہ یہ گلے سے اترنے والی نہیں ہے، انہوں نے ای وی ایم میں رکاوٹ کے خدشہ کی بات کہی، انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن میں شکایت کریں گی اور ساتھ ہی کمیشن سے ای وی ایم مشینوں کی جانچ کرانے کی مانگ بھی کی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ای وی ایم کے بجائے بیلٹ سے الیکشن ہونا چاہئے، انہوں نے انتخابات منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کمیشن سے کیا، تاہم اس کے ساتھ ہی مایاوتی نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی کی جیت جمہوریت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔
تاہم اس بار کے نتائج بتاتے ہیں کہ بی ایس پی کے ابھار کے بعد سے یہ اس کی سب سے کراری شکست ہے، ویسے اس کا اس طرح کی شکست کا سلسلہ 2012 سے شروع ہوا ہے اور اس کے بعد سے بدستور جاری ہے، اس بار مایاوتی نے سوشل انجینئرنگ فارمولے کے تحت 100 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا لیکن انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ ان کا یہ فارمولہ نہیں چلا ہے۔
دراصل اس بار یوپی کے ووٹروں نے کسی طرح کے اتحاد اور فارمولے کو قبول نہیں کیا، مودی لہر میں یہ فارمولے فیل ہو گئے ہیں، دراصل بی ایس پی کی شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ مانی جا رہی ہے کہ پارٹی نے اپنے طور طریقوں کو نہیں بدلا، جبکہ اس دوران بی جے پی جیسی پارٹیوں نے پوری طرح سے امیج میک اوور کیا ہے، یہ نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ اب دلت ووٹ بینک پر مایاوتی کی گرفت پہلے جیسی نہیں رہی، ان کا ووٹ بینک اب دورہو گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یوپی کی سیاست میں پسماندہ پہنچ گئی ہیں، سیاست کے ماہرین کے مطابق دوسری بڑی بات یہ بھی ہے کہ دلت ووٹر اب بی جے پی کی جانب مڑ گیا ہےڈ
2007 میں سوشل انجینئرنگ فارمولے کے تحت بی ایس پی نے اعلی ذاتوں اور دلتوں کو نسلی اتحاد بنا کر تاریخ رقم کی تھی، لیکن ماہرین کے مطابق بی ایس پی کے لئے یہ سب ماضی کی بات ہو گئی ہے، فی الحال یوپی کے نتائج نے مایاوتی اور بی ایس پی کے سیاسی مستقبل پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