پٹنہ: میں امارت شرعیہ کے مختلف پروگراموں کے سلسلے میں جمشید پور میں مقیم تھا کہ جناب اشرف استھانوی کے انتقال پر ملال کی خبر ملی، انتہائی صدمہ ہوا کہ ایک بیباک اور بہترین صحافی ہمارے درمیان سے اٹھ گیا وہ جس موذی مرض میں کئ سال سے مبتلاء تھے اور جس طرح جسم اور زبان پر اس کے اثرات پڑے تھے اس سے یہ خبر غیر متوقع نہیں تھی، صحت کی حالت میں اور علالت کے زمانہ میں بھی بعض ضرورتوں کی وجہ سے امارت شرعیہ ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا جب بھی دفتر آتے مجھ سے ملنے کی ضرور کوشش کرتے دیر تک بیٹھتے اور مختلف مسائل پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے ، آخری بار میری ملاقات امین کے دفتر میں ہوئی تھی، وہ بول نہیں سکتے تھے لکھ کر باتیں کیا کرتے تھے، یہ بڑی بات تھی کہ گویائی چھن جانے کے باوجود ان کا قلم آخری دم تک رواں دواں رہا، صحافت میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ایک ہی خبر وقت کا خیال نہیں رکھنے کی وجہ آؤٹ اوف ڈیٹ ہوجاتی ہے بر وقت آجائے تو اس کی بات دوسری ہوتی ہے، جناب اشرف استھانوی کو ٹائمنگ کا شعور بہت تھا، وہ خبر ہی نہیں کتابوں کے لکھنے اس کو چھپوانے اور لوگوں تک پہنچانے میں بھی اس کا خیال رکھتے تھے کہ سب کام بروقت ہو۔
اشرف استھانوی کی تحریریں اخبارات میں بیباک اور بے لاگ ہوا کرتی تھیں، انھوں نے کئی اخبارات کو اپنی خدمات پیش کی اور ان کو مارکٹ میں مقبول بنانے کا کام کیا ۔
اس تعزیتی اجلاس میں میں ان کی خدمات کو سراہتا اور خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، میں ان دنوں رانچی کے سفر پر ہوں، اردو میڈیا فورم کے ذمہ داروں نے اچھا کیا کہ بروقت تعزیتی جلسہ منعقد کیا، میں سفر پر نہیں ہوتا تو ضرور حاضر ہوتا، اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور اردو صحافت کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے۔
ان خیالات کا اظہار اردو میڈیا فورم بہار، کاروان ادب حاجی پور کے صدر اوراردو کارواں کے نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کیا ہے۔