مشتاق احمد نوری ایک ایسے شخص کا نام ہے جنہوں نے مدرسہ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا ،ابتدئی عربی درجات کے بعد اسکول کی دنیا میں انہوں نے قدم رکھا،سائنس اور جغرافیہ کے طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے یہاں تعلیمی سفر شروع کیا ،1977 میں بی پی ایس سی کا ٹیسٹ پاس کرکے وہ بہار حکومت میں سرکاری آفیسر بن گئے اور 2011 تک محکمہ برائے تعلقات عامہ میں اپنے فرائض ایمانداری کے ساتھ انجام دیتے رہیں۔
بچپن میں مدرسہ سے انہوں نے جوکچھ اردو سیکھاتھا وہ ان میں برابرپرون چڑھتا رہا،اسکول اور کالج کے ماحول میں بھی اردو سے ان کی دلچسپی کم نہیں ہوئی،شاعری ،مضمون نگاری اور انشاء پردازی جیسے اصناف میں انہوں نے پہلے طبع آزمائی کی ،پھر انہوں نے فکشن اور افسانہ نگاری کی جانب رخ کیا اور اس فن کو اس طرح اپنایا کہ ہندوستان کے چند اہم ترین افسانہ نگاروں میں ان کا نام شامل ہوگیا،حکومت بہار نے اردو سے ان کے والہانہ لگاؤکے پیش نظر 1993 میں اردو کے نوک وپل کو سنوارنے کیلئے بہاراردو اکیڈمی کا سکریٹری نامز د کردیا ،2011 میں ریٹائرمینٹ کے ایک مرتبہ پھر ان کی ضرورت محسوس ہوئی اوردوبارہ 2015 میں انہیں بہار اردواکیڈمی کی ذمہ داری سونپی گئی جہاں وہ پہلے سے زیادہ متحرک وفعال ہیں،اردوکے فروغ کیلئے مسلسل کوشاں ہیں ،مختلف سطح پر اردو کو عام کرنے کیلئے کام کررہے ہیں اور اردو سے سچی محبت کا عملی ثبوت ان کے طرز عمل سے مل رہاہے۔
گزشتہ دنوں ان سے ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے ملک میں اردو کی صورت حال ،بہار اردو اکیڈمی اور دیگر اہم امور پر خصوصی بات چیت کی ہے،گفتگو کے اہم اقتباسات پیش ہیں قارئین کی خدمت میں۔
سوال : آپ بنیادی طور پر سائنس اور جغرافیہ کے طالب علم تھے ،پھر اردو سے آپ کو کیسے دلچسپی پیدا ہوئی اور کہاں سے آپ کو اردو پڑھنے کا شوق پروان چڑھا؟
جواب: میں سائنس کا طالب عالم تھا،1968 میں میں نے ہائر سکنڈری فرسٹ ڈویزن میں پاس کیا تھا لیکن اردو ہمیشہ میرے سبجیکٹ میں شامل رہا،سرکاری محکمہ میں آنے سے قبل ہی اردو سے میری دلچسپی تھی اور وہ ہمیشہ برقراررہی ۔
سوال : اردو آپ نے کہاں سیکھی مدرسہ میں یا اسکول میں پڑھنے کے دوران ؟
جواب : میری ابتدائی تعلیم مدرسے ہوئی ہے ،میرے والد کی خواہش تھی کہ میں ندوہ جاکر تعلیم حاصل کروں،ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے ندوہ میں داخلہ لینے کی کوشش بھی کی لیکن مجھے منع کردیاگیا کہ ابھی عمر کم ہے آئندہ سال اس کا داخلہ کرائیں ،اس دوران میرے ایک سال کو ضائع ہونے بچانے کیلئے آٹھویں کلاس میں اسکول میں میرا داخلہ کرادیاگیااور ہائر سکنڈری میں میں نے فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا ،71فیصد نمبر تھا،اس کے بعد میری خواہش میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کی تھی چنانچہ میں نے پٹنہ میڈیکل کالج میں درخواست دیا، اس زمانے میں پری میڈیکل میں ڈاخلہ ہائرسکنڈری کی بنیاد پر ہوتا تھا،لیکن میرا نام ویٹنگ لسٹ میںآیااور مجبوراً پورنیہ کالج میں داخلہ لیناپڑا،وہاں سے1971ء میں بی۔