فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف مہا پنچایت
کامیاب اردو تحریک کے بعد ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر شمیم احمد کا دوسرا دور
شاداب ظفر انصاری‘ کولکاتا
قومی یکجہتی ‘ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ‘ اتحاد ‘ بھائی چارہ جیسے موضوعات پر آ ج پورے ہندستان میں بحث و مباحثے ہورہے ہیں لیکن ان سب کیلئے عملی کوشش خال خال ہی نظرآتی ہے ۔ کہیں بیان بازی ہے تو کہیں جلسے جلوس اور کہیں ہنگامہ ہاﺅہو ۔پورے ہندستان کے منظرعامہ میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا کی جارہی خلیج کو پاٹنے کیلئے کوئی ٹھوس کارروائی کہیں سے نہیں ہورہی ہے ۔
مایوسی کی اس موٹی دبیز تہہ کو ختم کرنے کیلئے مغربی بنگال میں مہا پنچایت کا ڈول ڈالا گیا ہے ۔20مئی 2017کو شہر نشاط کولکاتا کے قلب میں واقع دھرم تلہ کے میﺅ روڈ پر نصب بابائے قوم مہاتما گاندھی کے مجسمے کے نیچے قائد اردو شمیم احمد کی سربراہی میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی ملک کی مقتدر شخصیات نے یہ عزم کیا اور حلف اٹھایا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کے قیام کیلئے وہ اپنی ہرممکن کوشش کریں گے ۔
بنگال میں کامیاب تحریک اردو کی تاریخ لکھنے والے مردآہن شمیم احمد کی سربراہی میں یہ مہا پنچایت مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی منعقد ہوگی اور ہندو مسلمان‘ سکھ عیسائی کے درمیان بڑھتی خلیج کو پاٹنے کے ساتھ ساتھ نزاعی معاملات کاحل بھی پیش کرے گی ۔
اس سلسلے میں ہیومن رائٹس پروٹےکشن ایسوسی ایشن کے صدر شمیم احمدکاکہنا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کافی سنگین ہیں ،سماج کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے مسائل اور ان کی مشکلات سے صرف نظر کرلےا گےا ہے ۔ملک کے عوام کو مسجد ، مندراور ہندو مسلم کی سیاست میں الجھا دےا گےا ہے۔سب کاساتھ سب کا وکاس کا نعرہ سمٹ کر رہ گیا ہے ۔ایک خاص طبقہ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں انہوں نے محسوس کیا کہ اگر آج عوام کو صحیح راہ پر نہیں ڈالا گیا تو کچھ عجب نہیں کہ یہ فرقہ وارانہ منافرت ہماری گنگاجمنی تہذیب اور ہزاروں برسوں پر محیط سیکو لرروایت کو پارہ پار ہ کردے ۔اس لئے انہوں نے پنچایت کی پرانی ڈگر چنی ہے جو عوا م میں اعتماد‘ احساس تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بحال رکھنے کی سمت کام کرے گا۔
یہاں یہ لکھنا بے محل نہیں ہوگا کہ شمیم احمد عوامی کاز کیلئے عام ڈگر سے ہٹ اپنا مخصوص طرز عمل اختیار کرتے ہیں اوراس میں انہیں ہر گام پر کامیابی ہوتی ہے ۔ جب مغربی بنگال میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے کیلئے اردو تحریک چلارہے تھے تو اس وقت بھی انہوں نے جلسے جلوس سے زیادہ عوام سے اور اردو والوں سے جڑنا پسند کیاتھا ۔ اردو کی بدحالی کو عوام کے سامنے لانے کیلئے انہوں نے جوتاپالش کیاتھا اور بتایا تھا کہ اگر آج ہم اردو کے حق کیلئے بیدار نہیں ہوتے ہیں تو آنے والاکل‘ ہمارا مستقبل خدانخواستہ ایسا ہی ہو جائے ۔ان کے اس طرز عمل کاپورے ملک میںخیر مقدم کیاگیاتھا اور دنیا نے دیکھاتھا کہ مغربی بنگال کی 34 سالہ بایاں محاذ حکومت کو اپنی بساط لپیٹنی پڑگئی تھی ۔نئی آنے والی ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول حکومت نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کادرجہ دیا تھا۔
