پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
”مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں، مسجدوں کے مینار ہمارے میزائل اور گنبد ہمارے ٹینک ہیں جبکہ مساجد کے نمازی ہمارے لشکری ہیں“یہ عبارت ترکی کے انقلابی شاعر ضیا گوگل کی ایک رباعی نظم کا ترجمہ ہے ،1998 میں رجب طیب ایردوان کو یہ نظم پڑھنے کی پاداش میں جیل کی سلاخوں میں چار ماہ کیلئے رہنا پڑا۔ فوجی جرنل نے تاحیات سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کرد ی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب طیب ایردوان استنبول کے میئر تھے ۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد طیب ایردوان نے نئی حکمت عملی اپنائی۔ 2001 میں جسٹس اینڈ ڈیوپلیمینٹ پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ جس کا ترکی نام Adalet ve Kalkinma Partisi ہے ۔ عام استعمال میں اسے اے کے پارٹی اور اردو میں آق پارٹی کہا جاتا ہے ۔ 2002 کے پارلیمانی انتخابات میں آق پارٹی کو 34 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی کامیابی ملی اور اس کے بعد سے مسلسل یہ پارٹی ہر ایک عام انتخابات میں اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوتی جارہی ہے ۔ 2003 میں قانون کے ذریعہ طیب ایردوان پر سیاسی پابندی ہٹائی گئی ۔ پھر انہوں نے پارلیمانی الیکشن میں قدم رکھ کر قومی سیاست کا آغاز کیا اور ہمیشہ عوام نے ان پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ۔
رجب طیب ایردوان تین مرتبہ ترکی کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور اب دوسری مرتبہ وہ وہاں کے صدر منتخب ہوئے ہیں ۔ یوں مسلسل پانچ مرتبہ عوام کے ذریعہ ملک کے سربراہ اعلی کے عہدہ کیلئے منتخب کیئے جانے والوں رہنماؤں کی فہرست میں ایردوان سب سے آگے ہیں۔ یہ اعزاز دنیا کے کسی اور رہنما کو اب تک حاصل نہیں ہوسکا ہے جسے مسلسل پانچویں مرتبہ عوام نے سربراہ اعلی کی حیثیت سے منتخب کیا ہو ۔2003 سے 2014 تک 11 سال وہ مسلسل وزیر اعظم رہے۔ اس دوران ترکی میں وزیر اعظم ہی ملک کا سربراہ اعلی اور بااختیار ہوتا تھا ، صدر کا انتخاب منتخب ممبران کے ذریعہ ہوتاتھا ۔ 2014 میں پہلی مرتبہ عوام کے ذریعہ صدر کا انتخاب ہوا جس میں ایردوان کو جیت ملی اور اب ترکی کے نئے صدارتی نظام میں بھی طیب ایردوان جیت حاصل کرنے میں کامیا ب رہے ۔
گذشتہ 24 جون کو ترکی میں ایک ساتھ ہونے والامشترکہ پارلیمانی و صدارتی انتخاب ترکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا ۔15 جولائی 2016 کو ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی تھی جسے عوام نے ناکام بنادیا ،اس بغاوت میں ملوث فوجی افسران،کرنلز ،جرنلسٹ ۔بیوروکریٹ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی گرفتاری کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ اپریل 2017 میں ایک ریفرنڈ م کے ذریعہ ترکی کا پارلیمانی نظام صدارتی نظام میں تبدیل کردیا گیا تھا ۔ عفرین آپریشن اور کرد باغیوں کے خلاف ایردوان کی فوجی کاروائی بھی منتازع بنانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ملک کی بڑھتی ہوئی معیشت بھی گذشتہ تین سالوں سے منجمد ہوچکی ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر ترکی کا یہ حالیہ مشترکہ انتخاب بطور خاص صدر کا الیکشن بہت زیادہ قابل توجہ بن گیا تھا۔ یورپ اور دنیا بھر کی نگاہیں بطور خاص اس الیکشن پر مرکوزتھیں ۔
