مفتی اشرف علی صاحبؒ کی رحلت ایک مثالی شخصیت کا فقدان

مولانا بدر الحسن القاسمی (کویت) 
مولانا مفتی اشرف علی باقویؒ امیر شریعت کرناٹک و مہتمم و شیخ الحدیث دار العلوم سبیل الرشاد (بنگلور) کے انتقال کی خبر صاعقہ اثر ثابت ہوئی اور پیش آنے والے اس حادثہ نے سارے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
مصائب اور تھے پر ان کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
۸ ستمبر ۲۰۱۷ء بروز جمعہ صبح سویرے جب یہ اطلاع ملی تو شدید صدمہ کے ساتھ دل میں یہ خواہش رونما ہونے لگی کہ کاش یہ خبر غلط ہوتی، لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔ جو آیا، جانے ہی کے لئے آیا ہے اور جسے زندگی کا روگ لگ گیا ہے اسے مرنا ہی ہے۔
اس طرح کے واقعات کے پیش آنے پر ایک طرف جانے والے کی زندگی کے جلوے حافظہ کی اسکرین پر ظاہر ہونے لگتے ہیں اور دوسری طرف کسی بھی وقت خود بھی اس طرح کی ناگہانی صورت حال سے دوچار ہونے کا خوف بھی ستانے لگتا ہے۔ اس لئے کہا گیا ہے ” موت سے بڑا کوئی واعظ نہیں ہے، (کفی بالموت واعظاً)۔
جانے والے کے محاسن بے شمار ہیں، مفتی اشرف علی صاحب کی موت کسی ایک فرد کی موت نہیں ایک زمانہ کی موت اور پوری ملت کا خسارہ ہے، وہ علمی اعتبار و استناد کے ساتھ عالمانہ وقار و مصلحانہ و داعیانہ اوصاف سے سرشار اور جذبۂ عمل سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے، ان کی ظاہری سطح بیحد خاموش اور پُرسکون نظر آتی تھی لیکن ان کے دل میں ایک آتش فشاں تھا جو ان کو بیچین رکھتا تھا اور ملت کا ہر المیہ ان کو مضطرب کردیتا تھا۔
ان کا دائرۂ عمل صرف جنوبی ہند، صوبہ کرناٹک تک محدود نہیں تھا، چنانچہ ملک کے تقریباً سبھی متحرک اور فعال اداروں سے نہ صرف وہ وابستہ تھے بلکہ ان کی سرگرمیاں خود ان کی زندگی کا ایک حصہ تھیں۔ وہ فقہ اکیڈمی کے نائب صدر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فعال رکن، ملی کونسل کے ذمہ داروں میں اور دار العلوم (وقف) دیوبند، ندوة العلماءلکھنؤ، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ سب کی شوری کے اہم رکن تھے اور وہ ملت کے ہر پروگرام میں اسٹیج کی زینت ہوا کرتے تھے، ان کے انتقال کے سانحہ سے فقہ اکیڈمی کو بھی زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اب جبکہ ایک طرف نئے مسائل کی پیچیدگی ہے تو دوسری طرف مستند مفتیوں اور فقہاء کا عمومی فقدان، مولانا کے جانے سے صرف انتظامی نہیں علمی نقصان بھی ہوا ہے جس کی تلافی ضروری ہے تاکہ فتووں اور قرار دادوں کا وقار و اعتبار برقرار رہے۔
مولانا اشرف علی صاحب کی پیدائش ۱۹۴۰ءکی ہے اور تعلیم ” باقیات الصالحات “ اور دالعلوم دیوبند میں ہوئی، انھوں نے دار العلوم کے خیر القرون کی جھلکیاں دیکھیں تھیں، صحیح بخاری انھوں نے ۱۹۵۸ء میں دار العلوم دیوبند کے آخری باکمال و بے مثال شیخ الحدیث یادر گار شیخ الہند و علامہ کشمیری حضرت مولانا فخر الدین صاحبؒ سے پڑھی، علامہ ابراہیم بلیاویؒ اور مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوری ؒ وغیرہ سے فیض پایا۔ فراغت اور افتاء کی مشق کے بعد اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ دار العلوم سبیل الرشاد کی تدریس اور تعمیر و ترقی کی مہم میں لگ گئے، دیگر فنون کی کتابوں کے ساتھ ” شیخ الحدیث “ کا منصب ان کو عنفوان شباب ہی میں مل گیا۔
وہ ایک کامیاب مدرس، ماہر اور صاحب بصیرت مفتی ہونے کے ساتھ زبان آور خطیب بھی تھے، پاکیزہ ادبی ذوق اور شعر فہمی و شعر گوئی کا سلیقہ بھی رکھتے تھے۔
ان کی تقریریں زبان و بیان کی لطافت کے ساتھ بیحد مؤثر ہوا کرتی تھیں خاص طور پر سیرت کے موضوع پر ان کی زبان کی شستگی اور تعبیرات کی برجستگی سامعین کو مسحور کئے رکھتی تھی۔
انہیں غیر معمولی تواضع کا وصف تھا وہ خود کو ہمیشہ اس طرح پیش کرتے تھے کہ عام لوگوں پر ان کی شخصیت ظاہر نہ ہو جب تک ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا ابو السعود صاحبؒ باحیات رہے یہ ان کے ردیف اور ہم سفر ہی بنے رہے، دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کا اجلاس ہو یا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا والد محترم کے ساتھ مولانا اشرف علی صاحب کا سراپا ادب و نیاز مندی مظہر بنے رہے اور والد کی شفقت و محبت کے ساتھ ان کی تربیت سے بہرہ ور ہوتے رہے۔
حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ امیر شریعت بہار و اڑیسہ اور حضرت مولانا ابو السعود صاحبؒ امیر شریعت کرناٹک کے درمیان بڑی فکری ہم آہنگی تھی اور ہم ان دونوں ہی کے عقیدت مند تھے اس لئے ہم لوگوں کا باہمی رشتہ بھی بڑھتا رہا، اور عمر میں بڑے اور علم و فضل میں فائق ہونے کے باوجود ( مولانا اشرف علی صاحب ) میرے ساتھ برادرانہ و رفیقانہ معاملہ کرتے رہے بلکہ اپنی کسر نفسی اور مزاجی شرافت کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی تکریم اور عزت افزائی کرتے تھے اور ہمیشہ اس خواہش کا اظہار فرماتے کہ میں بنگلور آؤں اور سبیل الرشاد میں کچھ وقت گزاروں۔
دار العلوم سبیل الرشاد (بنگلور) جنوبی ہند کا معروف و معتبر ادارہ ہے وہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی منفرد نظام ہے، اس عظیم ادارہ کی بنیاد تو حضرت مولانا ابو السعود صاحب سابق امیر شریعت کرناٹک نے رکھی اور اس کو پروان چڑھانے اور اس کی آبیاری کرنے میں مفتی اشرف علی صاحب ان کے دست و بازو بنے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ادارہ کو فروغ دینے میں اپنی پوری زندگی لگادی۔
دار العلوم کا محل وقوع وسیع میدان، خوش نما بلڈنگ، نہایت ہی کشادہ کانفرنس ہال، وسیع لائبریری، طلبہ کے طعام و قیام اور لباس و وضع قطع کا مرتب و منفرد نظام ، سبھی چیزیں ایسی ہیں کہ ع
کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست
غالباً پہلی بار حاضری جامعہ دار السلام عمرآباد کی جوبلی کے موقع پر ہونے والے عالمی جشن سے واپسی پر ہوئی جس میں کئی عالمی شخصیتیں شریک ہوئی تھیں اور میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے ساتھ جانے والے وفد کا رکن تھا۔ بنگلور میں ہی سعودی عرب کے نامور عالم شیخ عبد اللہ بن سلیمان بن منع اور مشہور ادیب اور سفرنامہ نگار شیخ محمد بن ناصر العبودی اور کویت کی معروف شخصیت و سابق وزیر سید یوسف ہاشم الرفاعی سے ملاقات ہوئی اور شیخ العبودی اور الرفاعی سے میں نے ” الداعی “ کے لئے انٹرویو لئے۔ سبیل الرشاد میں سید یوسف کے لئے استقبالیہ کلمات کہنے اور ان کی تقریر کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی گئی تھی۔
دوبارہ حاضری حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی مرحوم کے ساتھ ہوئی، مفتی اشرف علی صاحب خود ہی بنفس نفیس استقبال کے لئے اسٹیشن تشریف لے آئے۔
ابھی دو سال پہلے جب حاضری ہوئی تو محترم امین عثمانی صاحب ساتھ تھے اور مولانا اشرف علی صاحب نے میزبانی اس طرح کی کہ ہمیں شرمندگی ہوتی رہی، لیکن وہ اپنی روایت کے مطابق دیدہ و دل فرش راہ بنانے کی سنت ادا کرتے رہے۔
ان سے دہلی، دیوبند، حیدرآباد، پٹنہ جہاں بھی ملاقات ہوئی وہ سراپا خاکساری و تواضع نظر آئے۔ مدینہ منورہ میں بھی ملاقات ہوئی اور ایک بار کویت میں بھی انھوں نے غریب خانہ کو شرف بخشا، ہمیشہ بنگلور آنے کی دعوت دیتے رہے، حیدرآباد کے مکان میں بھی ایک بار سید مصطفی رفاعی صاحب کی معیت میں تشریف لائے، ملی مسائل کے پروگراموں میں ہمیشہ دونوں ایک ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔
اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے ا کی ایک ایک ادا یاد آتی ہے، ان کی محبت ان کا تواضع اپنی شخصیت کو دوسروں پر نہ تھوپنے کی ادا، سستی شہرت سے نفرت اور ملت کے لئے قربانی دینے کا جذبہ اور اختلافات سے بلند ہوکر کام کرنے کا انداز یہ ساری خوبیاں ایسی ہیں جو ان کی شخصیت کے نقوش کو مٹنے نہیں دیں گی۔
حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کو اس طرح کے جواہر اکٹھا کرنے اور ان سے کام لینے کا خاص سلیقہ تھا۔ جب تک زندہ رہے مولانا اشرف علی صاحب بھی ان جواہر میں ایک امتیازی حیثیت کے حامل رہے، ملی کونسل سے ان کی اور سید مصطفی رفاعی صاحب کی وابستگی اسی وقت سے تھی، ان کے بعد بھی کرناٹک میں ملی کونسل ان دونوں بزرگوار کے دم سے نہ صرف زندہ رہی بلکہ دوسرے علاقوں کے لئے ایک مثال بن گئی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب کو اپنی رحمتوں کے آغوش میں خاص مقام عطا فرمائے اور ان کی زندگی بھر کی محنتوں اور قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے ان کے درجات بلند فرمائے، اور ان کے والد صاحب کے لگائے ہوئے اور ان کے پروان چڑھائے ہوئے باغ دار العلوم سبیل الرشاد کو صحیح خطوط پر چلانے اور مزید ترقی دینے کی ان کے وارثین کو توفیق بخشے۔ آمین