اظہارالحق قاسمی بستو
ملت ٹائمز
جدھردیکھیے اور جس طرف نگاہ اٹھالیجیے بس مادیت پرستی کا ایک عمومی اور تیز وتندسیلاب ہے۔جسے دیکھیے وہ بس ہائے دنیا،ہائے پیسہ ،ہائے تجارت اور ہائے گاڑی اوربنگلے کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ہرشخص دنیاوی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے اور دنیاوی عیش وآرام کے حصول کی خاطرہرکوئی تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہے۔وہ اسباب ووسائل جوکہ وسیلہ اور ذریعہ کے طور پر دیے گئے تھے انھیں مقصدحقیقی سمجھ لیاگیاہے۔وہ مخلوقات جو خالق کی عظمت و قدرت کی عکاس تھیں اور اس کی عظمت وجلالت کی شاہد،ان سے کسی طرح کاسبق لینے اور خالق تک رسائی کے سارے راستے مسدود کردیے گئے ہیں لیکن دنیامیں معاشی وسائل کی کثرت ہونے کے باوجود امن وآشتی کہیں دورتک بھی نظرنہیں آرہی ہے۔ہرطرف صرف اورصرف اقتصادومعیشت کے نعرے ہیں سہولیات وسامان عیش کی فراوانی کے چرچے ہیں۔امیراپنی امیری کے زعم میں انسانیت کے حدودپھلانگ چکے ہیں اورانھوں نے بزعم خویش دنیاپر اپنامالکانہ قبضہ جمالیاہے فضاکو مسموم اور ماحول کومکدرکرڈالاہے۔ شادی جیسے مقدس عمل کو تجارت اور لین دین کامعاملہ سمجھ لیاہے فلک بوس عمارتوں میں بیٹھ کراپنے منھ مٹھوبننے والوں نے اپنے آپ کو خداسمجھ لیاہے وہ مالداری کے نشے میں اپنے کوقارون وقت سے کم ماننے کے لیے تیارنہیں ہیں۔ چناں چہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیامیں صرف انھیں کو جینے کا حق ہے ۔اوربس!
غریبوں نے بھی کچھ کم قیامت نہیں ڈھائی ہے۔انھوں نے امیروں اور بدقماش سیاسی لوگوں کی کاسہ لیسی کو اپنے لیے باعث افتخارسمجھ لیا ہے۔وہ بھی امیربننے کے لیے اتنے بے قرارہیں کہ حلال وحرام کاکوئی دھیان ہی نہیں۔مقصدزندگی صرف حب دنیا،حب مال اور حب جاہ بن کررہ گیاہے۔وہ غریبی میں خوش رہنے کا فن بھول کر امیروں جیسی اپنی دوکان چمکانے کے لیے تمام سرحدیں پھلانگ دینا چاہتا ہے ۔دوسری طرف ہمارے علمائے کرام کا طبقہ بھی اس سلسلے میں آگے بڑھنے کا متمنی بل کہ بے پناہ متفکرہوچکاہے۔چناں چہ آج حالات یہ بن چکے ہیں کہ ہرکوئی اپنے مقصد اصلی کو فراموش کرکے اس دنیاکے حصول کی تگ ودو میں ہے جسے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے مرداربکری کے بچے سے کمتربتایاحالاں کہ اگرکسی کواس دنیامیں اگرکسی مردار کی طرف اشارہ کرکے کہاجائے کہ آپ فلاں مردار جانور انتہائی معمولی قیمت بل کہ مفت میں لے لیجیے تووہ آدمی ہمارامخالف ہوجائے گااورہمارے بارے میں اس کی سوچ منفی اور رویہ معاندانہ ہوجائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:دنیاکی مثال آخرت کی بنسبت ایسی ہے جیسے کہ ایک شخص سمندرمیں انگلی ڈالے پھروہ دیکھے کہ وہ کتناپانی لیکر لوٹی ہے ۔(ابن ماجہ ) ظاہرہے کہ انگلی ڈبو کر نکالنے میں صرف انگلی ترہوگی اورہوسکتاہے کہ ایک آدھ قطرہ پانی بھی باہرآجائے اس سے زیادہ اور کیانکلے گے اور ہم انسان ہیں کہ گویااسی ایک قطرہ آب کے لیے بے قراری کی آخری حدیں پارکیے جا رہے ہیں۔ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺنے دنیاکی حقیقت کو یوں طشت ازبام کیاکہ:اگراس دنیاکی قدروقیمت اللہ تعالی کی نگاہ میں مچھر کے پرکے برابربھی ہوتی تو وہ کسی کافرکوایک گھونٹ پانی بھی دیتا‘ لیکن آہ افسوس !آج اسی حقیردنیاکے حصول کے لیے غیر توغیراپنوں نے بھی قیامت اٹھارکھی ہے حالاں کہ یہ دنیابڑی ہرجائی ہے یہ فرعون کی بھی داشتہ رہ چکی ہے اور نمرود وشداد کے ساتھ بھی ، قیصروکسری کی بھی رکھیل رہی ہے اور بخت نصرکے ساتھ بھی لیکن اس نے کسی سے وفانہیں کیااور سب کاساتھ چھوڑ دیا۔ہم اپنی عملی زندگی میں کسی دوسرے سے صرف منسوب خاتون یاشے کواپنے نام کے ساتھ لگاناپسندنہیں کرتے لیکن پھراس ہرجائی دنیاکوہم اپنے دل بل کہ دل کی گہرائیوں میں جگہ کیوں دیتے ہیں؟کیوں ہم اس مچھراور مردارسے زیادہ حقیرچیزکواپنے لیے پسندکرنااور ذخیرہ کرناچاہتے ہیں؟
ابن ماجہ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓسے ارشاد فرمایا:’اے عبداللہ!دنیامیں ایسے رہوگویاتم ایک پردیسی ہویاتم ایک مسافرہواور اپنے آپ کواہل قبورمیں سے شمارکرو‘آج ہمارے معاشرے میں مسلمانوں کے قول وعمل یاکہہ لیں کہ زبان حال سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں نے بھی اس دنیاسے لولگاکراجنبی اور مسافرکی طرح نہیں بل کہ مالک او رمقیم کی طرح دنیاوی فکرورنج کواپنے قلب ودماغ پر سوار کرلیا ہے۔ایک دوسری حدیث میں مزیدیہ فرمایاکہ:میرادنیاسے صرف اس طرح کاتعلق ہے جیسے کوئی مسافرراستے میں کسی درخت کے نیچے رک کرآرام کرے اورپھروہ جگہ چھوڑکرچلتابنے۔لیکن آہ !ہم آپﷺ کے امتی اور آپ کے پیرو!ہم نے تو اس دنیاکو مسکن حقیقی بناکرنعوذباللہ آپ سے آگے بڑھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
کون ہے جودنیاکی محبت سے دوچارنہیں اور کون ہے جو اللہ سے ملنے اوراس کی رضاکے لیے بے چین ومضطرب ہے اور موت کوگلے لگانے کے بے تاب؟ ان حقیقتوں کے آشکاراہونے کے باوجود بھی ہرکوئی نہ جانے کیوں اسی جسدخاکی میں رہناچاہتا ہے اور اپنے فناکے بارے میں غوروفکرنہیں کرتا۔دنیاکی محبت اور موت سے ناپسندیدگی پر مبنی ہونے والے نتائج پراللہ کے رسول ﷺنے کافی وضاحت کے ساتھ یہ مضمون بیان فرمایاہے کہ:قریب ہے کہ قومیں تمہارے اوپر اس طرح ٹو ٹ پڑیں جس طرح کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ایک سائل نے دریافت کیاکہ کیاہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا:نہیں!تم اس وقت کافی تعداد میں ہوگے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہوگے اوراللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت وخوف کونکال دے گااور تمہارے دلوں میں ’وہن‘ ڈال دے گا۔سائل نے پوچھاکہ یہ وہن کیاچیز ہے ؟آپ علیہ السلام نے فرمایا:دنیاکی محبت اور موت سے ناپسندیدگی۔