مغربی بنگال کے پس منظر میں اگر ہم مسلم سماجی رہنماﺅن کا جائزہ لیں تو دور دور کر ایسی کوئی شخصیت نظرنہیں آتی ہے تو جہاں بے لوث ہوکر بغیر کسی صلہ اور ستائش کی تمنا کے عوام کے کاز کیلئے پرخلوص ہو۔ماضی میں ہمیں کلکتہ کی سرزمین نے ملاجان محمد جیسی شخصیت ضرور دی تھی لیکن فی زمانہ بنگال میںایسے مخلص اور بے لوث کام کرنے والے رہنماﺅں کا قحط ہے ۔
ہم اگر شمیم احمد کی شخصیت کا کسی رہنما سے موازنہ کرسکتے ہیں تو وہ ماضی کے ملاجان محمد مرحوم ہی ہیں جنہوں نے قو م کیلئے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ رہتی دنیا یادرکھے گی۔ محمد جان ہائر سیکنڈری اسکول کا قیام بھی ان کے ان ہی کارناموں میں سے ایک ہے۔
مہا پنچایت کے سلسلے میں شمیم احمد کاکہنا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات اور مغربی بنگال کے ندیا‘ شمالی 24 پرگنہ کے حاجی نگر اور مارواڑی کل ‘ ہوڑہ‘ ہگلی کے تیلنی پاڑہ‘ بانسبڑیا وغیرہ میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد نے انہیں خون کے آنسو رلایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاجی نگر میں جب فساد ہواتھا تو وہاں کے لوگوں نے کلکتہ کے تمام بڑے لیڈروں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں سے ان کی داد رسی نہیں ہوئی ۔ سیکڑوں مکانات جلا ڈالے گئے ‘ مسلمانوں کے ضعیف اور بچوں تک کو اذیت سہنی پڑی لیکن کسی نے ان کاساتھ نہیں دیا ۔ جب انہیں پتہ چلا تو وہ رات کے تین بجے حاجی نگر پہنچے اور وہاں اپنی بساط بھر کوشش کی ۔ ایسی ہی صورتحال ہوڑہ میں پیش آئی اس کے بعد ہی انہوں نے اس کوشش کا آغاز کردیاتھا ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ دیکھا کہ سپریم کورٹ نے باقاعدہ یہ رولنگ دے رکھی ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہوگی اور ووٹ بھی نہیں مانگا جائے گا لیکن سپریم کور ٹ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں مذہب کا کارڈ کھیلتی ہیں اور ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتی ہیں ۔اگر مذہب کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا ہے تو ملک کی جمہوریت اور سیکولر روایت کوکو ئی نہیں بچاسکتا ہے ۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے بینر تلے مغربی بنگال سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں حقوق انسانی کے تحفظ کےلئے سرگرم قائد اردو مردآہن شمیم احمد گزشتہ کئی برسوں سے ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کےلئے سرگرم ہیں ۔شمیم احمد نے کہا کہ ہم عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اقتدار میں بیٹھے سیاست داں عوام کو جذباتی نعروں میں الجھا کر غریب عوام سے زمین اور ان کے حقوق کو چھین رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اڑیسہ ، جھاڑ کھنڈ میں قبائلیوں کی صورت حال بہت ہی بھےانک ہے۔ان سے زمےنےں چھےن کر کارپوریٹ کمپنیوں کے حوالے کےا جارہا ہے ۔ہندستان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا گہوارہ رہا ہے۔ مگر آر ایس ایس اور بی جے پی والے یہاں اپنی پکڑ کو مضبوط بنانے کےلئے فرقہ واریت کو پھیلا رہی ہے ۔اس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔لوگوں کو اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کی فکر ہے ۔ان حالات میں کوئی بھی ملک کا سنجیدہ شہری خاموش نہیں رہ سکتا ہے۔ مہا پنچایت کا انعقاد در اصل ملک کی سالمیت اور تحفظ کےلئے منعقد کےا جارہا ہے۔ گاندھی مجسمہ سے ہم نے اس کی شروعات کردی ہے اور رمضان المبارک اور عید کے بعد پورے بنگال میں وارڈ ‘ بلاک‘سب ڈویزن اور ضلع سطح پر پنچایت تشکیل دیں جس میں ہر فرقہ سے نمائندہ لئے جائیں گے ۔ 30لوگوں کی ٹیم جس میں ہندو مسلمان سکھ عیسائی سبھی رہیں گے کمیونل وائلینس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہے گی ۔
