عبید الکبیر
ملت ٹائمز
اس گلوبلائیزیشن کے دور میں جہاں پوری دنیا سمٹ کر ایک گاؤں کی مانند ہو گئی ہے ۔مواصلات کے جدیدترین وسائل کی مدد سے پل بھر میں ایک خبر سات سمندر پار کا چکر لگا لیتی ہے ۔پوری دنیا میں اس وقت سائنس اور تکنالوجی کے میدان میں مسابقت کا عمومی رجحان پایا جا تاہے۔خود بھارت کے وزیر اعظم اس میدان میں بھارتی نوجوانوں کے لئے روشن مستقبل کی بشارتیں سنا رہے ہیں ۔ایسے میں اگر ملکی حالات پر سمندر پار سے کوئی تبصرہ سننے کو ملے تو یہ کچھ زیادہ تعجب کی بات نہیں ۔ البتہ ایسے کسی تبصرے کو یکسر نطر انداز کرنا یقیناً دانشمندانہ رویہ نہیں کہلائے گا بلکہ ایسے تبصرے کے پس پردہ اسباب و عوامل پر غور وفکر کرنا صحت مندانہ طرز فکر اور فکری کشادگی کی دلیل ہے ۔احتساب فکر وعمل ایک زندہ قوم کی نشانی ہوا کرتی ہےاور صحت مندانہ تنقید یا تبصرے کے تئیں مثبت رویہ اپنانا اعلی ظرفی کی علامت ہے۔گذشتہ دنوں بھارت کی شورش زدہ صورت حال پر قابو پانے کے لئے امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے ایک خط حکومت ہند کو موصول ہوا۔اس خط میں وزیر اعظم کو خیر خواہانہ مشورہ دیا گیا کہ وہ ملک میں اقلیتوں کے خلاف ہورہے مظالم کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات کریں ۔ذرائع کے مطابق مذکورہ مکتوب میں جسے امریکی پارلیمان کی مجلس شیوخ کے ارکان سمیت قریب 34 ارباب دانش کی تائید حاصل ہے وزیر اعظم سےاس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے تحفط کو یقینی بنایا جائے۔خط میں ملک کی ریاست چھتیس گڑھ میں عیسائی اقلیت کے خلاف متشددانہ واقعات اور بیف بین کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم کو یا دلاتے ہوئے مکتوب نگاروں نے بھارت میں مکمل مذہبی آزادی کو یقینی بنانے اور آر ایس ایس جیسی تنظیم کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری پر یہ کسی غیر ملکی ادارہ کی پہلی تنقید نہیں ہے ۔اس سے قبل بھی حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مودی سرکار کو مذہبی منافرت کے حوالے سے متنبہ کیا تھا۔سال گذشتہ یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران بھی امریکی صدر براک اوباما نے ملک میں مذہبی رواداری قائم کرنے کی اپیل کی تھی ۔ان دنوں کچھ برادران وطن کو ہماری قومی یکجہتی پر کسی قسم کی تنقید یا تبصرہ بہت گراں گذر تا ہے ۔ہمارے یہ برادران وطن بھارت میں کسی قسم کی عدم برداشت کے امکان کو ہی یکسر مسترد کردینا چاہتے ہیں ۔گذشتہ برس کے اواخر میں جب ادیبوں کے ایک حساس طبقے نےملک میں بڑھتی عدم رواداری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے انعامات واپس کیے اور کئی ایک مشہور ہستیوں نے ملک کی بگڑتی صورت حال پر لب کشائی کی تو ایک طبقے نے بڑی شد ومد کے ساتھ اس کے خلاف آواز بلند کی ۔ ان احباب کے بقول ایسی بیان بازیوں سے ملک کا وقار مجروح ہوتا ہے ۔ اور حدتو یہ ہے کہ اس قسم کا اظہار خیال کرنے والوں کو پاکستان بھیجنے کی بات بھی کہی گئی۔در اصل جب سے مرکز میں سنگھ پریوار کی پروردہ این ڈی اے کی حکومت قائم ہوئی ہے تب ہی سے بھارت میں ایک خاص نظریے کے حامل افراد اپنی بالادستی تسلیم کرانےکی کوشش میں مصروف ہیں ۔مودی سرکار کا قریب قریب دوسالہ سفر اسی قسم کے ہنگاموں میں گھرا نطر آتا ہے ۔موجودہ بر سر اقتدار پارٹی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج امریکی پارلیمان میں بھارت کے حال زار پر تبصرے ہو رہے ہیں ۔ہمارے وطن دوست حضرات اب اس صورت حال پر کیا گل افشانی کریں گے اس کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ۔