ڈاکٹر سید ا حمد قادری
سعادت حسن منٹو 11 ؍ مئی 1912 ء کو لدھیانہ کے قصبہ سمر ا لہ میں پیدا ہوئے لیکن زندگی کی ناہمواریوں نے انھیں18جنوری 1955 ء تک ہی مہلت دی یعنی صرف 43 سال کی عمر پائی،اور اس مختصرسی زندگی میں منٹو نے جو شہرت پائی ، وہ بہت کم فنکاروں کے حصہ میں آئی ہے۔ منٹو نے جتنے افساسنے لکھے ، ان سے کہیں زیادہ ان کے افسانوں پر لکھا گیا ، ایسا شائد اس لئے ہوا کہ منٹو کے بیشتر افسانے منٹو کی زندگی ہی کی طرح ہمیشہ متنازعہ رہے اور چونکہ ان کے جینے کا اور شراب کی حصولیابی کا واحد سہارا یہی افسانے تھے اور رسائل کے مدیران بھی منٹو سے ایسے ہی متنازعہ افسانوں کی خواہش رکھتے اور فرمائش کرتے۔ لیکن چونکہ منٹو بنیادی طور پر ایک ذہین فنکار تھا ، اس لئے ان کا بیشتر افسانہ لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی بے پناہ معنویت کی بنأ پر نقش ہو گیا ۔ ان ہی وجوہات کی بنأ پرسعادت حسن منٹوکا شمار دورِ جدید کے بڑے لیکن بسیار نویس افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے مشاہدے کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی آنکھیں ، کبوتر کی آنکھوں کی طرح مردہ بیل کے کھُر میں پڑے سرسوں کے دانہ کو بھی دیکھنے سے نہیں چوکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں افسانوں کے موضوعات کی کمی نہیں اور ساتھ ہی ساتھ طبیعت بھی ایسی اچھوتی پائی تھی کہ اپنی ہر بات کو اچھوتے ، لیکن منفرد انداز و بیان اور حسین و دلچسپ پیر ا یہ میں پیش کرتے اور اگر کبھی ضرورت سمجھی تو مزاحیہ طنز کا بھی سہارا لیا ۔
منٹو نے43سال کی عمر میں ڈھائی سو سے زائد افسانے لکھے ، جن میں بیشتر افسانے ان کے کمال فن کا نمونہ اور شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔
افسانہ کہنے کے جس خوبصورت اسلوب اور حیرت انگیزانداز سے منٹو واقف تھے ، اس ہنر سے منٹو کے کئی ہم عصر اور حریف افسانہ نگار محروم نظر آتے ہیں اور جہاں تک عام قاری کا سوال ہے ، تو وہ منٹو کو ان کے جنسی اور بعض ناقدین ادب کے مطابق فحش افسانوں مثلاً ’’بو‘‘ ’’دھواں‘‘ ’’کالی شلوار‘‘ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ وغیرہ کی وجہ سے جانتے ہیں ، اور کسی حد تک حقیقت بھی یہی ہے کہ منٹو ان ہی افسانوں کی بنا پر مشہور اور معتوب ہوئے ۔لیکن منٹو اپنی شہرت پر کبھی اِترائے اور نہ ہی معتوب ہونے پر گھبرائے، بلکہ دونوں ہی حالات میں نارمل رہتے ہوئے اپنے افسانوں میں اس مخصوص ماحول کو زندہ رکھا ، جس سے وہ خاص طور پرمتاثر ہوئے تھے۔ پیشہ ور داشتائیں، طوائفیں اور ان کے گرد ان کے دلال اور چاہنے والے ، سب کے سب منٹو کے افسانوں میں متحرک نظر آتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں شاید ہی کوئی کردار ایسا ہو ،جس میں زندگی کی جھلک موجود نہ ہو۔ اس ماحول کے دو افسانے ’’ہتک‘‘ اور ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ تو لاجواب ہیں۔
منٹو اگر بڑا افسانہ نگار نہیں ہوتا ، تو وہ جو کچھ بھی ہوتا ، بڑا ہی ہوتا، اس لئے کہ منٹو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک تھا اور اس نے ادب کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں اپنی عدیم المثال تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر دِکھائے۔
