شمس تبریز قاسمی
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں سکھوں کے نویں گرو تیغ بہاد ر کو قتل کیوں کیاگیاتھا ۔کیااورنگزیب نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر اسلام قبول کرنے کو کہا اور جب انکار کردیا تو قتل کردیاگیا یا انہوں نے مغلیہ سلطنت کے خلاف بغاوت کی تھی ۔ اورنگزیب عالم گیر کے خلاف سازش رچی تھی اس لئے قتل کیاگیا ۔اس تحریر میں ہم یہی سچائی جاننے کی کوشش کریں گے کہ سکھوں کے گرو تیغ بہارد سنگھ کا قتل مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں کیوں ہواتھا ۔
اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنا ۔جرم کو چھپانا اور اصل تاریخ کو چھپاکر افسانہ گڑھنا کچھ سماج کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے ۔ گر و تیغ بہاد ر کے قتل کے معاملہ میں بھی کچھ سکھ مورخین نے اسی روایت کو اختیار کیا اور اصل واقعہ ۔ قتل کی حقیقی وجہ بتانے کے بجائے اسے مذہب سے جوڑ دیااور اب اسی کو بتایا جاتاہے ۔ یہ پیروپیگنڈہ اتنا مشہور ہوگیا کہ سچ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اسی پیروپیگنڈہ کو سچ مانتے ہوئے 26 دسمبر 2022 کو سکھوں کے ایک پروگرام میں شرکت کی او ر کہاکہ اورنگزیب نے اسلام قبول نہیں کرنے کی وجہ سے گرو تیغ بہادر کا قتل کردیاتھا ۔
ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی شروعات ظہیرالدین بابر سے ہوتی ہے ۔ بابر ہندوستان میں یہاں کے برہمنوں کی دعوت پر آئے تھے ۔ ابراہیم لودھی سے جنگ ہوئی اور بابرنے فتح حاصل کرکے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ برہمنوں اور یہاں کے راجاﺅں کو امید تھی ظہیر الدین بابر ابراہیم لودھی کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد واپس لوٹ جائیں گے اور یہا ں ہم اپنی حکومت قائم کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا او راسی کے بعد برہمنوں ، راجپوتوں نے کئی طرح کی سازشیں شروع کردی ۔ اسی زمانے میں سکھ دھرم کا آغاز ہورہاتھا جس کا مقصد بھی ہندوستان کو سکھ ملک بنانا اور مسلمانوں کو مٹانا تھا ۔ کئی مرتبہ سکھوں نے برہمنوں کے ساتھ ملکر بھی سازش انجام دیا ۔
سکھوں کی تاریخ کے مطابق سکھ مت کے بانی اور پہلے گرو یعنی گرو نانک کا برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد ڈالنے والے حکمراں ظہیر الدین محمد بابر سے سامنا ہوا تھا جنھوں نے انھیں قید کروا دیا تھا لیکن ان کی روحانیت کے علم کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا تھا۔ دوسری جانب اس زمانے کی مغل تاریخ میں ایسے کسی واقعے کا ذکرنہیں ملتاہے ۔
مشہور مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنے دور حکومت کی ابتدا میں ہی سکھوں کے پانچویں رہنما گرو ارجن دیو کو قتل کروا دیا تھا۔ سکھوں کی تاریخ میں اسے مذہبی کشمکش کا نتیجہ بتایا جاتا ہے جبکہ مغل تاریخ میں اس کی سیاسی وجوہات موجود ہیں کیونکہ جانشینی کی لڑائی میں انھوں نے جہانگیر کی جگہ ان کے بیٹے خسرو کی حمایت کی تھی۔