چناں چہ آج جائزہ لیاجائے تو یہ حدیث من وعن صادق آرہی ہے۔دنیاکی تمام قومیں مسلمانوں پرپِل پڑی ہیں، کبھی القاعدہ کے نام پرتو کبھی داعش کے نام مسلمانوں کی ہوااکھاڑنے کے لیے پوراعالم کفراٹھ کھڑاہواہے اورمسلمان بلی کابکرااورآسان شکاربناہواہے۔شام تباہ ہوگیا،لیبیاجل اٹھا،جزیرہ عرب بارود کی ڈھیرپرہے اورافغانستان وعراق کو بھسم کردیاگیاوغیرہ وغیرہ۔آخرکیاوجہ ہے ؟ کیاوہی نہیں جو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:یعنی حب الدنیاوکراھیۃ الموت (دنیاکی محبت اور موت سے ناپسندیدگی)کیاایسانہیں ہوگیاہے کہ مسلمان جینے کے لیے جی رہاہے مرنے کے لیے نہیں بل کہ جنت کے لیے نہیں؟
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: الدنیاسجن المومن وجنۃ الکافر(مسلم)یعنی دنیامومن کاجیل خانہ اور کافرکی جنت ہے‘۔مفہوم یہ ہے کہ مومن اس دنیامیں اصول وضوابط اور شریعت وقانون کا پابندہے اس کے لیے اس کی مرضی کے خلاف بہت سارے کام لازم کیے گئے ہیں جس کی بجاآوری مالابدمنہ ہے اوربدلے کے طورپر آخرت میں ان کے لیے جنت ہے جبکہ کافرکے لیے یہی دنیاآسائش وزیبائش ،لہوولعب اورتفریح وتماشے کی جگہ ہے۔ اورآخرت میں ان کے لیے صرف عذاب ہے دردناک عذاب۔ اس حدیث پاک کی روسے یہ فانی دنیامسلمانوں کے لیے جیل خانہ ہے، سوال یہ ہے کہ کس جیل خانے میں انسان راحت تلاش کرتاہے ، کس جیل خانے میں انسان کی اپنی مرضیات کی تکمیل ہوتی ہے،کس جیل خانے میں انسان کو اس کی مرضی سے آرام وسکون واستراحت کا موقع ملتاہے اورکس جیل خانے میں ریاکاری وادارکاری کی قندیلیں روشن ہوتی ہیں؟آخرہم دنیامیں آسائشیں کیوں چاہتے ہیں جب کہ یہ ہمارے لیے قیدخانہ ہے۔کیاکسی جیل خانہ میں قید ی کی اپنی مرضی چلتی ہے یا اس جیل کے اصول وضوابط کا ہرقیدی پابندہوتاہے؟کیا ایسانہیں ہے کہ ہم جیل خانہ کو ہی آبادکرنے اور بدلے میں ملنے والے سکون وآرام اور آرائش زیبائش کوپس پشت ڈالنے میں نہیں لگے ہوئے ہیں؟
اللہ کے رسول ﷺنے زندگی اتنی سادی اور فقرکے ساتھ گذاری کی اس کی نظیرملنامشکل ہے۔اگرواقعی میں مالداری ودنیاطلبی کوئی اچھی چیزہوتی توآپ ﷺسے بڑاکوئی مالدارنہ ہوتا! لیکن آپ ﷺنے مالداری پرفقرکوترجیح دی ۔ آج کا مسلمان اتنابڑاطالب زرہوگیاہے کہ اسے یہ سمجھانابھی بہت مشکل ہے کہ مالداری کوئی اچھی چیزنہیں ہے۔دنیاطلبی کی اسی خواہش کوتوڑنے کے لیے آپ ﷺنے فرمایا:لذتوں کوختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یادکیا کرو۔ بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺنے قسم کھاکرفرمایا:اللہ کی قسم !مجھے تمھارے اوپرفقرسے اندیشہ نہیں ہے لیکن مجھے خوف ہے کہ تمہارے اوپردنیاوسیع کردی جائے جیساکہ پہلے لوگوں پرکشادہ کی گئی تھی ،پھرتم بھی انھیں کی طرح ایک دوسرے سے مالداری میں بازی جیتنے کی فکرکرو اور پھرتمہیں اسی طرح ہلاک کردیاجائے جیساکہ تم سے پہلے لوگوں کوہلاک کیاگیا۔
حیرت ہے اور تعجب بھی کہ وہ دنیاجو انتہائی بے وفاہے جومردارسے بھی زیادہ بے وقعت اور مچھرکے پرسے بھی زیادہ بے حیثیت ہے اس کوبنانے کی فکرمیں آج امت مسلمہ کا ننانوے فیصد سے زیادہ کا طبقہ کیوں لگاہواہے جبکہ صاف صاف قرآنی ارشاد موجودہے کہ :تم دنیوی زندگی کوترجیح دیتے ہوحالا ں کہ آخرت دنیاسے زیادبہتر اور باقی رہنے والی چیزہے۔(سورۃ الاعلی)کتنی عام فہم بات ہے لیکن کاش ہم سب سمجھنے کی کوشش کرتے !