لیکن اس میدان میں ،بلکہ یوں کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اردو کے فنکاروں کو جینے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ معیاری افسانہ نگاری سے شہرت اور مقبولیت تو مل سکتی ہے ،لیکن معاشی آسودگی نہیں، منٹو ہمیشہ اقتصادی بدحالی کے شکا ررہے۔ والد کی سخت گیری لیکن نہایت رحم دل ماں کے پیار نے ایک انوکھے جذبہ سے آشنا کرایا ، منٹو اپنی خود نوشت میں اس امر کا اعتراف یوں کرتے ہیں :
’’ منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا نتیجہ ہے ۔ اس کے والد خدا بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ نہایت رحم دل ، ان دو پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانہ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہوگا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔‘‘
منٹو کو اس امر کا ہمیشہ شدت سے احساس رہا کہ اس کی غربت کی وجہ اس کا تعلیم یافتہ نہ ہونا ہے ، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے انہیں تپ دق کے عارضہ کی بنا پر نکال دیا گیا تھا ،اور وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپائے ۔ منٹو خود اعتراف کرتے ہیں کہ اگر میں جاہل نہ ہوتا تو اتنا غریب نہ ہوتا۔ اپنی غربت سے تنگ آکر انہوں نے کئی بار خود کشی کرنے کی کوشش کی، لیکن نیک دل اور سادہ لوح تنہا ماں کا خیال آتے ہی وہ اس سے باز آجاتے۔
منٹو کی اس حالت کا علم نذیر احمد کو ہوا ، تو انہوں نے چالیس روپے ماہانہ تنخواہ پر ’’مصّور ‘‘کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی ، جسے منٹو نے فوراً قبول کرلیا ، لیکن بمبئی جیسے بڑے شہر میں قیام کا کوئی انتظام نہیں تھا ، اس لئے وہ ’’مصوّر‘‘ کے دفتر میں ہی سونے لگے ، جس کا کرایہ دو روپیہ تنخواہ سے کٹتا ۔ بعد میں منٹو امپریل فلم کمپنی میں بحیثیت منشی یعنی مکالمہ نگار ملازم ہوئے اور اس کمپنی کے لئے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی ،جو بُری طرح ناکام ہوئی ۔ اس کے بعد منٹو ’’فلم سٹی‘‘ میں سو روپے ماہانہ پر ملازم ہوئے اور اسی دوران انہوں نے ’’مصوّر‘‘ کے دفتر کی رہائش چھوڑ کر پاس ہی ایک نہایت غلیظ چالی (بلڈنگ) میں ایک کھولی(کمرہ) نو روپے ماہوار پر لے لیا_ بقول منٹو_ ’’اس میں اس قدر کھٹمل تھے کہ چھت سے بارش کے قطروں کی طرح گرتے تھے ۔‘‘ اور آس پاس کی گندگی کا تو پوچھنا ہی نہیں ۔ ایک دن اس کھولی میں ان کی ماں آپہنچی ،اور بیٹے کو اس حالت میں دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ جو بیٹا اتنے ناز و نعم میں پلا تھا ، وہ ایسی غلیظ جگہ رہتا ہے۔ تن پر کپڑے نہیں ، بدن پر گوشت نہیں ، ہوٹل میں سوکھی روٹی کھاتا ہے اور رات گئے مٹی کے تیل جلا کر کام کیا کرتا ہے۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں ایک بے حد ذہین فنکار کا جینا محال ہوجاتا ہے ، وہ خود کشی کرتا ہے ، یا پاگل ہوجاتا ہے ،یا پھر کہیں وہ ایسی جگہ جاتا ہے ،جہاں وہ اپنے دکھوں کو ، غموں کو بھول جائے ، اور منٹو کو جو جگہ ملی ،وہ تھی میخانہ_ جہاں پہنچ کروہ اپنی مصیبتوں ، پریشانیوں کو وقتی طور پر ہی سہی بھول جاتا_ _ نفسیاتی کشمکش کا سلسلہ منٹو کے یہاں یہیں سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کے اندر فکر و احساس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ، جو اس کی حقیقی زندگی کی چٹانوں سے بار بار ٹکرا رہا تھا ، جس کے نتیجے میں منٹو کی پوری زندگی اتھل پتھل میں گزری۔ اور اسی اتھل پتھل زندگی کے حالات ، حادثات اور واقعات نے منٹو سے کئی ایسے افسانے لکھوائے ،جو عریاں فحش، جنس زدہ اور غیر اخلاقی کہلائے۔ ان پر مقدمے چلے ، منٹو کو ان افسانوں کی تخلیق کرنے پر جیل بھی جانا پڑا اور جرمانے بھی ادا کرنے پڑے ۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ ان ہی افسانوں کی وجہ سے منٹو کو شہرت ملی ۔ منٹو کے افسانوں کا عام قاری ہو یا خاص ، جب کبھی ان سے منٹو کے افسانوں پر بات کیجئے تو بس دھواں، کالی شلوار، کھول دو، بو، ٹھنڈا گوشت،کا ہی ذکر ہوگا۔ آج کتنے لوگ ہیں ، جنہیں منٹو کے دوسرے افسانے مثلاً ممی، موذیل ، سہائے، شاردا، شاہ دولے کا چوہا ، سرمہ ، ممد بھائی وغیرہ یا د ہیں۔
