مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ)
ملک شام میں انقلاب آچکا ہے، بعث پارٹی اور اس کے سربراہ بشار الاسد کو ملک چھوڑ کر روس میں سیاسی پناہ لینی پڑی ہے، اس طرح شام میں اکسٹھ سالہ جبر و استبداد کا تاریخی دور اختتام پذیر ہوا، اس دور کا آغاز حافظ الاسد کی بغاوت سے ہوا تھا، جب انہوں نے فضائی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے بغاوت کرکے ملک پر قبضہ کرلیا تھا، 1963ء سے ظلم وجور کی جو گرم بازاری ہوتی تھی، اسے بشار الاسد نے اپنے دور میں جاری رکھا، جس کے نتیجے میں بشار الاسد نے اپنے تیرہ سالہ دور اقتدار میں سوا دو کروڑ آبادی والے ملک شام کے کم وبیش آٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کروادیا، ساٹھ لاکھ لوگوں کو یا تو ملک کے اندر ہی نقل مکانی کرنی پڑی یا انہیں بشار الاسد نے ملک بدر کرادیا، بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جنہیں شام کی قید میں انسانی سہولیات سے محروم کرکے اذیتیں دی جارہی تھیں، انقلاب کی دستک شام میں 2011ء میں عرب بہاریہ کے وقت بھی محسوس کی گئی تھی، لیکن بشار الاسد کی حکومت نے ایران اور روس کی مدد سے اسے کچل کر رکھ دیا تھا، کہنے کے لیے بعث پارٹی عرب دنیا میں کمیونسٹ پارٹی کے نظریات کی حامی تھی، لیکن اس کے ظلم کے شکار شام کے سنی مسلمان خاص طور سے ہوئے اور ایران کے اشارے پر ان کا قتل عام کیا گیا8دسمبر2024ء کی صبح,شام کو اس ظالمانہ حکومت سے نجات ملی اور ملک شام میں نئی صبح طلوع ہوئی، طلوع صبح کی خاطر شام کے لوگوں کی طویل قربانی کی لمبی داستان ہے، یہ انقلاب شام کی سب سے مضبوط عسکری قوت ہیئت تحریک شام کی قیادت میں آیا، اس کے علاوہ متعدد عسکری گروپ تھے، جو 2013ء سے ہی شام کے نصف سے زائد حصہ پر قابض اور دخیل تھے، بقیہ حصہ پر بشار الاسد کی حکومت ایران اور روس کی مدد سے مضبوط اور مستحکم تھی، بشار الاسد نے روس کو بعث پارٹی کے کمیونسٹ نظریات کا حامل قرار دے کر مطمئن کر رکھا تھا اور سنیوں کا قتل کرکے ایران سے اپنے تعلقات استوار کرنے میں لگا رہا۔
بشار الاسد اپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد 2000ء میں اقتدار میں آئے تھے، حافظ الاسد1971اء میں باضابطہ حکمراں بن گئے تھے اور تاحیات 10جون 2000ء تک حکمرانی کرتے رہے، بشار الاسد 2021ء میں ایک متنازع انتخاب کے نتیجہ میں چوتھی بار صدر منتخب ہوئے تھے اور سرکاری طورپر نتائج کے اعلان کے مطابق انہیں پچانوے (95) فی صد ووٹ ملے تھے، اس انتخاب کے بعد عرب ممالک سے بھی شام کے تعلقات بحال ہونے لگے اور شام کو عرب لیگ میں پھر سے شامل کرلیا گیا، حالاں کہ بشار الاسد پر 2013ء میں غوثہ کے شہریوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا سنگین الزام تھا۔
بشار الاسد کے وطن چھوڑنے کے بعد اسرائیل نے بڑا حملہ شام پر کردیا ہے اور اس کے ہوائی اور فوجی اڈوں کو تہس نہس کرکے چھوڑ دیا ہے، اسے خطرہ ہے کہ شام کی عسکریت پسند قوتیں گو لان کی پہاڑیوں پر قابض نہ ہوجائیں، جن پر اسرائیل نے غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے، اس سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان جو بفرزون تھا اس پر بھی اس نے قبضہ کرلیا ہے، یہ بفرزون ملکوں کی سرحدوں کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے جس کی دونوں طرف دونوں ممالک کی فوجیں رہتی ہیں اور یہ علاقہ راہ داری کے کام میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