ایس سی، بایولوجی کی تعلیم حاصل کی ،ایک سال ایک مدرسہ میں میتھ کے استاد کی حیثیت سے بھی بچو کو پڑھایا ،اس کے بعد74 19میں بی ایڈ کرنے پٹنہ آگیا ،پٹنہ یونیورسیٹی میں 80 فیصد طلبہ پٹنہ سے لئے جاتے تھے اور بیرون یونیورسٹی سے 20 فیصد لڑکے لئے جاتے تھے ، جب داخلہ ریزلٹ آیا تو بیرون پٹنہ والوں کی فہرست میں پہلا نام میرا ہی تھا، میں نے 1975ء میں پٹنہ یونیورسٹی کے بی ایڈ میں ٹاپ کیا اور اس کے بعد 1976میں ایم ایڈ میں داخلہ لیا۔اسی سال میں نے بی پی ایس سی کا امتحان بھی نکال لیااور محکمہ تعلقات عامہ اکتوبر1977میں جوائن کیا 2011 تک مسلسل سرکاری عہدوں پر کام کرتارہا اور جنوری 2011میں جوائن ڈائرکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوا۔
سوال: آپ صحافی بھی ہیں،تنقیدی ذوق بھی رکھتے ہیں،شاعری بھی کرتے ہیں اور افسانہ نگار کی حیثیت سے آپ کو خاص شہرت حاصل ہے ،آپ خود کو کس گروپ میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں ؟
جواب : بنیادی طور پر میں افسانہ نگار ہوں، لیکن شاعری کا بھی ذوق ہے ،دراصل میں اپنے اسکول آزاد اکیڈمی ارریہ کے بزم ادب کاسکریٹری ہواکرتا تھا اسی زمانے میں غالباً 1967میں ایک مشاعرہ اسکول میں کرواناتھا تو میں نے سوچا کہ جب سارے لوگ غزل پیش کریں گے تو مجھے بھی کچھ کرنا چاہیے ،چنانچہ میں نے بھی ایک غزل کہی جس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
ہم دار پہ چڑھ کر بھی حق ہی کو صدا دیں گے
اب اور جہاں والے کیا ہم کو سزا دیں گے
پھر آج یہی کہہ کر زخموں کو سلا دیں گے
وہ آئیں تو پھر اپنے دامن سے ہوا دیں گے
یہ تیرہ شبی دل کی مٹ جائے کہ رہ جائے
ہم شمع جلاتے ہیں ہم شمع جلا دیں گے
کچھ سوچ کے ہم نے بھی یہ عہد کیا نوری
اب دل سے محبت کی ہر یاد مٹا دیں گے
میں بعد میں فکشن کی طرف آگیا ،صحافتی مضامین بھی لکھے، لیکن میری دلچسپی افسانہ نگاری میں زیادہ رہی اور افسانہ نگار کہلانا ہی مجھے زیادہ پسند ہے۔
سوال: کوئی ایسا واقعہ اور لمحہ جہاں سے آپ کی شناخت بطور ادیب کے ہوئی ہو اور شہرت ملی ہو۔
جواب : مجھے ماضی میں جھانکنا قطعی پسند نہیں ہے اور ایسا کوئی واقعہ بھی یاد نہیں ہے بس میں لکھتا رہا،میری تحریر یں قارئین تک پہونچتی رہی اور میری شناخت بنتی رہی ، رفتہ رفتہ ادیبوں میں شمار کیا جانے لگا۔
سوال: بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا نے اپنی حکومت کے ایام میں خود دیاتھا یا اس کا مطالبہ کیا گیاتھا ؟