امریکہ اور روس کے علاوہ عموماً کسی اور ملک کے انتخابات عالمی میڈیا کیلئے موضوع بحث نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی اسے عالمی سیاست کا حصہ بناکر کسی اور ملک میں اس پر مباحثہ کا انعقاد ہوتاہے لیکن ترکی کے حالیہ الیکشن کا تذکرہ دنیا کے ہر خطے میں تھا ،مغربی میڈیا میں یہ الیکشن سب سے زیادہ موضوع بحث تھا تجزیہ اس انداز سے کیا جارہا تھا جیسے یہ الیکشن پوری دنیا پر اثر انداز ہوگا ۔ طیب ایردوان کے بارے میں منفی تبصرہ اور جھوٹا پیروپیگنڈہ پوری مضبوطی کے ساتھ کیا گیا ۔ یہ بتایا گیا طیب ایردوان کی شبیہ بہت خراب ہوچکی ہے ۔ اس مرتبہ ترکی میں ان کی بدترین شکست ہوگی ۔ عوام ان کے اقدامات سے ناراض ہیں ۔کئی ایسی اسٹوری چلائی گئی جس میں کچھ لوگوں کو ترک شہری بناکر یہ کہلوایا گیا کہ مجھے طیب ایردوان سے نفرت ہے ۔ اس نے میرے پورے خاندان کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ اس شخص کو یہاں حکمرانی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔کئی مہینوں تک بڑی پلاننگ کے ساتھ مغربی این جی اوز اور تھنک ٹینک سے تنخواہیں لینے والے ”مبصرین“ اور ”تجزیہ کاروں“ کی جانب سے ایردوان مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی بڑی کوششیں کی گئیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے میں امریکی ٹیلیویڑن چینلز اور اخبارات سے لے کر یورپ کے لگ بھگ سب ہی رسائل اور جرائد منظم طور پر شامل تھے۔ بی بی سی سے لیکر سی این این، فوکس ٹی وی ۔دی گارجین۔ واشنگٹن پوسٹ ۔جرمن سرکاری میڈیا ڈوئچے ویلے اور عالمی سطح کے ہفتہ وار دی اکنامسٹ سب ہی نے ایردوان مخالف پروپیگنڈے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ ہندوستان کی مین اسٹر یم میڈیا نے بھی ہر ممکن مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کا کام کیا ۔ بی بی سی نے جھوٹی خبریں پھیلائیں تاکہ ترک ووٹروں کی ذہن سازی کرکے انتخابات میں ایردوان مخالف نتائج حاصل کئے جاسکیں، اسی نے انتخابات سے قبل ایک سٹوری شائع کی جس کا عنوان تھا ” کیا اب ہم عثمانی تھپڑ کھائیں گے؟“ ۔
24 جون 2018 کی دیر رات میں انتخابات کا آنے والا نتیجہ مغربی میڈیا کو ہضم نہیں ہوسکا۔ اسرائیلی اخبار ’ہرتز‘ نے سرخی جمائی: ”ایردوان کی فتح، ترکی آمریت کی راہ پر“ ، سی این این کا کہنا تھا کہ طیب ایردوان کی کامیابی سے ترک معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘ بی بی سی کا کہنا تھا کہ ملک اس قدر زیادہ تقسیم ہوچکا ہے کہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہندوستان کے انگریز اخبارات نے لکھا ” ترکی میں جمہوریت کمزور ، ایک مرتبہ پھر اسلام پسند لیڈر ایردون کی جیت “۔
مغربی میڈیا اور یورپین اقوام کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نگاہیں بھی اس الیکشن پر مرکوز تھیں۔ ہندوستان، پاکستان ، فلسطین ،مصر،سعودی عرب سمیت دنیا کے ہر خطے میں ملی ہمدردی کے جذبے سے سر شار ہر مسلمان طیب ایردوان کی جیت کیلئے بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہوکر دعا گو تھا۔ ہر ایک زبان پر یہ جملہ تھا ”یا اللہ طیب ایردوان کو ترکی میں کامیابی عطا فرما “ ۔ ایردوان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ ہے ۔ ترک عوام کے ساتھ پوری دنیا کے مسلمان ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ۔ان کے اقدامات کو بنظر تحسین دیکھتے اور سراہتے ہیں۔ انہیں اپنا سیاسی آئیڈیل مانتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ایردوان کے چاہنے والوں میں صرف دیندار اور ڈاڑھی ٹوپی والا طبقہ شامل نہیں ہے بلکہ عصری اداروں کے تعلیم یافتہ اور سیکولر کہے جانے والے مسلمان بھی ٹوٹ کر ان سے محبت کرتے ہیں ۔
یہ سب بے وجہ نہیں ہے۔ طیب ایردوان نے اپنی منفرد حکمت عملی اور پالیسیوں کی وجہ سے عالمی سیاست میں ترکی کا ایک مقام بنایا ہے۔ دنیا کے جس خطے میں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے ایردوان اس کی خبر لیتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل اور روس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے موجودہ ڈھانچہ کی وہ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے 17سالہ سیاسی سفر میں مسلمانوں کو خود اعتمادی کا سبق ملا ہے ۔مسلم سربراہان مملکت نے کسی کے دباؤ میں آئے بغیر اپنی آزادنہ پالیسی بنانے کا حوصلہ سیکھا ہے ۔فلسطینیوں کی مدد۔ اسرائیل سے خراب ہوتے سفارتی تعلقات اور روہنگیا کی آواز بننے کے بعد ان کی عالمی مقبولیت میں سب سے زیادہ اضافہ ہواہے ۔ترکی میں ایردوان کی کامیاب حکومت کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ بھی احساس اب ہونے لگا ہے کہ عالمی سیاست میں کسی مسلم ملک کا بھی مقام ہے، دنیا پانچ میں منحصر ہونے کے بجائے آگے بڑھ سکتی ہے اور ایک مسلم ملک اس دوڑ میں سب سے آگے ۔
ان کے کامیاب سیاسی سفر کی بنیاد پرتر ک عوام کے ساتھ دنیا بھر کے مسلما ن ایردوان کو 2023 تک وہاں کا صدر ہر حال میں دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ 2023 میں معاہدہ لوزان کو سو سال پورا ہو رہا ہے۔ اس معاہد ہ کی مدت پوری ہونے کے بعد ترکی سے متعدد پابندیاں ختم ہوجائیں گی اور اس کے بعد اس کی ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی ۔ عالمی سیاست میں اس کا مقام مزید بلند جائے گا ۔ خود ایردوان بھی ان چیزوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور 2023 تک وہاں اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں ۔ معاہدہ لوزان کے سلسلے میں ہم مکمل تفصیل اپنے آئندہ کالم میں سپرد قرطاس کریں گے ۔
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ایردوان جس انداز سے کام کررہے ہیں اس کی بنیاد پر 2023 تک ترکی کی جی ڈی پی دوگنی ہوجائے گی۔ دنیا کی دس بڑی معیشت میں اس کا شمار ہوگا فی الحال اٹھارہویں نمبر پر ہے ۔اگلے پانچ برسوں کے دوران فی کس اوسط آمدنی 25000 ڈالر (امریکی) کے برابر ہوجائے گی، برآمدات 500 بلین ڈالر تک بڑھ جائے گا، غیرملکی تجارت کا حجم ایک کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گا، شرح روزگار میں دس فیصد کا اضافہ ہوگا، بے روزگاری کی شرح کو پانچ فیصد تک کم کردیا جائے گا، ونڈانرجی میں 20 ہزارمیگاواٹ اور جیوتھرمل انرجی میں 600 میگاواٹ کا اضافہ بھی ہدف ہے۔ اسی طرح 14700میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے تین نیوکلئیر پلانٹ پیداوار شروع کردیں گے۔ 