مسلم پرسنل لا بورڈ اور اس کا دائرہ کار

جلال الدین اسلم
آج سے تقریباً تیس بتیس سال قبل ایک مجہول سے عدالتی فیصلے کی آڑ میں بابری مسجد کا تالا کھول دینے کے بعد دہلی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا تھا، جس کی صدارت محترم مولانا علی میاں علیہ الرحمہ نے فرمائی تھی۔ اجلاس کی کارروائی کے باضابطہ آغاز کے ساتھ ہی مسلم مجلس کے اس وقت کے صدر فضل الباری قریشی نے ایک سیاسی تجویز پیش کردی تھی جس پر بورڈ کے صدر مولانا علی میاں نے دوٹوک لفظوں میں اعلان کیا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا تعلق چوں کہ قانون شریعت کے تحفظ کے لیے ہے اس لیے وہ بابری مسجد کے تعلق سے نہ تو کوئی ذمہ داری قبول کرسکتا ہے اور نہ مسلمانوں سے کوئی اپیل ہی کرسکتا ہے۔ مولانا محترم کا یہ موقف صد فی صد درست تھا۔ ان کی رائے بالکل صائب تھی اور نومبر 1990 تک بورڈ اس پر قائم بھی رہا، لیکن 3 دسمبر 1990 کو اچانک دہلی میں ایک میٹنگ بلائی گئی اور اس میں مسجد کے حوالے سے شرعی موقف بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ مسجد ہمیشہ مسجد ہی رہے گی اسے کسی مصلحت یا مصالحت کی بنا پر کسی فرد یا جماعت یا حکومت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بالکل ایسی چیز تھی جسے آپ اگر چاہیں تو اسے بابری مسجد تحریک میں مداخلت اور اپنے آپ کو اس کی رہنمائی کے مقام پر لابٹھانے کی بورڈ کی پہلی بالواسطہ کوشش کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اس طرح بورڈ نے بابری مسجد شہادت کے بعد اپنی ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دے کر بابری مسجد کا معاملہ اس کے سپرد کردیا اور یوں بورڈ نے بابری مسجد معاملے کو پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اب پرسنل لا بورڈ کی فکرمندیوں کا دائرہ مسلم پرسنل لا کے ساتھ ساتھ بابری مسجد اور اصلاح معاشرہ اور سب سے اُبلتا موضوع دستور بچاؤ اور دین بچاؤ جیسے اہم اُمور تک وسیع ہوچکا ہے۔ لیکن بات یہیں پر ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی، کیوں کہ جس طرح بورڈ میں بتدریج نت نئی فکر کے لوگوں کی توسیع ہو رہی ہے اسی طرح بورڈ کا دائرہ کار بھی وسیع ہوتا جارہا ہے۔
آج سے لگ بھگ 14-13 برس قبل قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ نے بورڈ کا صدارتی منصب سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنے پہلے انٹرویو میں بہت ساری حوصلہ افزا باتیں بھی کہی تھیں اور اس بات کا اشارہ بھی کیا تھا کہ بورڈ اپنی تشکیل کے بعد عملاً وہ سب کچھ نہیں کرسکا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ مسلم مطلقہ قانون کے تعلق سے انہوں نے فرمایا کہ قانون کی مس ڈرافٹنگ ہوئی، جو مسودہ تیار کیا گیا اس میں خامی تھی اور اس خامی کو دور کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ اسی طرح دارالقضا کے قیام کے فیصلے کے متعلق فرمایا تھا کہ تربیت یافتہ قاضیوں کی کمی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے ایک باضابطہ مرکز قائم کیا جائے گا اور اس کے لیے پھلواری شریف میں افتا کا ایک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ محترم قاضی صاحب علیہ الرحمہ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ہیڈ آفس کو ملت کے حالات کا سگنل بورڈ بنادینے کے عزم بالجزم کا اظہار بھی کیا تھا۔ بورڈ کی کارکردگیوں اور عزائم پر جو لوگ نظر رکھے ہوئے ہیں وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ بورڈ اسی مجوزہ سگنل کے مطابق عمل پیرا ہے جس کا اظہار قاضی صاحب مرحوم نے برسوں پہلے کیا تھا۔