لیکن منٹو کو اپنے ان افسانوں کی تخلیق پر قطعی پشیمانی نہیں ہوئی ، جن کی بنا پر منٹو کو فحش نگا ر ، سیاہ قلم ، بیہودہ ، ننگ ادب کہا گیا۔منٹو ان الزامات کا جواب بڑے سلجھے ہوئے ، دانشورانہ انداز میں یوں دیتا ہے ۔
’’ ….. زمانے کی کروٹوں کے ساتھ ادب بھی کروٹیں بدلتا رہتا ہے ۔ آج اس نے جو کروٹ بدلی ہے ، اس کے خلاف اخباروں میں مضمون لکھنا یا جلسوں میں زہر اگلنا بالکل بے کار ہے ۔ وہ لوگ جو ادب جدید کا ، ترقی پسند ادب کا ، فحش ادب کا ، یا جو کچھ بھی یہ ہے ، خاتمہ کردینا چاہتے ہیں تو صحیح راستہ یہ ہے کہ ان حالات کا خاتمہ کردیا جائے ،جو اس ادب کے محرّک ہیں_ ‘‘ (’’ادب جدید‘‘ دستاویز صفحہ ۵۲)
’’ _ زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزررہے ہیں ، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں ،تو میرے افسانے پڑھئے ۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں،وہ اس عہد کی برائیاں ہیں ۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ، جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔‘‘ (ایضاً صفحہ ۵۳)
منٹو کا یہ اعتراف یقینی طور پر اہمیت کا حامل ہے ۔ منٹو نے گرچہ یہ اعتراف اپنی دفاع میں کیا ہے ، لیکن اس اعتراف میں سچائی ہے ۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں وہی پیش کیا ہے ، جو اس کے ارد گرد کے حالات تھے اور وقت کے تقاضے تھے، اس عہد کی برائیاں تھیں ۔ بقول منٹو _
’’ افسانہ نگار اس وقت اپنا قلم اٹھاتا ہے ،جب اس کے جذبات کو صدمہ پہنچتا ہے ۔‘‘
اور اس صدمہ کا منفرد اظہار منٹو کے افسانوں کو آفاقیت بخشتا ہے۔افسانہ ’’کھول دو‘‘ میں پوری انسانیت کا درد سمٹ آیا ہے ۔ سکینہ اور اس کے والد کا حال پڑھ کر ، ایسا کون سا دل ہوگا ،جو کراہ نہیں اٹھے گا ، تڑپ نہیں اٹھے گا، حیوانیت اور سفّاکی سے بھرے اس پورے ماجرے سے شہوانیت نہیں ،بلکہ انسانیت جاگ جاتی ہے۔ یہ ایک اقتباس دیکھئے……
’’اس نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تِل دیکھا _ اورچلّایا ’’سکینہ‘‘
ڈاکٹر نے ، جس نے کمرے میں روشنی کی تھی ، اس سے پوچھا ’’کیا ہے ؟‘‘
اس کے حلق سے صرف اتنا نکل سکا ’’ جی میں اس کا باپ ہوں….‘‘
ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا ، پھر لاش کی نبض ٹٹولی اور اس سے کہا’’کھڑکی کھول دو‘‘
مردہ جسم میں جنبش ہوئی_
بے جان ہاتھوں نے ازاربند کھولا_
اور شلوار نیچے سرکادی_
بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلّایا…’’ زندہ ہے میری بیٹی زندہ ہے…..‘‘
ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو چکا تھا۔‘‘
(افسانہ ’’ کھول دو‘‘)
اس افسانہ کے آخری جملے میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوگیا، دراصل یہاں پر صرف ڈاکٹر ہی نہیں ، بلکہ پور ی انسانیت شرمسار ہوئی ہے ۔ اب ایسے حالات میں بھی سکینہ کے شلوار نیچے سرکانے پر کچھ لوگوں کو ہیجان، شہوت اور جنسی حرارت پیدا ہوتی ہے ، تو بقول منٹو…..