جواب: بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تھالی میں پڑوس کر نہیں ملاتھابلکہ غلام سرو ر، پروفیسر عبد المغنی اور بیتاب صدیقی وغیرہ کا اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے میں نمایاں کردار رہاہے ،ان لوگوں نے تحریک چلائی ، حکومت سے مطالبہ کیا احتجاج کیا اور پھر مجبور ہوکر حکومت نے دوسری سرکار زبان کا درجہ دیا۔
سوال : جگن ناتھ مشرا کی کابینہ میں اہم مسلم وزیر شمائل نبی صاحب رہے ہیں ان کا مانناہے کہ جگن ناتھ مشرا نے خود اردو کو دوسری سرکاری زبان کادرجہ دیاتھاکیوں کہ مسلمانوں کے تئیں و ہ بہت مثبت ذہن رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لئے بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔
جواب : یقیناًاردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا نے ہی 17اپریل1981میں دیا او رشمائل نبی صاحب جگن ناتھ کے بہت قریبی تھے اور وہ درست کہ رہے ہیں، لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ ارد و کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کے لئے ان بزرگوں نے باضابطہ تحریک چلائی تھی اور ان کے پیچھے ایک لمباکارواں بھی تھا۔
سوال : بہار سمیت ہندوستان کے مختلف صوبوں میں آپ کا جاناہوتاہے ،یہ بتائیں کہ اردو سب سے بہتر پوزیشن میں کہاں ہے اور کس صوبے میں اردو زیادہ پڑھی اور لکھی جاتی ہے؟
جواب: پورے ہندوستان میں اردو کی سب سے بہتر صورت حال بہار میں ہے ،ہندوستان سے نکلنے والے رسائل 75 فیصد بہار میں ہی پڑھے جاتے ہیں،اس کے علاوہ ارد و لکھنے والے بھی پورے ہندوستان میں 60% سے زائد بہار کے ہیں ،فکشن اور صحافت وغیرہ میں بھی ہمیشہ بہار نے ہی نمائندگی کی ہے۔ شوکت حیات، عبد الصمد، حسین الحق، شفق، شموئل احمد ، مشرف عالم ذوقی، غضنفروغیرہ افسانہ کی دنیا میں چند اہم ترین نام ہیں پورے اردو ادب کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ سب بہار سے تعلق رکھتے ہیں،اس فہرست میں آپ چاہیں تو میرا نام بھی شامل کرسکتے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی نئی نسل کی ایک لمبی قطار اردو ادب کی آبیاری میں لگی ہوئی ہے۔
سوال : بہار اردو اکادمی کے پہلے بھی آپ سکریٹری تھے ،بیچ میں عبوری دور رہاایک مرتبہ پھر آپ سکریٹری بنائے گئے ہیں،لہٰذا یہ بتائیں کہ اکادمی کے کاموں میں کیا تبدیلی آئی ہے پہلے اکادمی متحرک تھی یا اب؟
جواب : اکادمی میں کچھ نہ کچھ کام ہوتے ہی رہے ہیں۔ کبھی زیادہ کبھی کم میں اگراکادمی کے بارے میں کچھ کہوں گا تویہ خودستائی ہوگی، لیکن سچائی ہے اس لئے کہنا ہوگا۔1993 میں میں جب میں اکادمی میں سکریٹری بن کر آیاتھا تو اکادمی کا بجٹ دس لاکھ تھا،96 19کے دسمبر میں میں یہاں سے گیا تو اکادمی کا بجٹ 25 لاکھ ہوچکا تھا، 2015 میں دوبارہ میری یہاں واپسی ہوئی تو اس کا بجٹ 22سال کے درمیان صرف 25 لاکھ سے چالیس لاکھ تک پہنچا تھاآج کی تاریخ میں میری تگ و دو اورمحترم عامر سبحانی پرنسپل سکریٹری اقلیتی فلاح و داخلہ کی کاوش سے اس کا بجٹ دوکڑور پچاس لاکھ ہوگیاہے ،جس میں وزیر اقلیتی فلاح ڈاکٹر عبدالغفور کے ساتھ جناب نتیش کمار وزیر اعلیٰ بہارکا بھی اس میں خصوصی تعاون شامل رہاہے۔اس سلسلہ میں وزیر مالیات جناب عبدالباری صدیقی کے بھی ہم شکر گزار ہیں۔
