کیا یکبارگی تین طلاق دینے پر سزا مقرر کی جاسکتی ہے؟

حسین احمد قاسمی
شریعت میں طلاق کو” ابغض المباحات “یعنی جائز چیزوں میں سب سے ناپسند دیدہ قرار دیا ہے لیکن چونکہ حقوق و فرائض کے بارے میں اکثر نزاع پیدا ہوجاتی ہے اور میاں بیوی کی ہمہ وقتی رفاقت کی وجہ سے نزاع کا امکان زیادہ ہوتاہے ، اس لئے جب اس نزاع کے نتیجہ میں نفرت اس درجہ کو پہنچ جائے کہ اصلاح کی ساری کوششیں ناکام ہوجائیں اور حدود اللہ پر قائم رہتے ہوئے ازدواجی زندگی گذار نا دشوار ہوجائے ،تو آخری چارۂ کار کے طور پر علٰحدگی کے لئے شریعت اسلام نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے ،اور طلاق کا سب سے احسن طریقہ یہ بتایا کہ ایسی پاکی کی حالت میں جس میں یکجائی کی نوبت نہیں آئی ہو ، ایک طلاق دیدے اور بس ، مزید کی ضرورت نہیں ہے ، عدت گذرنے کے بعد بیوی اپنے نفس کی مجاز ہوجائے گی ، اور یہ طریقہ بھی جواز کے دائرے میں آتا ہے کہ الگ الگ طہر میں تین طلاقیں دے ، لیکن یہ طریقہ تو ناجائز ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو یکجائی تین طلاقیں دیدے ، کیوں کہ اس کے نتائج سماج کے لئے بہت ہی تباہ کن ہیں ، تو کیا جائز طریقہ پر اس یکبارگی تین طلاق دینے پر سزا مقرر کی جاسکتی ہے ؟ کس نوعیت کی سزا مقرر کی جاسکتی ہے اور کس نوعیت کی نہیں ؟
جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سزائیں دو طرح کی ہیں ، متعینہ و غیر متعینہ ، شریعت میں بعض جرائم کے ارتکاب پر سزا کو متعین کر دیا گیا ہے ، ان جرائم کے ارتکاب پر وہ متعینہ سزا حاکم وقت مجرم کو دے گا ، اس میں کمی یا بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہے ، ایسی سزا کو حدود کہا جاتا ہے جیسے ،حد زنا ، حد سرقہ اور حد شرب خمر وغیرہ ، اور جن جرائم پر شریعت نے کوئی سزا مقرر نہیں کی ہے ، ان کو حاکم وقت کی صواب دید پر موقوف رکھا ہے ، ان کو تعزیر کہا جاتاہے ،اور یہ سزا کئی نوعیت کی ہو سکتی ہے ۔
یکبارگی تین طلاق دینا اگر چہ شرعا جرم ہے ، لیکن شریعت کی جانب سے کوئی سزا مقرر نہیں ہے جسے” حد“ کہا جائے البتہ نفسیاتی سزا کے طور پر یہ حکم دیا کہ تین طلاق کے بعد اس کی بیوی بالکلیہ علٰحدہ ہوگئی اور اگر واپسی ہو گی بھی تو ایسی ذلت کے ساتھ کہ اس سے بڑھ کر کوئی ذلت نہیں ہے اور یہ بہت بڑی نفسیاتی سزا ہے ۔
اس کے علاوہ قرآن و احادیث میں تین طلاق پر کوئی سزا نہیں ہے ، آپ ﷺ نے یکبارگی تین طلاق دینے پر بہت زیادہ برہمی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا : أیلعب بکتاب اللّٰہ وأنا بین أظہرکم (نسائی : ۴۹۵۵) ”کیا کتاب اللہ سے کھلواڑ کیا جائے گا جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں “مگر اس کو کوئی مالی یا جسمانی سزا نہیں دی۔
لیکن یکبارگی تین طلاق کے سد باب کے لئے تعزیر ہوسکتی ہے” التعزیر لا یختص بفعل معین ولا قول معین“ (معین الحکام :۵۹۱)” تعزیر کسی مخصوص فعل یا مخصوص قول کے ساتھ خاص نہیں ہے “ لہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یکبارگی تین طلاق دینے پر کونسی تعزیر (سزا) ہوسکتی ہے ۔
یکبارگی تین طلاق پر جسمانی سزا :