شام سے بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ترکی، ایران، عرب اور یورپ کے مفاد میں نظر آتا ہے، اس لیے امریکہ کے نو منتخب صدر نے یہ کہہ کر اپنا پلہ جھاڑ لیا ہے کہ شام امریکہ کا دوست نہیں ہے، اس لیے اس کے احوال سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہے، ضرورت شام میں ایک مستحکم حکومت کی ہے، مارچ تک کے لیے عبوری حکومت ہیئت تحریک شام نے بنالی ہے، اس کے بعد شاید باضابطہ انتخاب ہو اور نئی مستحکم حکومت وجود میں آئے، شامی عسکریت پسندوں کا ایک ہفتہ کے اندر ملک کو فتح کرلینے اور شامی فوجیوں کے افغاستان کی طرح ہر شہر میں ہتھیار ڈالتے جانے کی وجہ سے تجزیہ نگاروں کو مختلف اندیشے اور خطرات بھی ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی یہ فتح کسی سیاسی ڈیل کا نتیجہ ہے، اس سلسلے میں گذشتہ ہفتہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا ترکی اور قطر کا دورہ بہت معنی رکھتا ہے، بند کمروں کی ان ملاقاتوں میں کیا کچھ سمجھوتے ہوئے، میڈیا میں اس کا ذکر نہیں آیا، دنیا جس اعلانیہ سے واقف ہوسکی وہ دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی مفادات کے تحفظ اور خطے میں امن کی بحالی پر زور تھا، خارجی سطح پر کمروز ہوتا، ایران، عسکریت پسندوں سے مزاحم نہیں ہوسکا اور میدان خالی پاکر عوام اور ملک کو ظلم وجبر سے آزاد کرانے والی طاقتوں نے بشار الاسد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا، فاتحین نے جیل سے ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرادیا اور قصر صدارت تک بنگلہ دیش کی طرح پہونچ کر ان نشانات کو مٹانے کا کام کیا جو باپ بیٹے کی حکومت کی علامت سمجھی جاتی رہی ہیں۔
ہیئت التحریر الشام کے سربراہ ابو محمد جولانی عراق وشام میں کام کرنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے القاعدہ کے سخت گیر نظریات سے خود کو علاحدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ایک معتدل قائد کے طورپر سامنے آئے ہیں، حکومت کی باگ ڈور جس کے ہاتھ بھی ہو، ان کی ذمہ داری ہے کہ مختلف عسکری گروہوں اور عوام کے جوڑنے کا کام کریں، اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ملک مستحکم ہوگا، ورنہ مختلف عسکری گروہ آپس میں دست وگریباں ہوگئے تو ملک بڑی طاقتوں کا پھر سے غلام بن جائے گا، اس لیے بہت پھونک پھونک اور سونچ سمجھ کر اقدام کرنے کی ضرورت ہے، انبیاء اور علماء کی اس سرزمین سے دنیا کے تمام مسلمانوں کی امیدیں وابستہ ہیں اور ان امیدوں پر پورا اترنے کی ذمہ داری شام کی نئی قیادت کی ہے۔
شام کو اب بھی ایک بڑا خطرہ ڈیمو کریٹک فورسز سے ہے، جس کی قیادت کُرد کر رہے ہیں، امریکہ بھی موقع دیکھ کر ہاتھ پاؤں پھیلا سکتا ہے، کیوں کہ اس علاقہ میں 900 امریکی فوجی اب بھی تعینات ہیں۔
مومن کی اپنی فراست ہوتی ہے، ہم تو دور سے دیکھ رہے ہیں، جو قریب سے وہاں کے مسائل سے جوجھ رہے ہیں، جنہوں نے طلوع صبح کی خاطر قربانیاں دی ہیں وہ اس قسم کے اندیشے ومضرات سے یقیناً ناواقف نہیں ہوں گے، انہیں خوب معلوم ہے کہ طلوع صبح کی خاطر انہیں جاگتے رہنا ہوگا۔