جہاں تک اکادمی کے متحرک ہونے کا سوال ہے تو یہ سچ ہے کہ ہر سکریٹری نے اپنے طور سے اکادمی کو تحرک پذیر رکھا اور اپنے اپنے طورپر اردو زبان و ادب کے فروغ کے لئے مختلف پروگرام کرتے رہے۔ میں نے جب سے چارج لیاہے تو اگر اسے خودستائی پر محمول نہ کیاجائے تو اکادمی اب پہلے سے بہت زیادہ فعال ہوگئی ہے اور طرح طرح کے پروگرامس ہورہے ہیں اور اس کی فعالیت کا اندازہ عوام بھی لگاسکتی ہے۔ میں نے دو عالمی کانفرنس کا انعقاد کروایا جو اکادمی کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا ساتھ ہی کل ہند خواتین کنونشن بھی کروائی جس میں ملک بھر سے 60خواتین قلم کاروں نے حصہ لیا۔ یہ سہ روزہ کنونشن غالباً بہار میں کسی بھی ادارے کے ذریعہ پہلی بار کرایا گیا۔
سوال : اردو زبان کے فروغ کے لئے آپ کی ترجیحات کیا ہیں اور کس طرح آپ اسے عام کررہے ہیں، عوام سے جوڑرہے ہیں؟
جواب: میں نے آنے کے بعد اس کی کئی ترجیحات طے کی ہیں اور نئے سرے سے اکادمی کو ایک نیا روپ دینے کے لئے کوشاں ہوں۔ سب سے پہلے میں نے اکادمی کے اندرونی مسائل کی طرف توجہ دی اور ایک نیا سمینار ہال بنوایا جس میں منچ کے علاوہ اے سی ، مائیکس، انورٹر اور پردے کے علاوہ اسے نئے طریقے سے مزین کیا۔ ساتھ ہی اکادمی کے احاطے میں ٹائیلس لگوائے روشنی کا انتظام کیا اب اردو اکادمی باہر سے بھی دیکھنے میں متاثر کن محسوس ہوتی ہے۔ اکادمی کے اندرکام کرنے کے کلچر کو میں نے متحرک کیا اور سب سے پہلے اکادمی کے ترجمان ’’زبان و ادب‘‘ کو ظاہری اور معنوی اعتبار سے زینت بخشی اور معیاری بنایا۔ پچیس سال کے بند پڑے اکادمی کے’’خبرنامہ‘‘ کی تجدید کی اب وہ بھی باضابطہ شائع ہورہا ہے۔ میں نے ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے ،میری نظر ان لوگوں پر ہے جو کسی زمانے میں لکھ چکے ہیں لیکن آج گمنا م ہیں ،میں نے ہر ضلع میں جاکر ایسے تین ادبا و شعرا کی عزت افزائی کی اور انہیں 21ہزار روپے فی کس دے کر ان کی عزت افزائی کی ،سند کے ساتھ شال اورمومنٹوسے نوازا ،ان پر ایک شخص سے مضمون لکھوایا اور ایک شخص نے ان کے فن اور شخصیت پر تقریر کی۔ پھر ہرایک ضلع میں وہاں کے شعرا پر مشتمل ایک مشاعرہ بھی کروایا جس سے سے وہاں کے شاعروں کو اپنا جوہر دکھانے کا موقع ملاہے ۔یہ پروگرام اب تک گیا، دربھنگہ، مظفرپور، بتیا، بیگوسرائے میں ہوچکاہے اور آنے والے مہینوں میں پورنیہ، ارریہ، کٹیہار ، سہسرام میں متوقع ہے۔اس کے علاوہ بھی ہر ماہ کوئی نہ کوئی ادبی پروگرام منعقد کیاجارہاہے۔