مگر یہ بات اب تسلیم کی جانی چاہئے کہ اگر بی جے پی سرکار انتقام کی سیاست پر کاربند نہ ہوکر ملک کی سواسو کروڑ عوام کے مجموعی مفاد کے لئے کام کرتی تو آج بھارت کو امریکی ایوان کے سامنے اس طرح شرمندہ نہ ہونا پڑتا ۔جو لوگ اندرون خانہ تبصروں پرچراغ پا ہو جاتے ہیں ان کو ضرور اس سوال پر غور کرنا چاہئے ۔اگر امریکی صدر کی اپیل کو سنجیدگی سے لیا گیا ہوتا تو شاید آج صورت حال کچھ اور ہوتی۔جب تک معاملہ اندرون ملک کی تنقیدوں کا تھا تو حکمران جماعت کی طرف سے عموما ًیہی باور کرایا گیا کہ یہ سب کچھ در اصل حزب اختلاف کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے مگر اب جب کہ امریکی قانون داں بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا اس سے بھی یہ کہہ کر پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے کہ اس میں بھی اپوزیشن کا ہاتھ ہے ۔بہت ممکن ہے کہ مرکزی حکومت اور اس کی حلیف جماعتیں اس بار بھی امریکی ایوان نمائندگان کی اس پہل کو ‘فلاں کی سازش ‘کہہ کر ایک نئی بحث کو جنم دے دے مگر ہمارے جوشیلے’ قوم پرستوں ‘سے جن کی نظر میں یہ ملک وطن دشمنوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ہماری میڈیا کو یہ سوال کرنا چاہئے کہ بیرون خانہ بسنے والے لوگوں کے اس تبصرہ سے بھارت کے حالات کے تئیں بین الاقوامی برادری کی جو رائے قائم ہوگی اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔جو لوگ اپنی طرز فکر سے اختلاف کو وطن دشمنی سے تعبیر کررہے ہیں انھیں اپنے رد عمل سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ان کے اس متشددانہ طرز عمل سے بھارت کی بین الاقوامی شبیہ کہیں مجروح تو نہیں ہورہی ہے۔کیا عالمی میڈیا کے لئے یہ معاملہ انتہائی مضحکہ خیزنہ ہوگاکہ کثرت میں وحدت کی شان رکھنے والے بھارت جیسے ملک میں کچھ لوگ اپنے لچر بیانات کے ذریعے حب الوطنی کی سند بانٹتے پھریں۔کیا دنیا کو مطمئن کرنے کے لئے صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ کہ بھارت میں کچھ کمیونسٹ لوگ وطن دشمنی کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ یہ تمام الزامات دروغ بیانی پر مبنی ہوں ۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کی صورت حال جیسے عیسائی اقلیت کے مذہبی مقامات پر نشانہ ،تعلیمی اداروں پر الزام تراشی اور ان کے کردار کے ساتھ مجرمانہ چھیڑ چھاڑ یہ وہ امور ہیں جن کی بنا پر بھارت آئے دن نئے نئے سوالات کے گھیرے میں آ تا رہے گا ۔یہ صورت حال کچھ ارباب وطن کی پسند یا ناپسند پر موقوف نہیں ہے ۔اس لئے بہ حیثیت ہندستانی ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو عدم استحکام کا شکار ہونے سے بچائیں ۔بد قسمتی سے حکمران جماعت کے اندر ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر سنجید گی سے غور کرکےاس کا حل تجویز کرنے یا کسی الزام کا توڑ پیش کرنے کے بجائے اکثر بحث کا رخ موڑ دیتی ہے اوراس کے ہم خیال عناصر معترضین پر ٹوٹ پڑتےہیں ۔ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں اس رویہ کو کم سے کم عدم برداشت سے ہی تعبیر کیا جا ئے گا ۔ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہماری انتطامیہ کو یقینا ً ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جوملک میں امن وامان کی فضا کو بنائے رکھیں اور بھارت کے وقار کو نہ صرف بحال رکھنے میں معاون ثابت ہوں بلکہ اس کے اضافے کا باعث بھی ہوں ۔اگر اس حساس پہلو کو نطر انداز کرکے پھر انتقامی سیاست کا رویہ اپنایا گیا تو شاید آئندہ بھارت میں جمہوری اقدارمزید عدم استحکام کا شکار ہوجائیں ۔