اے پی سی آر لڑے گی لکھنوء انکاوئنٹر و بھوپال اجین ٹرین دھماکہ معاملے میں بے گناہ مسلم نوجوانوں کا کیس

نئی دہلی (ملت ٹائمز؍پریس ریلیز)
گزشتہ ماہ بھوپال اجین ٹرین میں دھماکہ کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ہوشنگاباد پپریا بس اسٹینڈ سے اے ٹی ایس مدھیہ پردیش نے دانش ، عاطف مظفر اور میر حسین کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا تھا، جس کے فورا بعد ہی لکھنوء میں اترپردیش اے ٹی ایس نے سیف اللہ کا انکاوئنٹر کرنے کے ساتھ ساتھ کانپور سے فیصل، اظہر، ایم جی خان نیز اٹاوہ سے فخرعالم کو گرفتار کیا، پورے معاملے کی نوعیت اور پولیس ایجنسیوں کی کارکردگی پر سماج کے مختلف طبقات سے سوالات اٹھائے گئے جس کے پیش نظر مرکزی حکومت نے اس پورے معاملے کو این آئی اے (نیشنل انوسٹگیشن ایجنسی) کے حوالے کردیا، اے پی سی آر کی مقامی ٹیموں نے معاملے کی تفتیش کے لئے فیکٹ فائنڈنگ ٹیمیں لکھنوء، کانپور، بھوپال بھیجیں جو ملزمین کے اہل خانہ سے بھی ملیں، مرکزی سکریٹری محمد احمد صاحب نے بتایا کہ اہل خانہ کی تحریری درخواست پر اے پی سی آر مرکز نے بھوپال و لکھنوء دونوں جگہ این آئی اے کی خصوصی عدالت میں مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
بھوپال این آئی اے کورٹ میں این آئی اے کی جانب سے تین مشتبہ ملزمین دانش، عاطف مظفر اور میر حسین کے خلاف کاروائی کی شروعات کی جہاں اے پی سی آر کی جانب سے سینئر کرمنل وکیل سید ساجد علی اور ایڈوکیٹ ابوبکر سباق سبھی تین ملزمین کی جانب سے دفاع کے لئے اہل خانہ کے ساتھ پیش ہوئے جبکہ لکھنوء این آئی اے اسپیشل کورٹ میں این آئی اے نے دانش، عاطف مظفر اور میر حسین کے ساتھ ساتھ فیصل، اظہر، ایم جی خان، فخرعالم کے علاوہ راکی راناوت، شیلندر اور راگھویندر سنگھ چوہان کو ملزم بنایا ، اے پی سی آر نے لکھنوء میں دانش ، عاطف مظفر، میر حسین اور فیصل کی جانب سے لکھنوء عدالت میں ایڈوکیٹ ابوبکر سباق کو دفاع کے لئے ذمہ داری دی ہے، جہاں سیف اللہ انکاوئنٹر کیس میں بھی این آئی اے کے ذریعے تفتیش کی جارہی ہے۔
ملک کی مختلف عدالتوں میں مشتبہ ملزمان کی قانونی پیروی کرنے والی شہری و انسانی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس( اے پی سی آر ) کے مرکزی ذمہ داران کے مطابق اس معاملے میں اب تک جتنی بھی گرفتاریاں ہوئیں ہیں اس میں پولیس اور میڈیاکا متعصبانہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا معاملے کی تحقیق کئے بغیر پولیس جس کو چاہتی ہے مورد الزام ٹھہراکر میڈیا کے سامنے اپنی گھڑی ہوئی کہانی پیش کر دیتی ہے اور میڈیا بھی یکطرفہ رخ اپناتے ہوئے کسی بھی مشتبہ شخص کو مجرم گردانے لگتا ہے، جو کہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔
اس معاملے میں پولیس کے رویہ کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ملزم افراد کے فیملی والے ان سے ملنے بھوپال جیل گئے تو ان کو ملنے نہیں دیا گیا اور نہ ہی کپڑے وروزمرہ کی ضروریات کا سامان دینے دیا گیا ۔
اے پی سی آر کی آٹھ سالہ مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں ہی کرناٹک مینگلور عدالت سے بھٹکل کے مولانا شبیر ندوی صاحب باعزت رہا ہوئے ، اس سے قبل سیپریم کورٹ سے باعزت رہا ہونے کے بعد گلبرگہ کے نثارالدین اور ظہیرالدین نے اے پی سی آر کی کوششوں کو سراہا تھا، جب کہ اے پی سی آر کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی بلاسپور (چھتیس گڑھ) کی اسپیشل این آئی اے کورٹ سے یو اے پی اے کی دفعات میں جیل میں بند چودہ (۱۴) ملزمین کوگزشتہ برس ضمانت پر رہا ئی حاصل ہوئی تھی۔