شاہین باغ تحریک سے کسان آندولن تک

شمس تبریز قاسمی
گذشتہ ڈھائی سالوں کے دوران ملک اور دنیا نے ہندوستان میں دو عظیم احتجاج او رتحریک کا مشاہدہ کیاہے ۔ ایک سی اے اے تحریک اور دوسرا کسان آندولن ۔دونوں تحریک نے تاریخ رقم کی ہے ، ایک نئی مثال قائم کی ہے اور آزاد بھارت میں ایک نیاریکاڈ بنایاہے ۔ شاہین باغ تحریک کی بنیاد شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کی مخالفت ہے اور یہ تحریک ابھی تک جاری ہے ۔ بی جے پی حکومت نے دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا جس میں پڑوسی ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے سبھی مذہب کے لوگوں کو ہندوستان میں شہریت دینے کی قرار دی تھی صرف مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیاگیاتھا ۔یہ بل بنیادی طور پر ہندوستان کے آئین کے خلاف تھا کیوں کہ اس میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی بات تھی ، دوسری طرف حکومت نے آسام کی طر ح پورے ملک میں این آرسی کرانے کا اعلان بھی کردیاتھا۔ بیک وقت حکومت کے دونوں اعلان کی وجہ سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے شدید مخالفت کی لیکن ارباب اقتدار کے پاس واضح اکثریت ہونے کی وجہ سے 10 دسمبر کو یہ بل لوک سبھامنظور ہوگیا او راگلے دن 11دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا سے بھی منظور ہوگیا ۔ اس بل کو پیش کئے جانے کے بعد سے ہی بحث اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ، 11 دسمبر کو جامعہ کے اسٹوڈینٹ نے معمولی احتجاج بھی کیا ، اگلے دن 12 دسمبر کو بھی انہوں نے احتجاج کیا ، 13 دسمبرکو احتجاج کے دوران جامعہ کے طلبہ پر پولس نے لاٹھی چارج کردیااور آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ 15 دسمبر 2020کو جامعہ کے اسٹوڈینٹ سمیت عام شہریوں نے پارلیمنٹ مارچ کیا ، جیسے مظاہرین آشرم کے قریب پہونچے پولس نے ان پر لاٹھی چارج کردیا ، فائرنگ بھی کی ، آنسو گیس کے گولے تک داغے گئے ، پولس مظاہرین کا تعاقب کرتے ہوئے جامعہ اسلامیہ کے کیمپس میں داخل ہوگئی اور یہاں بے دردی سے طلبہ وطالبات پر لاٹھی برسانے لگی ، جامعہ کی مسجد میں داخل ہوکر لاٹھی چارج کردیا ، لائبریری میں مطالعہ کررہے طلباءوطالبات پر بھی پولس نے حملہ کردیا ، یہاں موجوداسٹوڈینٹ کی بے دردی سے پٹائی کی ، آنسو گیس کا استعمال کیا ۔ پولس کے اس حملہ میں بڑی تعداد میں اسٹوڈینٹ شدید زخمی ہوگئے ۔ اس واقعہ پر دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا ۔ اسی رات کو شاہین باغ میں خواتین نے بھی احتجاج شروع کردیا ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈینٹس نے بھی مولانا ابوالکلام آزاد گیٹ کوسینٹر بناکر باضابطہ احتجاج شروع کردیا ، رفتہ رفتہ پورے ملک میں یہ احتجاج شروع ہوگیا ، تقریبا 500 سے زیادہ جگہوں پر شاہین باغ قائم ہوگیا ، ہندوستان کے اکثر صوبوں او رشہروں کے ساتھ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں بھی ہندوستانی شہریوں نے احتجاج کیا ۔