2023 تک ترکی یورپی یونین کا رکن بھی بن جائے گا، وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون کو غیرمعمولی حد تک بڑھالے گا، پورے خطے میں تنازعات کو حل کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ 2023 میں ہرترک شہری کی ہیلتھ انشورنس ہوجائے گی، ملک میں ہر ایک لاکھ افراد کے لئے 210 ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود ہوں گے۔ ریلوے ٹریک میں گیارہ ہزار کلومیٹر اور ہائی وے میں 15ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہوگا، اسی طرح بندرگاہوں میں بھی اضافہ ہوگا اور انھیں دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شامل کیا جائے گا۔ 2023 میں ترکی دنیا کا پانچواں بڑا سیاحتی مرکز ہوگا اس وقت اس کی چھٹی پوزیشن ہے۔ اگلے پانچ برس بعد ہرسال 50 ملین سیاحوں کی میزبانی کی جائے گی جبکہ اس انڈسٹری سے 50 بلین ڈالر کے برابر سالانہ ریوینیو حاصل کیا جائے گا۔ (بشکریہ نیوز ایکسپریس پاکستان)
ایردوان کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اعتدال کی راہ پر گامزن ہیں۔ نہ تو وہ مطفے کمال پاشا کی مخالفت میں یکطرفہ ان کے سیاسی نظام کو بدل رہے ہیں اور نہ ہی وہ مکمل طور پر خلافت عثمانیہ کا نظام تھوپ رہے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ترکی کو نہ تو کمالزم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی سیاسی اسلام اور جبری طور پر مذہبی قوانین کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایردوان کے پیش نظر نظر ترکی کی اسلامی شناخت کا احیاءبھی ہے اور ساتھ ساتھ وہ عوام کو آزادی دینے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں ایک طرف جہاں مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ملی ہے، اسلامی علوم و فنون کی نشر و اشاعت میں ترقی آئی ہے وہیں فلم انڈسٹری بھی پھل پھول رہی ہے ۔ مارکیٹ اور عوامی مقامات پر اسکارٹ پہنی خواتین کے ساتھ اب 40 فیصد برقع پوش عورتیں بھی نظر آرہی ہیں۔ اسی لئے ترکی کی دیندار عوام کے ساتھ وہاں کا سیکولر طبقہ بھی ان کی قیادت پرمکمل بھروسہ کرتا ہے ۔ 24 جون کے مشترکہ صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے اس دعوی کو سچ ثابت کردیا ہے ۔ جیت کا جشن منانے والوں میں بڑی تعداد سیکولر عوام کی بھی شامل ہے ۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے مسیجز اس بات کے گواہ ہیں کہ ایردوان ترکی کی دلوں کی دھڑکن بن چکے ہیں ۔
ایردوان کو ٹکر دینا اب آسان نہیں رہ گیاہے ۔ حالیہ انتخابات میں اتاترک کی قائم کردہ سیاسی جماعت ’ری پبلیکن پیپلزپارٹی‘ کے امیدوار محرم اینجہ اور ترکی کی تاریخ میں پہلی خاتون صدر امیدوار میرال آلکشنر سمیت کل چھ امیدواروں نے سخت مقابلہ کرنے کی کوشش کی، الکشنر کے بارے میں ترک میڈیا نے لکھا ہے کہ انہوں نے زنذگی بھر بے نقاب رہنے کے باوجود انتخابی مہم میں اسکارف اور برقعہ کا استعمال کیا ۔ مذہبی طبقہ کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے اپنائے بہرحال کسی طرح کی کامیابی نہیں مل سکی ۔ ایردوان کو اندورن ملک اور بیرون ترکی دونوں جگہ سب سے زیادہ ووٹ ملے اور یوں 53 ووٹ حاصل کرکے وہ پہلے راؤنڈ میں ہی ترکی کے نئے صدارتی نظام کے پہلے صدر بن گئے ۔ ترک عوام اور دنیا بھر کے کڑوروں مسلمانوں کو مبارکباد !
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار ہیں )
stqasmi@gmail.com