۱۔ حضرت عمر ؓ کے بارے میں روایات میں ہے کہ وہ یکبارگی تین طلاق دینے والوں کو جسمانی سز ا دیتے تھے ، چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے : جب حضرت عمر ؓ کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو یکبارگی تین طلاقیں دی ہوتیں ، تو اس کی پیٹائی فرماتے۔(المصنف لابن ابی شیبہ حدیث نمبر :۰۹۷۷۱ )
۲۔ ایک دوسری روایت میں ہے : ایک شخص کو جس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دی تھیں ،حضرت عمر ؓ کی خدمت میں لا گیا تو اس شخص نے کہا : میں نے ویسے ہی مذاق کیا ہے ، حضرت عمر ؓ نے اس کو درے سے مارا اور فرمایا : انما یکفیک من ذلک ثلاثة “ کہ تیرے لئے ان میں سے تین طلاقیں کافی ہیں (مصنف عبد الرزاق :۶ ۳۹۳حدیث :۰۴۳۱۱ )
۳۔ حضرت مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں :
”ان وجوہ کی بنا پر طلاق کا مروج دستور بلا شبہ واجب التعزیر جرم ہے حکومت پر فرض ہے کہ ایسے جرم پر عبرتناک سزا دے ، حکومت کی طرف سے غفلت کی صورت میں برادری کی طرف سے مقاطعہ (بائیکاٹ ) کی تعزیر مناسب ہے ۔ فقط واللہ تعالی اعلم“ (احسن الفتاوی: ۵ ۵۹۱)
۵۔ مشہور فقیہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کے لئے حکومت وقت کو مشورہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
”پھر خصوصیت کے ساتھ اس طلاق کے مسئلہ میں یہ بات بہت مفید ہوگی کہ تین طلاقیں بیک وقت دینا قانونی جرم قرار دیا جائے ، اور جو شخص اس جرم کا ارتکاب کرے اس کے لئے کوئی مناسب سزا مقرر کر دی جائے (ہمارے عائلی مسائل : ۶۵۱بحوالہ ”نکاح و طلاق اور ہماری ذمہ داریاں“: ص: ۱۳۱)
یکبارگی تین طلاق پر بائیکاٹ کی سزا :
یکبارگی تین طلاق پر سماجی بائیکا ٹ کی سزا دی جا سکتی ہے ، حکم شرعی کی خلاف ورزی پر سماجی بائیکاٹ کی سزاپر عہد نبوی میں عمل ہوا ہے ۔
۱۔ ”غزوۂ تبوک “میں نفیر عام کے باوجود ، کعب بن مالک ، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع اس غزوہ میں شریک نہیں ہوسکے تھے جب کہ کوئی عذر بھی نہیں تھا اور انہوں نے آپﷺ کے سامنے اپنے جرم کا اقرار بھی کر لیا منافقین کی طرح بہانے نہیں بنائے ،تو ان حضرات کا پچاس دن تک معاشرتی مقاطعہ(بائیکاٹ )کیا گیا خود حضرت کعب بن مالک کے بقول: ہم تینوں کے متعلق آپﷺ نے حکم دیا تھا کہ کوئی ہم سے بات نہ کرے سب علٰحدہ رہیںاور یہ واقعہ بہت ہی تفصیل کے کتب صحاح میں موجود ہے ۔
اس واقعہ سے برائی کے ارتکاب پر بطور تنبیہ معاشرتی بائیکاٹ (مقاطعہ ) کے جوازکا واضح ثبوت ملتاہے ۔”معین الحکام“ میں بھی مذکورہ واقعہ سے سماجی بائیکاٹ پر استدلال کیا ہے۔( ص:۵۹۱)
جب تعزیر ، کسی مخصوص جرم کے ساتھ خاص نہیں ہے اور بحیثیت تعزیر، مقاطعہ( بائیکاٹ) کا ثبوت حدیث سے ہے تو یکبارگی تین طلاق پر سماجی بائیکاٹ کیا جاسکتاہے ۔
۲۔ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم لاجپوریؒ تین طلاق دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں :
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا رواج غلط ہے اور خلاف سنت ہے اس پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے اگر باز نہ آئے تو بااثر لوگ قطع تعلق اور بائیکاٹ کر لیں ۔ ( فتاویٰ رحیمیہ :۵ ۶۱۳)
۳۔ حضرت مولانا مفتی احمد خانپور ی دامت برکاتہم ، طلاق کی بے راہ روی پر سماجی بائیکاٹ (مقاطعہ )سے متعلق ایک استفتاء کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