مارچ 2020 میں کرونا نے دستک دی ، دہلی 23 مارچ کو دہلی میں لاک ڈاﺅن لگادیاگیا ، 25 مارچ سے پورے ملک میں لاک ڈاﺅن لگانے کا اعلان ہوگیا ،24 مارچ کو پولس نے احتجاج گاہ کو اکھاڑ دیا اور وہاں موجود مظاہرین کو حراست میں لے لیا اور اس طرح 120 دنوں کے بعد شاہین باغ احتجاج ختم ہوگیا، اس کے بعد ملک کے دیگر جگہوں پر ہورہے احتجاج میں بھی نرمی آگئی اور سبھی نے ملتوی کردیا ، شاہین باغ کی خواتین نے کہاکہ کرونا کی وجہ سے ہمارا احتجاج ابھی ملتوی ہوا ہے ضرروت پڑی تو دوبارہ ہم سڑکوں پر آئیں گے ۔سی اے اے تحریک کے دوران 23 مسلمانوں کی شہادت ہوئی ، بے شمار زخمی ہوئے ، اسی دوران فروری میں دہلی فساد بھی ہوگیا جس میں مسلمانوں کا ہی جانی ومالی نقصان ہوااور سی اے اے تحریک میں سرگرم دسیوں نوجوانوں کو فساد کا ذمہ دار بتاتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت میں جیل میں بند کردیاگیا ۔
کسان آندولن کی شروعات نومبر 2020سے ہوئی ۔ 20 ستمبر 2020 میںحکومت نے پارلمینٹ سے زراعت سے متعلق تین بلوں کو منظور کرانے میں کامیابی حاصل کرلی جس کی اپوزیشن نے شدید مخالفت کی ، پنجاب ، ہریانہ اور یوپی کے کسانوں نے بھی احتجاج کیا ، متعدد مرتبہ کسانوں نے سڑکوں کو جام کیا ، سرکار سے قانون واپس لینے کی مانگ کی لیکن نہ تو میڈیا نے اسے دکھایا اور نہ سرکار نے کوئی توجہ دی جس کے بعد کسانوں نے شاہین باغ کی طرز پر دہلی میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ،26 نومبر 2020 کو پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے اپنا ٹریکٹر ، ٹرالی اور پورا سازو سامان لیکر دہلی کی جانب کوچ کیا ، پولس نے انہیں ہریانہ اور دہلی کی سرحد پر روک دیا جس سنگھو باڈر کہاجاتاہے ، کسانوں نے وہیں احتجا ج شروع کردیا ۔اگلے دن ہوکر مغربی یوپی کے کسانوں نے غازی پور باڈر پہونچ کر احتجاج شروع کردیا ، ہریانہ اور یوپی کے کچھ کسانوں نے ٹکری باڈر کو احتجاج گاہ بنالیا ۔ کسانوں پر حملہ ہوا ، حکومت کے افراد اور میڈیا نے انہیں خالصتانی ، دہشت گرد اور سب کچھ کہا ، کسان تحریک کو سکھوں کا احتجاج بنانے کی مکمل کوشش ہوئی لیکن کسانوں نے یہ سازش ناکام بنادی شروع میں سنگھوباڈر سبھی کی توجہ کا مرکز تھا بعد میں غازی پور باڈر سبھی کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔26 جنوری 2021 کی ٹریکٹر ریلی کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ محسوس ہونے لگا کہ اب یہ تحریک ختم ہوجائے گی لیکن کسانوں نے ہمت اور حوصلہ سے کام لیا او ریہ تحریک پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی ۔ کسانوں نے روزانہ پریس کانفرنس کرنے کا معمول بنایا ، ملک کے مختلف علاقوں میں مہا پنچایت منعقد کرکے پورے ملک کے کسانوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ، سوشل میڈیا کا منظم انداز میں استعمال کیا ۔ کسانوں نے اپنا اخبار تک شائع کیا ۔ کسانوں کے رہنما نے کھل کر اس تحریک کو ہر طرح سے سپورٹ کیا ۔اکالی دل نے بی جے پی سے اپنا اتحاد ختم کرلیا ، بی جے پی سے قریب سکھوں کئی سماجی تنظیموں نے واضح طور پر کسانوں کا ساتھ دیا ۔ دیکھتے دیکھتے آزاد بھارت کی یہ سب سے طویل تحریک بن گئی ، اس دوران 700 سے زیادہ کسانوں کی شہادت بھی ہوئی ۔ ایک سال پورے ہونے میں صرف 8 دن باقی رہ گئے تھے کہ اچانک 19 نومبر کو صبح ساڑھے نوبجے وزیر اعظم نریندر ا مودی نے ٹی وی چینل پر قوم کے نام اپنے خطاب میں اعلان کیا ملک سے معافی چاہتے ہوئے ہم زراعت سے متعلق تینوں قوانین کو واپس لے رہے ہیں ۔ کسانوں سے درخواست ہے کہ وہ سڑکوں کو خالی کرکے اپنے گھروں اور کھیتوں کو لوٹ جائیں ۔ کسانوں نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا لیکن یہ بھی کہاکہ وزیر اعظم کے اعلان پر بھروسہ نہیں ہے ، جب تک پارلیمنٹ میں اسے منسوخ نہیں کیا جائے گا اور ایم ایس پی کی یقینی دہانی نہیں کرا ئی جائے گی ہمارا احتجا ج جاری رہے گا ۔
شاہین باغ تحریک اور کسان آندولن میں کچھ چیز یںیکساں ہیں اور کچھ میں فرق ہیں ۔ ایک بنیادی فرق یہ کہ شاہین باغ تحریک بغیر کسی نتیجہ پر پہونچے ختم ہوگئی جبکہ کسان آندولن کی مانگ پوری ہوجانے کے باوجود ابھی تک جاری ہے ۔ شاہین باغ احتجاج یا سی اے اے مخالف تحریک کو جامعہ کے اسٹوڈینٹ یعنی مسلمانوں نے شروع کیاتھا ، بعد میں دوسرے لوگوں نے بھی سپورٹ دینا شروع کیامختلف سماجی ،سیا سی اور مذہبی تنظیموں اور کمیونٹیز کے رہنماﺅں نے اسٹیج شیئر کیا ، خطاب کیا ، ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی لیکن کسی نے اپنے علاقے میں اپنے لوگوں کے ساتھ احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی مدد کی ۔ دوسری طرف کسانوں کے آندولن کو سبھی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماﺅں نے اپنے پلیٹ فارم سے سپورٹ کیا ۔ان کے حق میں ریلیاں نکالی ، احتجاج کیا اور کسی نے ان کے ساتھ جاکر اسٹیج شیر نہیں کیا ۔
سی اے اے تحریک بنیادی طور پر آئین ہند کے تحفظ اور دستور بچانے کی لڑائی تھی ، یہی اسے نام بھی دیاگیا تھا لیکن میڈیا اور بی جے پی نے اسے مسلمانوں کا احتجاج بتانے کی کوشش کی اور اس میں کامیابی بھی ملی ، دوسری طرف کسانوں کے آندولن کو بھی سکھوں کا احتجاج بنانے کی کوشش کی گئی لیکن سکھوں نے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا ، راکیش ٹیکٹ کو خود مختار ترجمان اورمیڈیا کا چہرہ بناکر اسے مکمل طور پر کسانوں تک کا پروٹیسٹ باور کرانے میں کامیابی ملی ۔
کسانوں کے آندولن کو سکھوں کے سیاسی ، سماجی ،مذہبی سبھی رہنماﺅں ہر طرح سے سپورٹ کیا ، گاﺅں اور بلاک کی سطح پر کمیٹیاں بنائی گئیں، احتجاج میں شامل لوگوں کو ہر طرح کی مددپہونچائی جاتی ہے ،جونہیں آسکے و ہ بھی خود کو اپنی جگہ پر رہنے کے باجود احتجا ج کا ہی حصہ سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف شاہین باغ تحریک اور سی اے اے مخالف پروٹیسٹ کو مسلمانوں کے رہنماﺅں اور ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے کھل کر سپورٹ نہیں کیا ، کسی طرح کی کوئی مدد نہیں پہونچائی ۔ مضبوطی کے ساتھ کوئی ان کے پیچھے کھڑا نہیں تھا ، کوئی ایک چہرہ تک نہیں تھا ، مجبور ی میں تین دادیوں کو اس کا چہرہ بنایاگیا تاکہ پولس افسران اور دیگر جگہوں پر بات چیت کرنے میں مدد مل سکے ۔
