اس ہار اور جیت کا ذمہ دار کون ؟ : نام نہاد سیکولر آقاؤں اور ملی قائدین کے لئے لمحہ فکریہ !

سمیر چودھری
اترپردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی کی لہر برقرار ہے لوک سبھا کے بعد ایک مرتبہ پھر یوپی سے تمام پارٹیوں کا تاریخی صفایا کرکے واضح کردیاہے کہ بی جے پی سے ڈرا کر مسلمانوں کوووٹ بینک کے طورپر استعمال کرنے والی نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور مسلم قیادت کی اب سیاست میں کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے، ان پارٹیوں اور ملی کمزور قیادت کے سبب گزشتہ تیس سال سے مسلمان بی جے پی کو ہرانے کاکریڈٹ اپنے سر پر ڈھوتا چلا آرہاہے لیکن وہ مسلسل شاندار فتح کی بلند طے کرتی جارہی ہے جو یقینی مسلم قیادت اور سیکولر پارٹیوں کا ڈھونک پیٹنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ یوپی کی اس شاندار جیت نے 2019ء کے پلیٹ فارم کو پور طرح تیار کردیا ہے اور یہاں سے طے ہوچکاہے کہ دوبارہ پی ایم بھی نریندر مودی ہی ہونگے۔ حالانکہ مسلمان ووٹروں کو اس ہار کو اپنے اوپر لینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہار مسلمانوں کی نہ بلکہ اکھلیش یادو ،مایاوتی اور راہل گاندھی کی ہے جن کی انا کی سامنے کبھی مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے،مگر افسوس ہوتا ہے اس قیادت پر جو بغیر ہوا کارخ بھانپے بی جے پی کا ڈرا دکھا کرنا م نہاد سیکولر پارٹیوں کی حمایت کر تے جاتے ہیں یا پھر اپنے حجروں میں مصلحت کا لبادہ ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں تمام طرح کی پریشانیوں کے باوجود اکثریتی فرقہ نے صرف مسلم مخالف ہونے کے سبب بی جے پی کو اتنی بڑی جیت کا تحفہ دیاہے، حالانکہ یہ سب جانتے ہیں گزشتہ تین سالوں میں بی جے پی کے دور میں نوٹ بندی اور مہنگائی جیسے مسائل سے لوگ آج بھی پریشان ہیں لیکن مسلم مخالف چہرے کے سبب نریندرمودی کے نام پر یہ بڑی اکثریت بی جے پی کے کھاتہ میں گئی ہے،جس نے نہ صرف سیکولر پارٹیوں کی زمین اکھاڑ کر پھینک دی ہے اور انہیں اس صدمہ سے باہر آنے میں اب کافی وقت درکار ہوگا ، اس انتخاب نے لوک سبھا کے بعد ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو بے حیثیت کردیاہے کیونکہ بی جے پی نے لوک سبھا میں بغیر کسی مسلم کو ٹکٹ دیئے نریندر مودی کے نام پر 73؍ سیٹیں حاصل کی تھیں جبکہ اس مرتبہ بھی 403؍ سیٹوں میں سے کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیئے بغیر ہی یہ تاریخ ساز فتح حاصل کی ہے۔سماجوادی پارٹی نے ہمیشہ مسلمانوں کو اپنا بندھوا ووٹ سمجھاہے تو بی ایس پی نے سو مسلمانوں کو ٹکٹ دے کر مسلمانوں کی ووٹوں کی تقسیم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے،سماجوادی اور بی ایس پی کو مسلمانوں نے ووٹ ضرور دیاہے لیکن یادو کے ساتھ دلتوں کا کثیر ووٹ بی جے پی کے حق میں گیاہے جس کے سبب بی جے پی کا گراف ناقابل یقین بلندی تک پہنچ گیاہے۔اس مرتبہ جاٹوں میں بی جے پی کے خلاف لہر کی خوب تشہیر کی گئی تھیں لیکن جاٹوں کی پوری بیلٹ سے ایک مرتبہ پھر اجیت سنگھ کا صفایا ہوگیا اور ان تمام سیٹوں پر بی جے پی کی جیت اس بات کی ضمانت ہے کہ یادو ،دلت اور جاٹ سب کے سب کو ’کیسریا رنگ‘پسند ہے۔ تنہا مسلمانوں کے ووٹوں سے تو خود مسلمان 70؍سال میں طاقت حاصل نہیں کرپائے تو پھر سماجوادی پارٹی،کانگریس اور بی ایس پی آخر یہ توقع کیوں کر کرسکتی ہے۔ یوپی کو جہاں مایاوتی کی ’انا‘ لے ڈوبی ہے وہیں سماجوادی اور کانگریس کے اتحاد نے بی جے پی کی راہیں پوری طرح ہموار کرنے میں خاطر خواہ کردار ادا کیاہے۔ اس اتحاد نے سماجوادی پارٹی کو زبردست نقصان پہنچاہے کیونکہ کانگریس کو ہمیشہ ملنے والا اعلیٰ ذاتوں کا ہندو ووٹ بھی سماجوادی کے نام پر چھٹک کر بی جے پی کی طرف چلا یا گیاہے جس نے بی جے پی کی جیت میں اہم رول ادا کیاہے۔ حالانکہ مسلم ووٹروں نے لوک سبھا کے بعد ایک مرتبہ پھر بڑی غلطی کی ہے اور سیکولرزم کے علمبرداروں کو تبرک کی طرح ووٹ تقسیم کردیاہے حالانکہ اگر متحد ہوکر اپنے ووٹ کا استعمال کرتے تو شاید بی جے پی کی جیت میں تھوڑا فرق ضرور آجاتا۔ بہر حال نے نتائج آچکے ہیں اور اکھلیش یادو نے ہار تسلیم کرلی ہے جبکہ مایاوتی نے تو ووٹنگ مشین کی صداقت پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کردیاہے، لیکن اتنا تو طے کہ مایاوتی کو اپنی سیاسی اننگ کو جاری رکھنے کے لئے اپنے پالیسیوں اور روش میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کرنی پڑینگے اور ٹکٹ تقسیم کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لانی ہوگی۔ اکھلیش یادو کو بھی مزید ملائم سنگھ یادو سے سیاسی پنترے بازیاں سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہیں مسلم قائدین کو سنجیدگی سے اس طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ مسلمان بی جے پی کو ہرانے کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے تھک چکے ہیں بلکہ بہت پیچھے بھی رہ گئے ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقوق کی بازیابی اور بے قصور نوجوانوں کی گرفتاریاں بند کرانے کے لئے سیاسی حصہ داری بنیادی ضرورت ہے ۔