” آپ کے لئے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ ہے سماجی بائیکاٹ کی ، لیکن اس سلسلہ میں دو باتیں ملحوظ رہیں پہلی یہ کہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کے بقول ” جماعت سے خارج کر نا گناہوں کے ارتکاب سے ہوتا ہے جو قطعی حرام ہیں ، اور جن سے مسلمانوں کی سوسائٹی پر برا اثر پڑتا ہے ۔ (کفایت المفتی : ۹ ۴۹، ۵۹) اس لئے طلاق دینے کی وہ صورتیں جو شرعا حرام ہیں ان میں تو آپ یہ سزا تجویز کر سکتے ہیں ، اس کے علاوہ صورتوں میں نہیں “۔ (محمود الفتاوی : ۴ ۰۵۴)
یکبارگی تین طلاق پر جلا وطنی کی سزا :
معین الحکام میں ہے : ”اور رسول اللہ ﷺ نے جلا وطنی کی سزا دی ہے ، چنانچہ مخنثین کو مدینہ سے نکالنے کاحکم دیا اور ان کو جلا وطن کیا “(ص :۵۹۱ )
صاحب معین الحکام خلفائے راشدین کے عہد میں پیش آنے والے تعزیر کے چند واقعات کا ذکر کر تے ہوئے ،فرماتے ہیں :
”حضرت عمر ؓنے صبیغ نامی شخص سے ترک تعلق کا حکم دیا، جو ”الذاریات“ وغیرہ کے بارے میں سوالات کر تا تھا اور لوگوں کو قرآن کریم کے متشابہات کے سمجھنے کو کہتا تھا چنانچہ اس کی دردناک پٹائی کی اور بصرہ یا کوفہ کی طرف جلاوطن کر دیا “۔ ( ص: ۵۹۱)
جب بحیثیت تعزیر، جلاوطنی کا ثبوت عہد نبوی اور عہد خلفائے راشدین میں ملتاہے ،اور تعزیر کسی جرم کے ساتھ خاص نہیں ہے تو یکبارگی تین طلاق پر جلاوطن بھی کیا جاسکتاہے ۔
یکبارگی تین طلاق پر قید کی سزا :
صاحب معین الحکام قید (حبس ) کی سزا کی مشروعیت پر طویل بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”اس بحث سے ثابت ہوگیا کہ آپ ﷺ نے قید (حبس ) کی سزادی ہے اور حضرت عمر ؓ کے عہد میں باضابطہ قید خانہ تھا ، اور ”حطیئہ “ شاعر کو قید میں ڈالا تھا اور حضرت عثمان ؓ نے” صابئی بن الحرث “کو قید کر دیا تھا حضرت علی ؓ کا بنایا ہوا قید خانہ کوفہ میں تھا اور حضرت عبد اللہ بن زیبر ؓ کا بھی بنایا ہوا قید خانہ تھا “۔(ص:۷۹۱)
جب ”قید “ بحیثیت تعزیر ، ثابت ہے تو یکبارگی تین طلاق کے جرم پر بھی قید کی سزا دی جاسکتی ہے ۔
یکبارگی تین طلاق پر مالی جرمانہ :
مالی جرمانہ ، صرف امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک جائز ہے ، جب کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک جا ئز نہیں ہے ۔(معین الحکام :۵۹۱)
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں : تعزیر بالمال امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک ناجائز ہے (کفایت المفتی :۲ ۵۶۱)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں :”مالی جرمانہ شرعا ناجائز ہے “۔(فتاوی محمودیہ:۵۱۱۲)
لہذا جب مالی جرمانہ شرعا ناجائز ہے تو یکبارگی تین طلاق پر مالی جرمانہ عائد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ہندوستانی سماج میں یکبارگی تین طلاق پر کونسی سزا اپنائی جائے :
مذکورہ بالا تعزیرات میں سے کس نوعیت کی سزاکو موجودہ حالات میں ہندوستانی سماج میں عملاً اپنایاجا سکتا ہے ۔
مالی جرمانہ تو جائز ہی نہیں ہے ، لہذا یکبارگی تین طلاق پرمالی جرمانہ عائد نہیں کیا جاسکتا ۔