زراعت سے متعلق تینوں قانوں منسوخ کئے جانے کا اعلان ہونے کے بعد مسلمانوں کی جانب سے یہ مطالبہ ہورہاہے کہ اب شہریت ترمیمی قانون بھی سرکار کو واپس لینے کا اعلان کردینا چاہیئے ، سوال بھی کیا جارہاہے کہ جس طرح کسانوں نے احتجاج کیاہے اسی طرح مسلمانوں نے بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کیاتھا پھر ان کے مطالبات کیوں نہیں مانے گئے ، ٹویٹر پر یہ بحث بھی ہورہی ہے کہ کیا مسلمانوں کو دوبارہ سی اے اے مخالف تحریک شروع کرنی چاہیئے ۔ لیکن ان سب پر گفتگو کرنے سے پہلے کسان آندولن کی کامیابی کے اسباب پر غور کرنا اور گہرائی سے جائزہ لیناضروری ہے ۔ کچھ بنیادی فرق گذشتہ سطور میں ہم نے بتانے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی بہت کچھ اس کی تفصیل میں باقی ہے ۔
شاہین باغ تحریک کی بنیاد پر بھلے ہی سی اے اے قانون کو سرکارنے واپس نہیں لیاہے لیکن اس تحریک نے مسلمانوں کو بہت کچھ دیا ہے ۔ مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی ، ہمت پیدا ہوئی ، احتجاج کرنے اور سڑکوں کو جام کرنے کا ان میں حوصلہ آیاہے ، مسلم خواتین کی ایک مثبت شبیہ دنیا کے سامنے آئی ہے ، ان کی صلاحیت اور قابلیت کا دنیا نے اعتراف کیاہے ۔ ہندوستان مسلمانوں کے بارے میں دنیا کا نظریہ تبدیل ہوا ہے لیکن ان سب کے باوجود اصل مقصد میں کامیابی نہ ملنے کا افسوس ہے ، سرکار ، سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں کے دوہرے رویہ پر سوال اٹھانا لازمی ہے ۔ ملی تنظیموں اور مسلم قائدین کی بے حسی ، کنارہ کشی اور ساتھ نہ دینے کے عمل پر گفتگو کرنا بھی ضروری ہے کہ جب مسلم نوجوانوں اور مسلم خواتین نے پورے ملک میں انقلاب برپاکیا اس وقت مسلم تنظیموں نے کیوں ساتھ نہیں دیا ؟۔ اب سی اے اے واپس لینے کا مطالبہ کرنے والے رہنماسے یہ سوال پوچھنا بھی ضروری ہے کہ کیا بند کمروں میں بیٹھ کر اخبارات میں پریس ریلیز چھپوانے والے رہنماﺅں کی کوئی مانگ کبھی دنیا کی تاریخ میںپوری ہوئی ہے ؟۔ کیا ایسے مطالبات پر دنیا کی کسی حکومت نے کبھی توجہ دی ہے ؟۔ کیا کوئی سرکار اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئی ہے؟۔ شاہین باغ تحریک اور کسان آندولن کے درمیان فرق اور اس تعلق سے بہت کچھ تجزیہ تبصرہ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر موجودہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com

SHARE
شمس تبریز قاسمی ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور بانی ہیں ۔اسپیشل اسٹوریز ، فیچرس اور کنٹینٹ تحریر کرنے کے علاوہ ملکی اور عالمی مسائل پر خصوصی کالم لکھتے ہیں، یوٹیوب پرانٹرویو ز ، گراﺅنڈ رپورٹس اور اسپیشل پروگرام پیش کرتے ہیں ، ڈبیٹ شو ” دیش کے ساتھ “ اور یومیہ پروگرام ” خبر در خبر “ کے وہ میزبان بھی ہیں ۔ یہاں دیئے گئے لنک کے ذریعہ سوشل میڈیا پر آپ ان سے براہ راست جڑسکتے ہیں ۔