مشہور مو¿رخ عقیل عباس جعفری نے لکھاہے کہ’گرو ارجن دیو جی کے قتل کا سبب ان کی سکھ مذہب سے وابستگی نہیں بلکہ جہانگیر کے باغی صاحبزادے خسرو کی امداد کرنا تھا۔ گرو ارجن دیو جی وہ پہلے سکھ رہنما تھے جنھوں نے اپنی قوم کو ایک منظم اور ہتھیار بند عسکری شکل دی ۔آرمی بنالیا اور اس قوم کو سکھ راج قائم کرنے کا نصب العین بھی دیا۔ انھوں نے سکھوں سے نذرانے کی وصولی کو باقاعدہ اور باضابطہ بنایا ،ان کے کارناموں میں گولڈن ٹیمپل امرتسر کی تعمیر اور گرنتھ صاحب کی تدوین شامل ہیں۔ انھوں نے اتنی فوجی قوت حاصل کرلی تھی کہ جہانگیر کے باغی صاحبزادے خسرو کو سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے گرو جی کا عملاً سہارا لینا پڑا تھا۔ اس لئے ان کا قتل ان کی فوجی طاقت ، جہانگیز کے مخالفین کی حمایت اور دیگر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر کیاگیا ۔ مذہبی معاملہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتاہے ۔
1675 میں سکھوں کے نویں گرو تیغ بہادر کے قتل کا معاملہ سامنے آیا ۔سکھوں کی تاریخ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کچھ کشمیری پنڈتوں نے مغل ٹیکس سے پریشان ہو کر گرو تیغ بہادر سے اپیل کی تھی اور گرو تیغ بہادر نے اپنے بیٹے گرو گوبند سنگھ، جو بعد میں دسویں اور آخری گرو بنے، کے کہنے پر دلی میں جا کر مغل بادشاہ اورنگزیب سے اس کے متعلق ملاقات کی ۔ اورنگزیب نے انہیں اسلام قبول کرنے کیلئے کہا لیکن انہوں نے انکار کردیاجس کے بعد انھیں دہلی میں ایک بڑے مجمعے کے سامنے قتل کروا دیا گیا تھا۔
دوسری طرف اس بارے میں ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ گرو تیغ بہادر اپنے بیٹے گوبند رائے، جو آگے چل کر گرو گوبند سنگھ بنے، کے اصرار پر کشمیری پنڈتوں کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور دہلی کا رخ کیا۔ جب وہ مغل دربار پہنچے تو ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان سے اپنے گرو ہونے کے ثبوت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرنے کو کہا گیا۔ انہوں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ایک جادوئی منتر لکھا اور ایک دھاگے کی مدد سے گلے میں باندھ لیا۔ انہوں نے مغل حکام سے کہا کہ جب تک یہ منتر ان کے گلے میں بندھا رہے گا ان کا سر تن سے جدا نہیں ہو سکتا، چاہے جلاد تلوار سے ان کی گردن پر وار ہی کیوں نہ کرے۔
مگر جب گرو کی گردن پر تلوار سے وار ہوا تو سر تن سے جدا ہو گیا۔ بعد میں جب مغل حکام نے گرو کے ہاتھ سے لکھے منتر کو کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا، “انہوں نے اپنا سر تو دیا مگر اپنا راز نہ دیا۔”
مشہور مورخ عقیل عباس جعفری نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں یہ بتایا ہے کہ گرو تیغ بہادر کا اصل نام تیاگ مل تھا۔ وہ کرتار پور کی جنگ میں اس بہادری سے لڑے کہ ان کے والد گرو ہرگوبند سنگھ نے انھیں تیغ بہادر کا خطاب دیا اور پھر یہی ان کا نام بن گیا۔ گرو تیغ بہادر نے سکھ قوم کو ایک منظم فوج بنانے کے لیے ہر ممکن اور منظم کوشش کی۔ وہ سکھوں کے مسلح ہونے کو مذہب کا نمایاں ترین وصف اور اعزاز قرار دیتے تھے اور اپیل کرتے تھے کہ سکھ قتل کیلئے تیار رہیں ۔ ان کا مقصد ایک سکھ ریاست بنانا بھی تھا ۔