جسمانی سزا(مار پیٹ )، جلا وطنی اور قید کی سزاکے نفاذ کے لئے قوت قاہرہ کی ضرورت ہے ،اور ہندوستا ن میں فی الحال مسلمانوں کو قوت قاہر ہ حاصل نہیں ہے لہذا یہاں یکبارگی تین طلاق پران تینوں سزاو ¿ں کاعملا نفاذ نہیں ہوسکتا ہے ۔
مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی اور مفتی رشید احمد صاحب ؒ نے جو درد ناک سز ا کی وکالت کی ہے ، تو ان کے پیش نظر حکومت پاکستان ہے جہاں مسلم حکمران ہیں لہذاوہاں یہ سزا ممکن ہے ۔
یکبارگی تین طلاق پرسماجی بائیکاٹ (مقاطعہ )کی سزا موجودہ حالات میں ہندوستانی سماج میںعملا ممکن ہے ،چنانچہ یکبارگی تین طلاق اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کے لئے ایسی انسدادی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جو یکبارگی تین طلاق جیسی سماجی برائیوں کے ارتکاب کر نے والوں کے خلاف ایک مدت معینہ تک سماجی بائیکاٹ کا اعلان کرے ۔
لیکن دو باتوں کا خاص خیال رکھا جائے ، پہلا عدل و انصاف کا پہلو ہمیشہ پیش نظر رہے ، دوسرے یہ کہ سماجی بائیکاٹ کی سزا صرف انہیں برائیوں پر ہوجو شرعا حرام ہیں، جیسا کہ مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ کے فتوی میں اوپر گذر چکا ۔
کیا یکبارگی تین طلاق پر ہندی عدلیہ سے سزا کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے :
حالیہ دنوں میں میڈیا اور اسلام مخالف طاقتوں کی جانب سے اسلام کے تین طلاق کے قانون پر نکتہ چینی اور پروپیگنڈہ سے گھبرا کر بہت سارے مسلم دانشوران حکومت ہند اور عدلیہ سے یکبارگی تین طلاق پر سزا کا مطالبہ کر بیٹھے ، واضح ر ہے کہ یہ محض بھولا پن ہے ،جو حکمت و مصلحت کے سراسر خلاف ہے ، اور حکومت اور عدلیہ کو شریعت میں مداخلت کی دعوت دینے کے مرادف ہے ۔
اصل کام :
مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ فرماتے ہیں :
”انسداد جرائم کے لئے ارشاد ، تلقین ، تذکیر ، تزکیہ ¿ باطن کی ضرورت ہے ، تا کہ دل میں خوف و خشیت پیدا ہو ، جنت و دوزخ کا استحضار، قبر، قیامت ، حشر ، حساب ، کتاب ، خدائے قہار کی عظمت اور اس کے انعامات کا مراقبہ لازم ہے ، تا کہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کی رغبت ہو ورنہ محض سختی سے اصلاح نہیں ہوتی ، اگر ہوتی ہے تو عارضی ہوتی ہے “(فتاوی محمودیہ : ۵ ۵۸۱)
مذکورہ عبارت کو نقل کرنے کے بعد مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب فرماتے ہیں :
اس لئے تمام ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ کہ اسی روش پر گامزن ہوں، یہی اصل علاج ہے علماءحضرات اس مقصد کو اپنا مشن بنائیں ، اوراس کے لئے اپنے کو فارغ کریں کبھی ضرورت پیش آئے تو تعزیری کارروائی حدود شرع کے اندر رہ کر انجام دیں ، باقی محض تعزیرات والا طریقہ دیر پا نہیں ہے ؛ بلکہ ایک مدت کے بعد شریعت اور ذمہ داران کے خلاف بغاوت کا علم اٹھانے کاذریعہ ہے اور عورتوں کی اشک شوئی بھی حقیقی طور پر نہیں ہوگی ، بہت بہت تو اتنا ہوگا کہ طلاق کا سد باب ہوگا لیکن ازدواجی زندگی کی تلخی میں اضافہ ہوگا ۔ ( محمود الفتاوی : ۴ ۳۵۴)

(★ مضمون نگار مرکزی دارالقضاءامارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں معاون قاضی ہیں)
رابطہ نمبر :9661319653 میل ائی ڈی hussainahmadqasmi9661@gmail.com