’’ایک مریض جسم ، ایک بیمار ذہن ہی ایک ایسا غلط اثر لے سکتا ہے،جو لوگ روحانی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں ، اصل میں انہی کے لئے شاعر شعر کہتا ہے ، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ منٹو نے اپنے گرد و پیش رونم�أہونے والے حادثات ، واقعات اور سانحات سے شعوری اور لا شعوری طور پر متاثر ہوکر اپنے مشاہدے اور فکرو فن کی گہرائی و گیرائی اور نفسیاتی کیفیات سے اس طرح افسانے کی ساخت تیار کی ، جو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ منٹو کے افسانوں کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس کے ہر افسانے کے موضوع ، مواد ،کردار ، واقعات، احساسات اور جذبات میں انفرادیت کا پرتو جھلکتا ہے۔ منٹو کے ایسے افسانوں میں اس کا اسلوب ، پلاٹ ،کردار اورٹریٹمنٹ کا جو فنکارانہ برتاؤ نظر آتا ہے ،وہ ان افسانوں کو نہ صرف اہم اور منفرد بناتا ہے بلکہ ان موضوعات پر لکھے گئے کئی عالمی شہرت یافتہ افسانوں کی یاد دلاتا ہے۔
منٹو نے صر ف جنسی نفسیات پر مبنی افسانے نہیں لکھے ، بلکہ غربت ، افلاس، استحصال، مزدور ، اس کی پیشانی کا پسینہ ، غریبی اور امیری کے درمیان کی خلیج ، سیاسی بازیگری ، سماجی ، معاشرتی بکھراؤ ، ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر بھی اپنی بہترین فنّی اور فکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔
منٹو نے اس ضمن میں بڑی اچھی بات کہی ہے کہ …….
’’ ہر ادب پارہ ایک خاص فضا ، ایک خاص اثر ، ایک خاص مقصد کے لئے پیدا ہوتا ہے ۔اگر اس میں یہ خاص فضا ، یہ خاص اثر ، یہ خاص مقصد محسوس نہ کیا جائے تو بس ایک بے جان لاش رہ جائے گی۔‘‘
منٹوسے بعض اوقات فکری اورفنی سطح پر لغزشیں بھی سرزد ہوئی ہیں ،لیکن منٹو کی معاشی بدحالی ، اس کی ذاتی ضرورتیں ، شراب اور قرض نے ، مدیروں کے مطالبے پر کئی افسانے لکھوائے جس میں منٹو کی خصوصیت نہیں جھلکتی اور انہیں پڑھ کر بے معنی اور بے مقصد ہونے کا شدید احساس ہوتا ہے۔
منٹو کی ان مجبوریوں کے پیش نظر اگر ایسے افسانوں کو جن پر فحاشی کا الزام لگا ، نظر انداز کردیا جائے تو ان افسانوں کے علاوہ سو کنڈل پاور کا بلب ، جانکی، ڈرپوک، رام کھلاون، خالی بوتلیں خالی ڈبّے ، سڑک کے کنارے ، نیا قانون ، ممد بھائی، ممی، نیلم ، پیرن ، پری ، نطفہ، صاحب کرامات، ساڑھے تین آنے، خورشٹ موتری، شادی، وہ لڑکی اور محمودہ وغیرہ یقیناًایسے افسانے ہیں ، جو افسانوی ادب میں گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔(ملت ٹائمز)
squadri806@gmail.com