سوال : کہاجاتاہے کہ اردو مدارس کی وجہ سے زندہ ہے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : اس میں رائے کی کیا بات ہے یہ بالکل سچ ہے کہ اردو مدارس کی وجہ سے زندہ ہے ، کیونکہ وہاں اردو کے ساتھ فارسی اور عربی کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی بنیادی تعلیم ہی اردو سے شروع ہوتی ہے۔ اسکولوں میں اردو ختم ہورہی ہے اور اس کے لئے ذمہ دار صرف حکومت اور اسکول نہیں بلکہ ہم خود ہیں، کیونکہ ہم اپنے بچوں کو گھرمیں اردو کی ابتدائی تعلیم نہیں دلواتے، ہم اپنے بچوں کو ا سے اﷲ پڑھانے کی وجائے اے سے ایپل پڑھانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہم یہ قطعی نہیں سوچتے اردو نہ صرف ہماری تہذیب ہے بلکہ اسی سے ہمارا تشخص بھی قائم ہے۔
سوال : اس وقت اردو رسم الخط کی جگہ رومن اردو کو فروغ دیا جارہاہے اور ریختہ منظم پیمانے پر یہ کام کررہی ہے؟
جواب : رومن خط اردو کے رسم الخط کے ساتھ ایک بہت بڑی سازش ہے جو لوگ یہ کررہے ہیں وہ سراسر غلط ہے اورمیں اس کے بالکل خلا ف ہوں ، رسم الخط بدلنا اردو کو اس کی حقیقت اور ماہیت سے دور کرناہے۔
سوال: آپ اس کے خلاف کیا کریں گے ،کوئی تحریک چلائیں گے ،ریختہ کی مذمت کریں گے کیوں کہ ریختہ اس میں پیش پیش ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس سے جڑرہی ہے؟
جواب : ریختہ اردوکو عوام سے جوڑنے کا کام کررہی ہے۔ غالباً ریختہ کا منشاہ یہ ہے کہ اردو کوغیر اردو داں سے بھی جوڑا جائے کیونکہ اردو رسم الخط میں اردو کو غیر اردو داں تک پہنچانا بہت مشکل ہے۔ ریختہ جو کام کررہی ہے اسے کرنے دیجئے، لیکن اردو کے رسم الخط کو بدلنا بہت مشکل ہے یہ سازش پچھلے پچاس برسو ں سے ہورہی ہے، لیکن آج تک کامیاب نہیں ہوسکی اور انشاء اﷲ یہ کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔پرکاش پنڈت جیسے لوگوں نے اردو کو ہندی رسم الخط میں شائع کرکے ہندی داں طبقے کو جوڑنے کی کوشش کی اور وہ بہت کامیاب بھی رہے، لیکن انہوں نے اردو کو ہندی رسم الخط میں لکھنے کی وکالت نہیں کی۔ریختہ والے اردو کو رومن خط میں لوگوں تک پہنچائیں میں اس سے متفق ہوں، لیکن اگر انہوں نے اردو کو رومن خط میں لکھنے کی ہی وکالت شروع کی تو میں اس کے خلاف رہوں گا۔
سوال: آپ کے تعلق سے کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ آپ من مانی کرتے ہیں،کسی کی سنتے نہیں ہیں ،اپنی چلاتے ہیں؟