لیکن سوال ہے کہ پھر قتل کیوں ہو ا۔ اس حوالے سے عباس جعفری کا کہنا ہے کہ گرو تیغ بہادر کو اورنگزیب کے خلاف برسرپیکار کرنے اورقتل کرانے میں اصل سازش اور منصوبہ بندی ہندو برہمنوں کی تھی او ر اس بات کا اعتراف کچھ ہندو اور سکھ مورخین نے بھی کیاہے۔
مو¿رخین نے لکھا ہے کہ یہ برہمن گرو تیغ بہادر جی کی مذہبی، سیاسی اور فوجی قوت سے بے حد خائف ہوچلے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سکھ دھرم اس قدر فروغ پاچکا ہے کہ اب ہندو مت کا وجود خطر ے میں ہے۔ انھوں نے پہلے اپنے راجاو¿ں اور پنڈتوں کے جتھے گرو جی کے پاس بھجوائے اور ان سے کہا کہ اورنگزیب ہم سے جزیہ وصولنے اور زبردستی مسلمان بنانے کے درپے ہے اور صرف آپ کی مدد ہی ہمیں اس ظلم سے بچا سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک پیغام انھیں کشمیر سے پنڈت کرپا رام کا موصول ہوا جس میں گرو تیغ بہادر سے فریاد کی گئی تھی کہ اورنگزیب پورے ہندوستان کو مسلمان بنانا چاہتا ہے اور صرف گرو تیغ بہادر جی ہی انھیں اس مصیبت سے محفوظ کر سکتے ہیں۔
کہاجاتاہے کہ یہ ہندو برہمنوں کی دو رخی چال تھی، ان کا خیال تھا کہ اورنگزیب نے گرو جی کو مسلمان بنالیا تو برہمنوں کے دشمن کا خاتمہ ہوجائے گا اور اگر گروجی نے مسلمانوں کو شکست دے دی تو بھی فائدہ برہمنوں کا ہوگا۔ ادھر اورنگزیب کے درباریوں رام رائے اور دھیرمل نے اورنگزیب کو گرو تیغ بہادر جی کی بڑھتی ہوئی فوجی اور مذہبی طاقت سے خوف زدہ کیا اور اورنگزیب سے گرو جی کو دہلی طلب کرنے کے احکامات حاصل کروا لیے۔ یہ سکھوں کی مذہبی اور سیاسی تاریخ کا انتہائی اہم مگر جذباتی اور واقعاتی موڑ تھا۔
سکھ تاریخ لکھنے والے ایک مورخ جوزف ڈیوے نے قتل کی ایک الگ تشریح پیش کی ہے۔ان کا کہناہے کہ گروتیغ بہادر کے قتل کی حقیقت جاننے کیلئے اس واقعے کے پیچھے چھپے سیاسی مقصد کو سمجھنا ہوگا اورآپ کو اس دور کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینا پڑے گا جس میں تیغ بہادر کو سکھ گرو کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ سکھوں کے آٹھویں گرو ہر کرشن کی موت سات سال میں ہوگئی تھی اس کے بعد تیغ بہادر کو سکھ برادری کے سربراہ کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ہر کرشن کے قلیل مدتی دور کے دوران ان کے بڑے بھائی، رام رائے، جو گرو کی حیثیت حاصل کرنا چاہتے تھے، نے ان کے خلاف مسلسل سازشیں کرنا شروع کر دیں اور چند مرکزی سکھ سربراہان کے ساتھ لابنگ شروع کی اور سکھ برادری کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہی گرو نانک کے روحانی جانشین بننے کے حقدار ہیں۔ اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں گرو ہر کرشن نے ایک مبہم حکم جاری کیا جس کی تشریح یہ بنی کہ گرو تیغ بہادر کو اگلے گرو کے طور پر مقرر کیا جائے۔
