محمد طارق اعظم
امت مسلمہ مرحومہ جن بڑے بڑے مسائل سے آج دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ غیر مسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا ہے ۔اس کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ یہ فعل اگر دانستہ اور رضامندی کےساتھ ہوتو یہ فعل ایک مسلمان کو ارتداد کی دہلیز پر لا کھڑا کردیتا ہے ۔۔۔( کسی مسلمان کا دین اسلام سے برگشتہ ہوجانا ، پھر جانا، احکام اسلام کو نہ ماننا یا کسی حکم شرعی کا مذاق اڑانا ارتداد کہلاتا ہے )
مسلم دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ اور علاقہ ہو جو اس سنگین مسئلہ سے دوچار نہ ہو ۔ اور شاید ہی کوئی مسلمان جو اپنے پہلو میں دھڑکتا ہوا درد مند دل رکھتا ہو اور اس کے تئیں سنجیدہ اور فکر مند نہ ہو ۔ اور فکر مند ہونا بھی چاہیے کہ ایک مومن اور مسلم کا ارتداد کے مرحلے تک جا پہنچنا خواہ شعوری طورپر ہو یا غیرشعوری طور پر دوسرے مسلم مومن بھائی کےلئے کسی بڑے سانحے اور حادثے سے کم نہيں ہے ….
ہندوستانی مسلمان بھی اس سنگین مسئلہ سے شدید طورپر متاثر ہے۔ ملک کے طول و عرض سے آئے دن یہ روح فرسا واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکے یا لڑکی نے فلاں غیرمسلم لڑکی یا لڑکے سے شادی رچا لی …. ان روح فرسا اور دل کو چھلنی کردینے والے واقعات کا سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا پہلو یہ ہےکہ مسلم لڑکے اور لڑکی اپنی رضامندی اور خوشدلی سے ایسا کررہے ہیں اور انہیں اس پر ذرا بھی پچھتاوا اور افسوس نہيں ہے ۔۔۔ اور اس پر دشمن کی چالیں اور سازشیں مستزاد ہیں ….اللھم ارحمنا …
اباحیت پسندی، مغربی تہذیب کی اندھی دلدادگی اور فرد کی بےمحابا آزادی نے جہاں اس کو خوب فروغ اور بڑھاوا دیا ہے، وہیں مسلم نسل نو کی ایمانی اور اسلامی تربیت سے ہماری غفلت کوشی اور سہل انگاری کا بھی بڑا دخل ہے ۔ فکر معاش نے ہمیں فکر معاد ( آخرت ) سے بالکل غافل کر رکھا ہے … اس سنگین وبا سے سب سے زیادہ متاثر مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ وہ طبقہ ہے جو ایمانی اور اسلامی اسلحہ سے مسلح ہوئے بغیر کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کیا ہے اور کررہے ہیں جوکہ درحقیقت ایمانی اور اسلامی قتل گاہ ہے ۔۔۔دشمنوں کی سازشوں کے نشانہ پر بھی زیادہ تر یہی طبقہ ہے ….
حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے اس خطرناک صورتحال کو اس قدر غمناک لہجے میں بیان کیا ہے کہ پڑھتے ہوئے آپ کے لب خنداں سے بھی آہ نکل جائے گی۔ کہتے ہیں:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئےگا الحاد بھی ساتھ
اس کےساتھ ہی شارح کلام اقبال پروفیسر یوسف سلیم چشتی ؒ نے ان اشعار کی شرح کرتے ہوئے جو نوٹ رقم کیا ہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لیں ۔ لکھتے ہیں: ” واضح ہوکہ مغربی تعلیم کے مضر ہونے پر اقبال نے فیصلہ ۱۹۱۳ میں صادر کیا تھا اور قوم اس وقت سے لےکر تا ایں دم اسی سم قاتل کو نوش جان ناتواں فرما رہی ہے تو ناظرین خود اندازہ کرلیں کہ مریض اب کس منزل میں ہوگا ” ( بانگ درا مع شرح صفحہ ۵۵۸ )
مریض ناتواں اب مرض کے کس اسٹیج پر ہے جاننے والوں سے پوشیدہ نہيں ہے ۔ ایک اور مقام پر مسلم قوم کی دینی، علمی اور تہذیبی زبوں حالی کا پس طنز یوں رونا روتے ہیں:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مدنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
پردہ اب اٹھ بھی چکا۔ حیرت و غم کا مجسم بنے اس ڈرامے کا غمناک اور المناک سین ہم دیکھ بھی رہےہیں ۔
