محمد عمران مظاہری، نلگنڈہ، تلنگانہ
آج ہم میں سے ہر ایک کو یہ محسوس ہورہاہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں شاید یہاں کی اکثریت ہمارے بارے میں منفی سوچ رکھتی ہے۔ وہ یہ نہی چاہتی کہ یہاں مسلمان اپنے ملی تشخص کے ساتھ باقی رہیں، بلکہ ان کی خواہش یہ کہ مسلمان بھی یہاں کے قومی دھارے میں ضم ہوجائیں ۔ دشمنی کی ایک فضا بننے لگی۔ خاص کر برادران وطن کے اندر یہ کوشش کی جانے لگی کہ ان کے ذہنوں کو مسلمانوں کے تعلق سے خراب کیاجائے۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ: ایک مرتبہ مسلمان کا اپنے ہندو دوست کے یہاں جاناہوا۔ اتفاق سے کھیلتے ہوئے ہندو دوست کا بچہ باہر آیا تو مسلمان نے اس کو بلایا اور نام وغیرہ معلوم کرنے کی کوشش کی، اپنے قریب کرنا چاہا، مگر وہ لڑکا اور دور بھاگ گیا، اس پر ہندو دوست بھی اپنے بچے سے کہا: بیٹا! تمھارے چچا ہیں، قریب آو، تو اس نے باپ کے کان میں کچھ کہا، مسلمان دوست نے معلوم کرنا چاہا کہ بچہ نے کیا کہا؟ مگر یہ دوست بچہ کے کہنے پر اس قدر شرمندہ تھے کہ بتانا مشکل تھا، جب زیادہ اصرار کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کہ رہاہے: “مسلمان کے جیب میں چھری ہوتی ہے، قریب نہیں جانا چاہیے۔” اسی لیے ملک کے ان حالات کا علم رکھنے والے علماء و دانشوروں کا یہ ماننا ہیکہ اگر یہی حالات رہے تو شاید یہاں مسلمانوں کا وجود خطرہ میں پڑ جائے گا ۔
تحریک پیام انسانیت کے جنرل سیکریٹری مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی مد ظلہ رقمطراز ہیں: “اس خطرہ کو مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندوی رحمة الله عليه نے آج سے تقریبا ساٹھ سال قبل محسوس کیا تھا اور اس بات کا آپ کو یقین ہوگیا تھا کہ اگر ان غلط فہمیوں کو دور نہ کیا گیا تو آگے حالات خطرناک ہوجائیں گے۔ لہذا آپ نے 1950ء یا 1951ء میں یہ کام شروع کیا ۔ مخلوط اجتماعات کیے، جن میں ہزاروں کا مجمع ہوتا تھا اور انسانیت کی بات ہوتی تھی، اکثر حضرت مولانا خطاب فرمایا کرتے تھے لیکن جب حضرت مولانا کے بیرون ممالک کے اسفار شروع ہوگئے تو یہ سلسلہ ایک عرصہ تک موقوف رہا۔ اس کے بعد دوبارہ 1974 میں الہ آباد سے مولانا نے باقاعدہ “تحریک پیام انسانیت” کا آغاز کیا اور فرمایا کہ “اب تک میں نے بہت انتظار کیا، میں لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں، تحریکی آدمی نہیں ہوں۔ میں منتظر تھا کہ کوئی بھی اللہ کا بندہ کھڑا ہو جائے، چاہے ہندؤوں میں کوئی کھڑا ہو جائے یا مسلمانوں میں، وہ اصلاح کیلیے علم بلند کرے اور انسانیت کی بات کرے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزر گیا اور کوئی آواز نہیں اٹھی، اب میں چاہتا ہوں کہ جہاں تک یہ آواز پہنچ سکے پہنچاؤوں” اور پھر حضرت مولانا نے الہ آباد سے پیام انسانیت کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس کے بعد پورے ملک میں دورے ہوے، بڑی بڑی کانفرنسیں ہوئیں اور الحمد للھ اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔ تادم حیات حضرت مولانا یہ کام کرتے رہے۔ آپکے بعد مولانا عبد اللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ نے یہ کام سنبھالا، انہوں نے یہ کوشش کی کہ یہ صرف نظریاتی بات نہ رہ جائے، مسئلہ صرف گفتگو اور کانفرنسوں کی حد تک نہ رہے بلکہ اس کی ایسی عملی شکلیں بھی اختیار کی جائیں کہ اس سے لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور ان کے ذریعہ سے ثابت کیا جائے کہ مسلمانوں کے بارے میں جو سوچا اور سمجھا جاتا ہے وہ حقیقت کے خلاف ہے، اسلامی تعلیمات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہمیں انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرنی ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنا ہے، اگر اسلام کی ان تعلیمات کی عملی شکلیں اختیار کی جائیں تو حالات میں اور زیادہ بہتر طریقہ پر تبدیلی پیدا ہو گی۔ الحمد للھ اس سلسلہ میں کوششیں شروع کی گئیں اور اللہ کا شکر ہے کہ ان کے بہتر نتائج بھی سامنے آرہیں ہیں۔ “
تحریک پیام انسانیت کا محرک