یہ پنچایت اوراس کے نمائندے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر ماحول پر نظررکھیں اور ہندو مسلمانوں میں بحالی امن کام کریں گے ۔کسی بھی طرح کے کمیونل وائلیشن ہو تو یہ پنچ اسے روکنے کی کوشش کریں گے ۔اس کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ تشدد کے بعد پولس کی کارروائی پر بھی یہ پنچ نظررکھیں گے ۔ عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ فسادات کے بعد یک طرفہ گرفتاری ہوتی ہے دیر رات کو پولس کی ٹیم مسلمانوں کے گھر پر دھاوابولتی ہے اوراس گھر سے نوجوانوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے ۔اس طرح کی یک طرفہ گرفتاری پر بھی یہ پنچ نظر رکھیں گے اور فساد کے ملزمین کی گرفتاری پنچوں کی موجودگی میں ہی ہوگی تاکہ کسی بے قصور کو گرفتار نہیں کیاجاسکے ۔اس کیلئے وہ محکمہ پولس اور انتظامی حکام سے بھی رابطہ میں ہیں ۔ فساد کو پھیلنے سے روکنے‘ بے جاگرفتاری پرنظررکھنے اور اس طرح کے معاملات میں پولس کے ساتھ مل کر کریں گے ۔ ایسے میں وہ سمجھتے ہیں کہ فساد کو قطعی طور پر روکا جاسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری پنچایت کے ممبر کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں ہوگا تاکہ ان پر کسی طرح کا دباﺅ نہ رہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں انہیں دشواری پیش آئے لیکن انہیں بھروسہ ہے کہ جس طرح اردو تحریک کامیاب ہوئی تھی اسی طرح یہ مہا پنچایت بھی ہر جگہ ہر شہرمیں اپنی چھاپ چھوڑے گی ۔
اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے کی تحریک میں جیل جانے ‘ جوتے پالش کرنے‘ اخبار بیچنے ‘ بھوک ہڑتال کرنے اور اپنا لہو تک بہادینے والے شمیم احمد سے جب یہ پوچھا گیا کہ اردو تحریک کی کامیابی کے بعدانہوں نے اردوکے کسی ادارہ سے جڑنا کیوں نہیں پسندکیا یا ادارہ والوں نے انہیں اپنے یہاں کیوں نہیں لیا توانہوں نے کہا کہ ان کا مقصد اردو تحریک کوکامیاب بناناتھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے جہاں تک سوال اردو اداروں میں شامل ہونے کا ہے تو یہ ان کا مقصد نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ میں بھلے ہی کسی اردو ادارے میں نہیں ہوں لیکن آج بھی کسی جلسہ میں جاتا ہوں تو لوگ میرا تعارف شمیم احمد سے زیادہ قائد اردو کے نام سے کراتے ہیں اور یہ ان کیلئے بہت بڑی بات ہے ۔ یہ تعارف ان لیڈروں کو نصیب نہیں ہے جو اردو کے نام پر سرکاری اداروں سے موٹی گرانٹ لے کر ہضم کررہے ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں اکادمی ‘کمیٹی یا کسی دوسرے ادارہ میں لیاگیا تو شمیم احمد کے سامنے ان کا قد بونا ہوجائے گا ۔ اس لئے ان کا تحفظ اسی میں ہے کہ وہ شمیم احمد کو نظرانداز کردیں گے۔ لیکن ان سب باتوں سے شمیم احمد کافی بلند ہے اس کا مقصد ادارہ کی ممبری نہیں بلکہ اردواور عوام کا کام کرناتھا جواس نے کیا اور دنیا نے دیکھا بھی ۔
قائد اردو شمیم احمد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مہاپنچایت ‘ قیام اور بحالی امن و امان کی ایک ایسی کوشش ہے جس کی کامیابی ملک سے بدامنی‘ انارکی‘ فرقہ وارانہ منافرت ‘ فساد ‘ تشدد کا خاتمہ کردے گی ۔اس مہا پنچایت کا آغاز ہم نے گاندھی جی کے مجسمہ کے سامنے 20 مئی سے کیا ہے اور اب عید بعد ہم بنگال سے شروع کرکے پورے ہندستان میں پنچایت لگاکر فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف جنگ کریں گے ۔