اس سنگین صورتحال کی بڑی وجہ جہاں تک میری ناقص رائے ہے وہ عام مذہب بیزاری کا ماحول ہے جو تیزی سے مسلم معاشرے میں پنپ رہی ہے ۔اور یہ مذہب بیزاری ماحول ہی کے اثرات ہیں کہ دین اور مذہب کی قدر و قیمت مسلمانوں کے دلوں سے بھی نکلتی چلی جارہی ہے ایک مسلم بھی مذہب کو ایک اضافی معاملہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ مذہب پر عمل پیرا ہونے میں آزاد ہے اور یہ ان کا پرائیوٹ معاملہ ہے ۔شاید ایسے نادان دوست اس حقیقت سے بےخبر ہیں کہ مومن ہر حال میں احکام الہٰی کا پابند ہے ۔
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند
اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کےلئے یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ اس قسم کے افراد سے تعلقات کو بڑھا کر نہایت ہی حکمت، خیر خواہی، دلسوزی اور ہمدردی کےساتھ ان کی ذہن سازی کی جائے ۔اور یہ ذہن سازی دو طرح سے کی جائے ۔ایک یہ کہ اسلام اور ایمان کی اہمیت اور عظمت کو ان کے دلوں میں جاگزیں کیا جائے ۔ کہ ایمان اور اسلام ہی ایک مسلمان کا سب سے بڑا سرمایہ اور دولت ہے ۔ اس لیے کہ دونوں جہاں کی کامیابی اسی ایمان پر ہی منحصر ہے ۔ ایمان اور اسلام کی حفاظت اور بقا کےلئے ادنا سا ادنا مسلمان جان، مال اور عیال سے گذر جانا تو گوارا کرلے گا لیکن اس پر کسی سمجھوتے اور سودے کےلئے تیار نہيں ہوگا ۔۔۔جیسا کہ حضرت نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کے واسطے سے پوری امت کو یہ وصیت فرمائی کہ ” کسی حال میں شرک نہ کرنا خواہ تم قتل کردیئے جاؤ یا جلا دیئے جاﺅ ( مسند احمد ) ” ۔
اسی مضمون پر مشتمل پوری ایک سورت قرآن میں سورہ کافرون کے نام سے موجود ہے ۔ اس سورت کا بنیادی مضمون ہی یہی ہےکہ کفر اور شرک پر کسی صورت میں کوئی مصلحت ہوہی نہيں سکتی ہے ۔ قرآن نے اللّٰہ تعالی کے منکروں کو دوٹوک جواب دے دیا کہ ” لکم دینکم ولی دین ۔۔۔تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے ” ۔
تاہم پھر بھی کوئی بدنصیب اپنے ایمان کی ناقدری کرتے ہوئے عارضی اور وقتی دنیاوی فائدے کی خاطر ایمان کا سودا کرلے تو اللّٰہ تعالی نے اس سودے کو تجارت سے تعبیر کرتے ہوئے انتہائی گھاٹے کا سودا قرار دیا ہے ۔ ارشاد باری ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۶﴾( البقرہ)
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔( آسان ترجمہ قرآن مفتی تقی عثمانی )
یہ آیت صاف صاف بتلا رہی ہے کہ جس کسی نے برضا و رغبت ہدایت کے بدلے ضلالت یعنی ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کیا تو ایسے بدنصیب کو قرآن غضب الہٰی اور سخت عذاب سے ڈراتا ہے ۔ایک اور مقام پر قرآن مجید زبردستی کفر کے اختیار کرنے کے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
مَنۡ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ وَ لٰکِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡکُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۰۶﴾( سورہ نحل )
ترجمہ:
جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کردیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو۔ تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہوگا، اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے ۔( آسان ترجمہ قرآن مفتی تقی عثمانی )
یعنی اگر کوئی مومن کلمہ کفر کہنے پر جان جانے کے اندیشے سے مجبور ہو تو اس جبری صورت کی اس شرط کےساتھ گنجائش ہےکہ دل ایمان پر مطمئن ہو ۔ اور اگر کسی نے کلمۂ کفر اختیار اور رضامندی سے کہا تو ایسے بدنصیبوں پر اللّٰہ تعالی کا غضب اور سخت عذاب ہے …!!
(جاری ہے)