تحریک پیام انسانیت کا محرک و باعث کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوے حضرت مولانا نے کہا: ” یہ بالکل فطری اور قدرتی امر ہے کہ آدمی اپنے اس گھر کی بربادی نہیں دیکھ سکتا جس میں اس کو رہنا ہے اور جہاں اس کی عزیز متاع اور زندگی کی پونجی ہے اور جس کے بنانے اور سنوار نے پر اس کی اور اس کے اسلاف کی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں صرف ہوی ہیں، یہ ہر سلیم الفطرت انسان کا خاصہ ہے کہ جس کشتی پر وہ سوار ہے اس میں وہ کسی کو سوراخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ روز مرہ کا مشاہدہ تھا کہ یہ ملک تیزی کے ساتھ اخلاقی انارکی بلکہ قومی و اجتماعی خودکشی کی طرف جارہا ہے۔ اخلاقی قدریں بے دردی کے ساتھ پامال کی جارہی ہیں، خود غرضی بلکہ خود پرستی کا جنون سب پر سوار ہے۔ انسان کی جان ومال عزت و آبرو کا احترام تیزی کے ساتھ رخصت ہورہا ہے۔ حقیر شخصی فوائد کیلیے اجتماعی و ملکی مفاد کو آسانی سے قربان کیا جارہاہے۔ رشوت خوری، چور بازاری عام ہوتی جارہی ہے۔” یہی وہ حالات تھے جو حضرت مولانا کو بے چین کردیے تھے اور تحریک پیام انسانیت کے ذریعہ ملک کی حفاظت کیلیے فکر مند بنا دیے تھے۔
تحریک پیام انسانیت کی ضرورت
تحریک پیام انسانیت کی افادیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مولانا نے فرمایا: “یہ تحریک سب کیلیےمفید و معاون، سازگار فضا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ، جس کے بغیر کوئی تحریک سکون و اطمینان کے ساتھ اینا عمل نہیں کرسکتی، ہرکام کیلیے معتدل (normal) حالات کی ضرورت ہے، اس کی ضرورت ہے کہ دماغ اپنا توازن نہ کھوئیں، طبیعتوں میں اشتعال، برہمی اور بے جا بدگمانیاں نہ پائی جائیں، ان میں بات سننے کا موڈ اور اچھی بات کی قدر کی صلاحیت ہو اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک اس مقصد کو پورا کرتی ہے۔”
پیام انسانیت سنت نبوی کی روشنی میں
مولانا بلال صاحب لکھتے ہیں: “موجودہ حالات میں عملی طور پر اور گفتگو کی مختلف شکلوں کو اختیار کرکے پیام انسانیت کا کام ایک ایسی ضرورت ہے کہ اس سے ملک کے حالات میں تبدیلی واقع ہوگی اور ایک بڑی سنت پر عمل ہوگا، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں “حلف الفضول” نام سے ایک مشہور معاہدہ کا تذکرہ آتا ہے، جو مکہ مکرمہ میں ہوا تھا اور اللہ کے رسول اس میں شریک تھے، اس معاہدہ میں یہ طے ہوا تھا کہ ہم کمزوروں، بیواؤں اور مظلوموں کی مدد کریں گے، ظالموں کو ظلم سے روکیں گے، اس معاہدہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیام انسانیت “حلف الفضول” کی ایک عملی تصویر ہے، یہ آخری درجہ کی بات ہے کہ ہجرت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے مکہ مکرمہ میں “حلف الفضول” کا جو معاہدہ کیا تھا، اگر مجھے آج بھی کوئی اس کی دعوت دے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔”
پیام انسانیت ایک معاون تحریک نہ کہ متصادم
حضرت مولانا رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے اس نئ تحریک کا اضافہ کیوں کیا جب کہ بہت سی تحریکیں موجود تھیں؟ حضرت مولانا نے فرمایا: “ہم نے کسی نئ تحریک کا اضافہ نہیں کیا بلکہ ہم نے دینی تحریکوں، اداروں اور مدارس کیلیے جو زمین (پرسکون فضا) ہے اس کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے، اگر یہ زمین نہ رہے گی تو نہ یہ ادارے باقی رہیں گے نہ یہ تحریکیں اور جماعتیں باقی رہیں گی، ان تمام چیزوں کے تحفظ کے لئےپیام انسانیت کا کام بنیاد اور حصار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ حصار رہے گا تو یہ ساری چیزیں محفوظ رہیں گی اور اگر یہ نہ ہوا تو یہ سارے کام جو آج بڑے مضبوط و مستحکم نظر آرہے ہیں، ٹھپ ہو جائیں گے ۔”
اسی طرح تحریک پیام انسانیت کے ترجمان “الحاج مولانا عبد الکریم پاریکھ رحمہ اللہ سے بھی کسی عالم نے یہی سوال کیا تھا تو مولانا نے کہا: ” ہم آپ کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں ۔”
موجودہ حالات کا حل تاریخ کی روشنی میں
مولانا بلال صاحب رقمطراز ہیں: “آج جن حالات سے ہم گزر رہیں ہیں یہ ایسے نہیں ہیں کہ ہمیں پہلی مرتبہ ان سے سابقہ پڑا ہو اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کہ مختلف علاقوں میں یہ حالات گزر چکے ہیں بلکہ واقعہ یہ کہ اس سے زیادہ سخت حالات کا مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا لیکن جہاں مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو اختیار کیا، سمجھ سے کام لیا اور معاشرہ میں انسانیت کے فروغ کے لیے ان صورتوں کو اختیار کرتے رہے جو دنیا کی ضرورت تھیں، وہاں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد فرمائ اور یہ ان کے لیے آسان ہوا کہ وہ اپنے ملی تشخص کے بقاء کے ساتھ محفوظ رہیں،”
اس لیے ہم سب کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس تحریک اور اس کے کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں، جان و مال اس کے لیے پیش کریں اور دیکھیں کہ پھر ہمارے دشمن کیسے ہمارے دوست بن جائیں گے اور حالات کس تیزی سے ہمارے موافق ہوجائیں گے ۔