یہ اعلٰی مقام حاصل ہوتے ہی گرو تیغ بہادر نے محصولات کا حجم بڑھانے کے لیے نئے سیاسی اتحاد قائم کرنے شروع کر دیے تا کہ گرو کی حیثیت کے دعوے کرنے والوں سے مقابلہ کیا جاسکے۔ جوزف کے مطابق گرو اور ان کے پیروکار “ہانسی اور ستلج کے ویران علاقوں کے درمیان لوٹ مار سے اپنا گزارا کرتے تھے جس کی وجہ سے کسانوں میں ان کے خلاف ناپسندیدگی بڑھ گئی تھی۔” گرو نے ایک مسلمان انتہاپسند آدم حافظ کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور امیر ہندوو¿ں اور مسلمانوں پر ٹیکس نافذ کردیا ۔
مو¿رخ نے مزید نشاندہی کی ہے کہ گرو نے بھگوڑوں کو پناہ دی۔ اپنی فوج بنانی شروع کردی۔ ان کے خلاف ایک اور شکایت شہنشاہ کے کانوں تک رام رائے نے پہنچائی کہ گروتیغ بہادر نے اپنی فوج بنارکھی ہے ۔ علاقہ میں وصولی کرتے ہیں ۔ ہندو اور مسلمان دونوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ جس کے بعد ان کے قتل کا فرمان صادر ہوا ۔
یہ بھی وجہ لکھی گئی ہے کہ جزیہ اورنگزیب سے بھی پہلے کئی بادشاہوں نے برصغیر میں نافذ کیا تھا لیکن انھوں نے اس سے برہمنوں کو استثنیٰ دے رکھا تھا اورنگزیب کے دور میں کسی کو چھوٹ نہیں تھی۔اس وجہ سے برہمنوں نے گرو تیغ بہادر کو اورنگزیب کے دربار میں بھیجا ۔
پوری تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ گرو تیغ بہادر کے قتل کی وجہ سیاست تھی ، بغاوت تھی ، سازش تھی مذہب کاکوئی معاملہ اس میں شامل نہیں ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ اورنگزیب یا کوئی مسلمان بادشاہ کسی کو اسلام قبول نہ کرنے کی وجہ سے قتل کردے ۔ یہ اسلام کے خلاف ہے ۔ اگر اورنگزیب مسلمان نہ بننے والوں ک مارتے تو پھر بھارت میں آج ایک بھی ہندو نہیں ہوتا ۔ سبھی مسلمان بن جاتے جو انکار کرتے وہ قتل ہوجاتے لیکن آج بھی پورے برصغیر میں اکثریت ہندﺅوں کی ہی ہے ۔ اورنگزیب کے دور میں بہت سارے ہندو راجاتھا ، ان کے افسران اور وزیر بھی ہندو ہوتے تھے ۔ برہمن اور راجپوت بہت قریبی تھے پھر ان لوگوں کا قتل کیوں نہیں ہوا ۔
گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر نگزیب پر کتاب تصنیف کرنے والی مو¿رخ آڈری ٹرشکی کو مخاطب کرتے ہوئے ایک یوزر نے لکھا ‘جو لوگ اورنگزیب کو عظیم رہنما کہتے ہیں۔۔۔ آج ہی کے دن 1675 میں گرو تیغ بہادر کو اورنگزیب کے حکم پر دہلی میں اسلام نہ لانے کی وجہ سے عوام کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہندو کے لیے لڑے وہ کشمیریوں کے لیے لڑے۔’
اس کے جواب میں سیفی فیراسہ نامی صارف نے لکھا کہ ‘انھیں ’اسلام قبول نہ کرنے‘ کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا تھا۔ یہ مبالغہ ہے۔ انھوں نے پورے برصغیر پر حکومت کرنے والے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے خلاف بغاوت کی تھی اور مغل دور میں باغی کی یہی سزا تھی جو آج بھی ہے۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)