ہیمبرگ(ملت ٹائمز)
جرمن کے شہر ہیمبرگ میں واقع جی 20 اجلاس اختتام پذیر ہوگیا ہے ،اس اجلاس میں متفقہ طور پر مظاہرین کی پرتشدد کارروائیوں کی شدید مذمت کی گئی ہے لیکن تحفظ ماحول اور عالمی تجارتی امور پر اختلافات برقرار رہے۔ روسی اور امریکی صدور نے شام میں جزوی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
مظاہرین انیس صنعتی اور ترقی پذیر ممالک اور یورپی یونین کے اس سربراہی اجلاس کے مقام تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ ایسا جرمنی اور اس کے ہمسایہ ممالک کے بیس ہزار پولیس اہلکاروں کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔
باہر پولیس اہلکار واضح طور پر اپنے فرائض انجام دینے میں کامیاب رہے لیکن سربراہی کانفرنس کے اختتام پر حتمی دستاویز تیار کرنے والوں کے بہت سے معاملات مبہم رہے۔
اتفاق سبھی بیس ممالک صرف اس پر کر سکے ہیں کہ مالیاتی منڈیوں کے ریگولیشن جاری رکھی جائے گی ، دہشت گردی اور ٹیکس چوری کا مقابلہ کیا جائے گا۔ سن 2008 کے مالیاتی بحران کے نتیجے میں بننے والے اس بلاک کا یہی مرکزی موضوع رہا ہے۔
تحفظ ماحول کے معاملے میں جی ٹوئنٹی میں ویسا اتحاد نہیں رہا، جیسا کہ ماضی میں رہا ہے۔ انیس کے مقابلے میں امریکا تھا، جو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے باہر نکل چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیمبرگ میں پیرس کنونشن کے مطابق ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا عہد نہیں کرنا چاہتے تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سربراہی اجلاس کو اپنی بین الاقوامی تنہائی کو ختم کرنے اور دو طرفہ ملاقاتوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے جرمن چانسلر کے قائدانہ کردار کی بھی تعریف کی۔
امریکا اور روس کی نظر میں اس سربراہی اجلاس میں سب سے اہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ملاقات رہی۔ ان دونوں رہنماو¿ں نے شام میں جزوی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
امریکی انتظامیہ کی نظر میں بھی یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک جیت ہے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ مزید دو طرفہ تعاون کے لیے ایک بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی پر اور حقیقت میں نظر آنے والے ٹرمپ میں واضح فرق ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ جی ٹوئنٹی گروپ بین الاقوامی سطح پر زیادہ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے اختتام پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے واضح کیا کہ مشترکہ طور پر مل کر ہی مسائل کا خاتمہ اور ترقی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ٹوئنٹی کے رکن تحفظ تجارت کے خلاف اور منصفانہ تجارتی پالیسیوں کے لیے پرعزم ہیں۔
جرمن چانسلر کو اس دوران ایک دلی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ افریقہ میں شراکت داری اور سرمایہ کاری کے حوالے سے نئے معاہدوں کا آغاز ہوا ہے۔ اتفاق ظاہر کیا گیا ہے کہ افریقی معیشت کے کاروباری اداروں میں براہ راست سرمایہ کاری کی طرف حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کا مقصد یہ ہوگا کہ افریقی باشندے بہتر مستقبل کے لیے یورپ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور نہ ہوں۔
(بشکریہ ڈی ڈبلیو)