جہاں تک مسلم پرسنل لا بورڈ کو ملت کے حالات کا سگنل بورڈ بنادینے کی بات یا آرزو ہے یہ بات کم از کم ہم جیسے کم فہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی کیوں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کے وقت یہ بات کسی لیت و لعل کے بغیر دو ٹوک انداز میں واضح کردی گئی تھی کہ اس کی غرض و غایت قانون شریعت کے تحفظ اور مسلم معاشرے کو شریعت پر عمل کرنے کی ترغیب دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور بورڈ نے کسی حد تک اپنے آپ کو اس دائرے تک محدود بھی رکھا تھا۔ اصلاح معاشرہ کی تحریک، دارالقضا کا قیام اور بابری مسجد کے تعلق سے ایک تیسری کمیٹی کی تشکیل اسی مقصد کے حصول کے لیے عمل میں آئی تھی۔ اگرچہ بورڈ اصلاح معاشرہ کے حوالہ سے کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے سکا ہے اور بابری مسجد سے متعلق اس کی کمیٹی بھی محض زینت قرطاس ہی بنی ہوئی ہے۔ تاہم یہ اطمینان بہرحال ہے کہ اس نے اپنے اعلانات اور اپنی منظور کردہ قراردادوں کو اس حد تک انہیں فراموش نہیں کیا ہے۔ لیکن جب اس ادارے کے ہیڈکوارٹر کو ملت کے حالات کا سگنل بورڈ بنانے کی سعی ہوگی تو شاید یہی کہا جائے کہ اس کے دائرہ کار کو غیر ضروری طور پر وسیع کردینے کا ایسا منصوبہ ہے جو کسی بھی طور پر نہ تو مناسب ہے نہ ہی قابل قبول۔ ہاں یہ بات اگر ملی کونسل یا مجلس مشاورت کا کوئی ذمہ دار کہتا تو بات قابل فہم ہوتی۔ اس لیے کہ یہ بات ملّی کونسل اور مسلم مجلس مشاورت دونوں ہی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ یہ دونوں ہی تنظیمیں ملت کے وسیع تر مسائل سے نمٹنے کے لیے وجود میں آئی ہیں، ان کا تعلق کبھی بھی صرف کسی مخصوص یا محدود مسئلے سے نہیں رہا ہے، جبکہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی ولادت باسعادت ہی مسائل کے صرف ایک پہلو یعنی مسلم پرسنل لا کے خلاف اغیار کی سازشوں سے نمٹنے کے لیے ہی ہوئی تھی۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کو مسلم مجلس مشاورت میں نمائندگی حاصل تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ یہ ادارہ ملت کے وسیع تر پلیٹ فارم کے ایک حصے کے طور پر پرسنل لا سے متعلق سوالات کو مشاورت کی میٹنگوں میں اٹھائے گا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر ملّی مسائل کے تعلق سے اس ادارے کو اپنا تعاون بھی دے گا۔ اب اس ادارے کو ہی ملت کے حالات کا سگنل بورڈ بنادیا جاتا ہے تو پھر مسلم مجلس مشاورت، ملی کونسل اور اسی طرح کی دوسری تنظیمیں جو وسیع تر ملّی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم ہیں ان کے رول کی اہمیت و افادیت کیا ہوگی؟ کیا میدان کار کا یہ ٹکراؤ ان اداروں اور تنظیموں کے علاوہ خود مسلم پرسنل لا بورڈ کے لیے مشکلات کے نئے دروازے نہیں کھول دے گا؟ ابھی پچھلے برس ہی مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم مجلس مشاورت کے اجلاسوں میں جس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی یا پیدا کردی گئی تھی وہ کسی بھی موقر ادارے کے لیے کسی بھی طور مناسب نہیں تھی۔ ذاتی مفادات، اغراض و مقاصد کھل کر اس طرح سامنے آئے جس سے بدمزگی پیدا ہوگئی تھی، ظاہر ہے جب ملت کے ایسے باوقار اداروں کے انتخابات میں بھی لابنگ ہونے لگے گی تو اور دیگر اداروں کا کیا حال ہوگا۔