جواب : من مانی کا ہی الزام لگاتے ہیں، چور یا بیمان تو نہیں کہتے۔ دراصل کچھ لوگ اصلی حاسدہوتے ہیں جو جلن کے مارے کسی بھی اچھے کام کو پچا نہیں پاتے، وہ چاہتے ہیں کہ ہر کام ان کی مرضی کے مطابق ہو، لیکن یہ سچ ہے میں کسی کی نہیں سنتا۔ اپنی پوری سروس میں میں نے صرف وہی کیا جو درست تھا، کسی کے کہنے پر مجھے کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے ۔ اکادمی میں سارے پروگرام مجلس عاملہ طے کرتی ہے اور اس پروگرام کو سکریٹری عملی جامہ پہناتا ہے۔ کام کیسے ہوگا، کس طریقے سے ہوگا، اس کا فیصلہ سکریٹری کو ہی کرنا ہوتاہے، لیکن کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ میں ان کی حاشیہ برداری کروں اور ان سے پوچھ کر ہی کسی کام کو عملی جامہ پہناؤ۔ ایسا نہیں ہونے پر وہ اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہیں۔ میری ساری ہمدردیاں ایسے لوگوں کے ساتھ ہے۔
سوال : آج کل کے مشاعروں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ اس سے اردو کا فروغ نہیں ہوتاہے ،اکثر شعرا وشاعرات ہندی میں لکھ کر لاتے ہیں اور اردو میں پڑھتے ہیں،نیز عرنیانیت اور فحاشیت اب مشاعرے کا حصہ بن چکی ہے جس کی وجہ سے شرفاء مشاعرے میں جانے سے احتراز کرتے ہیں؟
جواب : مشاعرہ ہماری تہذیب او رثقافت کا اہم حصہ رہاہے،امر اؤجان ادا کے زمانے میں بھی مشاعرے ہوا کرتے تھے، طوائفے بھی شرفہ کے مشاعرے میں شامل ہوتی تھیں، لیکن کیا مجال کی کوئی بھی مدمزگی ہو۔ آج کے دور میں جو مشاعرے ہورہے ہیں۔ وہ اردو کے فروغ کے لئے کم ہوتے ہیں بلکہ شعرا کے لئے بزنس کا کاروبار ہوگیا ہے، ایک ہی غزل درجنوں مشاعرے میں پڑھی جاتی ہے اور ہر بار نئی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ میں آج کے مشاعروں کو قوالی اور مجرے کا ملاجلا روپ سمجھتا ہوں، لیکن کچھ ایسے بھی مشاعرے ہیں جو واقعی اردو کے فروغ میں اہم رول اداکرتے ہیں۔یہ سہی ہے کہ بہت سے شعرا و شاعرات اردو سے نابلد ہوتے ہیں وہ ہندی میں اشعار لکھ کر لاتے ہیں جسے وہ خود نہیں کہتے ، جسے کوئی اور انہیں لکھ کر دیتاہے اور یہ طریقہ مشاعرے کے لئے زہر ثابت ہورہاہے۔
سوال: نئے تخلیق کاروں کا الزام ہے کہ خواتین کو ادبی دنیا میں زیادہ ترجیح دیا جاتاہے ،ان کی ہر ٹوٹی پھوٹی تحریر قابل اشاعت ہوتی ہے جبکہ مردوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہوتاہے۔
جواب : یہ الزام50فیصد غلط ہے ،ہاں! کچھ تخلیقات ترجیحی بنیاد پر ضرور شائع کی جاتی ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ مردوں کی تخلیق پر خواتین کو ترجیح دی جائے۔ دیگر رسائل کیا کرتے ہیں ، اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ’’زبان وادب‘‘ میں کوئی بھی تخلیق صرف اپنے معیار کی بنیاد پر ہی جگہ پاتی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ میں نے کچھ مضامین اپنے دوستوں کے بھی اس لئے شائع نہیں کئے کہ وہ ’’زبان و ادب‘‘ کے معیار کے نہیں تھے۔اگر خواتین کی تخلیق بھی ہوتی ہے تو اس میں معیار کا ہونا ضرور قرار دیا جاتا ہے۔
بہاراردو اکیڈمی کی سرگرمیاں جاننے کیلئے یہاں کلک کریں
سوال : اردو ادب اور افسانہ نگاری میں آپ کسی کو آئیڈیل مانتے ہیں،کسی سے متاثرہیں؟
جواب : شروع میں جب میں نے لکھنا شروع کیا تو میں نے کرشن چندرسے مشورہ لیا ،ان سے خط وکتابت بھی ہوتی رہی اورانہوں نے رہنمائی کی کہ خوب پڑھا کروتب ہی لکھا کرو،لیکن میں نے کسی کی اتباع نہیں کی۔ میں جو بھی لکھتا ہوں اپنی سوچ کے مطابق لکھتاہوں، کسی سے متاثر ہونا میں نے سیکھا ہی نہیں۔ جہاں تک آئیڈیل کا سوال ہے تو خود سے بڑے سارے فکشن نگار کو میں اپنا آئیڈیل تصور کرتا ہوں۔
سوال : اردو اخبارات کے غیر موثر اور زوال پذیرہونے کی وجہ کیا ہے ،اردواخبارات کا غیر معیاری ہونا یا اردو قارئین کا فقدان؟
جواب : اردو قارئین بہت ہیں،کثرت کے ساتھ اردو پڑھنے والے موجود ہیں البتہ اردواخبارات کااب کوئی معیار نہیں رہ گیاہے،اس لئے اردو کے زوال کی وجہ اخبارات کا غیر معیاری ہوناہے ،اردو کے مالکان اخبار کے معیار پر توجہ بھی نہیں دیتے انہیں صرف اخبار کے ذریعہ آرہی آمدنی سے مطلب ہوتا ہے۔ اردو اخبار کا معیار بلند کرنے کے لئے اچھے صحافی کی ضرورت ہوگی اور وہ اچھی تنخواہ بھی لیں گے جو مالکان کبھی نہیں کرنے والے۔ اردو اخبارات کی اپنی پالیسی ہوتی ہے کہ کسے شائع کرنا ہے، کس خبر کو دباناہے اس کا فیصلہ وہ خود کرتے ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا خوف ہوتاہے کہ اگر کوئی ایسی ویسی خبر چھپ گئی تو ان کے اشتہار پر اس کا منفی اثر ہوسکتاہے ، لیکن آج بھی کچھ اردو اخبارایسے ہیں جو روز اندھیرے میں چراغ کے مانند چمک رہے ہیں۔
سوال : کچھ اردو داں حضرات کا الزام ہے کہ اردو ادب میں اب نیا کچھ نہیں آرہاہے ،پرانی چیزیں رپیٹ ہورہی ہیں ؟
جواب : یہ الزام کسی حد تک درست بھی ہے اردو ادب پر ایک جمود طاری ہوگیاہے اور پرانی چیزیں ہی دوہرائی جارہی ہیں ، لیکن کچھ ایسے فنکار بھی ہیں جو آج بھی کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال: ادب کے نئے ستاروں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟
جواب: ادب کی نئی پود میں ٹیلینٹ بہت ہے جوش بھی بہت زیادہ ہے ،یہ دونوں چیزیں بہت اچھی ہیں، لیکن وہ تنقید لکھتے وقت کچھ جاریحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو ان کی منفیعت کو ظاہر کرتا ہے ۔ جوش کے ساتھ ہوش کی ضرورت ہے یقیناًان میں ٹیلینٹ اور صلاحیت بہت ہے اگر ان کی صحیح رہنمائی کی گئی تو اس نسل کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انہیں راستہ بنانے کا ہنربھی معلوم ہے۔
ملت ٹائمز کو وقت دینے اوربات چیت کیلئے بہت شکریہ
شکریہ
قارئین اس انٹر ویو پر ہمیں آپ کے تبصرے اور ردعمل کا انتظار رہے گا ،آپ یہاں سائٹ پر بھی تبصرہ کرسکتے ہیں یاپھر ملت ٹائمز کے فیس بک پیج پر اس سلسلے میں اپنا ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں ۔
فیس بک پیج
انٹر ویو پڑھنے کیلئے بہت شکریہ
بہت جلدہم آپ کی خدمت میں پیش کریں گے کسی اور شخصیت کے افکار وخیالات