ایسے حالات میں ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس باصلاحیت ایثار پیشہ اور دین و ملت کے لیے ابتلا و آزمائش کے آتشیں مراحل سے گزرجانے کا حوصلہ رکھنے والے افراد کی کمی ہے، ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ افراد کے انتخاب میں ہم دیانت کا مظاہرہ کرنے اور اہلیت کو معیار قرار دینے کے بجائے ان کے قد کو مختلف گھروندوں سے وابستگی اور کفش برداری کی ان کی اہلیت کے پیمانے سے ہی ناپتے ہیں۔ مسلم پرنسل لا بورڈ کے صدر و سکریٹری کا انتخاب ہو یا مسلم مجلس مشاورت کا، ہر جگہ یہی اصول کارفرما رہے ہیں۔ بہرحال مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کا ایک ایسا ادارہ ہے جسے ملک کے ممتاز قانون داں، دانشور و صحافیوں کے علاوہ ملک کی مختلف مسلم جماعتوں اور تنظیموں کا تعاون حاصل ہے لہٰذا بورڈ ملت کی تمام ہی سیاسی، سماجی اور دینی تنظیموں کی نمائندگی کرنے والا ادارہ ہے لیکن یہی اس کی کمزوری اور بے عملی کا بنیادی سبب بھی ہے کیوں کہ ان اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داروں کے پاس نہ تو اتنا وقت ہے کہ پرسنل لا کے فیصلوں پر پوری توجہ دے سکیں اور نہ ہی ان کی دوسری ذمہ داریاں اور ان کے تقاضے انہیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ دیانت کے ساتھ اپنی پوری پوری صلاحیت مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو روبہ عمل لانے پر صرف کرسکیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بورڈ کے ذمہ داران اپنے اراکین کے انتخاب میں ایسے لوگوں او رایسی جماعتوں و تنظیموں کے ذمہ داروں کو دور رکھیں جو کسی خاص مسلک یا خاص گروہ سے تعلق رکھتے ہوں اور جو خاص مصلحتوں کے پابند ہوں۔ ایسے لوگوں کو منتخب کیا جائے جن کے دل دین و ملت کے لیے دھڑکتے ہوں اور جو دین و ملت کے وسیع تر مفادات کے امین ہوں۔ حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوں اور وقت کے تیور کا رخ موڑ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ اس وقت مسلم پرسنل لا پر چہار طرفہ حملے ہو رہے ہیں، ان سے نمٹنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اپنا دائرہ کار وسیع کرنے کے بجائے صرف پرسنل لا پر ہی اپنی پوری توجہ دے۔ بیک وقت کئی کشتیوں پر سواری کا نتیجہ بھیانک ہی نکلتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ ملت اب بھی اتنی بانجھ نہیں ہوئی ہے کہ کام کے لوگ نہ مل سکیں۔ مسلمانوں میں ایثار پیشہ اور ملت کے لیے کسی بھی محرومی کو گوارہ کرلینے یا بہ رضا و رغبت مصائب کے کھولتے سمندر میں اترجانے کا حوصلہ رکھنے والوں کی نہ پہلے کوئی کمی تھی نہ اب ہے۔ کمی ان لوگوں میں ہے جن کے دل تنگ اور نظر محدود ہے۔ وہ ایک خاص دائرے سے باہر د یکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو تنقید اور تنقیص کے فرق کو نہ تو سمجھتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں، جن کے کان تعریف اور صرف تعریف سننا چاہتے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو ان لوگوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے تاکہ اس کا حشر بھی کہیں ان دوسری تنظیموں جیسا نہ ہو جو آج ملت کی پیشانی کا بدنما داغ بن چکی ہیں۔ (ملت ٹائمز)
یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں)
jalaluddinaslam2013@gmail.com