ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ اردو کیسے سیکھی؟ اردو کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟ اردو میں کیوں شاعری کرتی ہیں اور کیسے؟ شعر کہنا کب شروع کیا؟ وغیرہ وغیرہ
یہ سوالات لوگ مسلسل مجھ سے پوچھتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ ان سوالات کے جواب تحریری طور پر قلم بند کروں۔
میں عربی النسل ہوں، مصر سے ہوں۔ ولادت کے اعتبار سے اور تعلیم و تربیت کے اعتبار سے مصری ہوں۔ میری مادری زبان عربی ہے اردو میری اکتسابی زبان ہے۔ اپنی تعلیم کے آغاز میں، میں اپنے والد گرامی کی خواہش پوری کرنے کے لیے میڈیکل فیکلٹی میں داخلے کی خواہش مند تھی۔ لیکن میں اس وقت میڈیکل میں داخلے کے لیے مطلوبہ نمبر حاصل نہ کر سکی۔ پھر میں نے عین شمس یونیورسٹی، فیکلٹی آف آرٹس میں شعبۂ اردو میں داخلہ لیا۔ میں نے اردو زبان پڑھنا شروع کی۔ اگرچہ اس زبان کے سلسلے میں میرا کوئی پس منظر نہیں تھا اور نہ ہی میں نے قبل ازیں اس کے بارے میں سنا تھا، کیوں کہ ہمارے ہاں اخبارات، ریڈیو یا ٹیلی ویژن جیسے میڈیا وغیرہ میں اس کا وجود نہیں تھا۔ اس کے برعکس ہندی زبان کی اگر بات کروں تو میں بچپن ہی سے ٹی وی پر ہندی فلمیں دیکھتی تھی۔ ہندی گانے سن کر لطف اندوز ہوتی تھی۔
طالب علمی کے زمانے میں ہی مجھے پتا چلا کہ ہندی اور اردو ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ قواعد کی سطح پر ان دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ فرق صرف مفردات اور رسم خط میں ہے۔ اردو پڑھنے کے دوران جب لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا پڑھتی ہیں؟ اور یہ اردو کیا ہے؟ تو جواب دیتے ہوئے میں کچھ جھجک محسوس کرتی تھی، کیوں کہ اردو کا نام عام مصری لوگ تو نہیں جانتے، میں بھی انہی میں شامل تھی۔ اردو اپنے نام کی وجہ سے مصر میں زیادہ مانوس نہیں تھی۔ بہت کم افراد اسے جانتے تھے۔ دوسری زبانوں کی طرح یہ کسی قوم یا کسی خطے یا خطۂ ارض کی طرف منسوب نہیں ہے، لیکن یہاں کے لوگ ہندوستان کی طرف نسبت کی وجہ سے ہندی زبان کو جانتے ہیں۔
بہرحال چار سال میں نے اردو زبان کی تعلیم حاصل کی اور جب نتیجہ سامنے آیا تو مجھے پہلی پوزیشن حاصل ہوئی۔ شعبۂ اردو میں 2004 میں میری تقرری ہوئی۔ اور میں نے اردو زبان و ادب کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ میں نے اردو زبان و ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 2009 میں ایم اے میں ایک مقالہ بعنوان (سرسید احمد خان کے اخلاقی و اصلاحی مضامین: ایک تنقیدی مطالعہ) اور پی ایچ ڈی 2013 میں ایک مقالہ بعنوان (فہمیدہ ریاض کی شاعری) مکمل کیا۔ پھر ڈاکٹریٹ کے بعد شعبۂ اردو میں بحیثیت لیکچرر درس و تدریس کے کام میں مصروف ہوگئی۔ 2015 اور 2019 کے درمیان میں نے اردو ادب کے حوالے سے چھے مقالے تحریر کیے، جن کے موضوعات یہ ہیں: منیر نیازی کی شاعری میں بیگانگی، دلاور فِگار کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری، اردو اور عربی میں حسینی شاعری، علامہ اقبال کی شاعری میں فطرت نگاری، اردو شاعری میں قومیت اور وطنیت کے تصورات اور غضنفر کے ناول (مانجھی) میں عصر حاضر کے مسائل۔ الحمدللّٰہ میری ترقی ہوئی۔ اب ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوں اور مسلسل درس و تدریس کی خدمات سر انجام دے رہی ہوں۔
اردو میں شاعری کرنے کے بارے میں کہہ سکتی ہوں کہ شاعری یا دوسری تخلیقی اصناف میں طبع آزمائی ایک خداوندی عطیہ ہے۔ بچپن ہی سے فطری تخلیقی صلاحیت کی مالک تھی۔ مجھے عربی شاعری پڑھنے اور کرنے کا شوق بچپن سے ہے، لیکن حصول تعلیم اور دیگر مصروفیت کی وجہ سے میں نے لکھنا کچھ عرصے کے لیے معطل کردیا تھا اور صرف تعلیم پر دھیان دیا۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ اردو نظم لکھنے کا آغاز انڈیا کے پہلے سفر کے بعد ہوا۔ میں دو سال پہلے فروری ۲۰۱۹ء میں ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ایک ہفتے کے سفر پر انڈیا گئی۔ جے این یو دہلی کے پروفیسر خواجہ اکرام الدین کی طرف سے مجھے اور تین اور مصری اساتذہ کو انڈیا کے سفر کی دعوت ملی۔ کانفرنس کا پہلا حصہ دہلی اور دوسرا حصہ کلکتہ میں تھا۔ اس سفر کے دوران اردو زبان کے بہت سے اساتذہ سے میری ملاقات ہوئی۔ اسی طرح وہاں کچھ لوگ ایسے ملے جن کے احسانات سے میں گراں بار ہوں۔ وہاں مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ میں مصر کے باہر ہوں۔ میں ان لوگوں کی محبتوں کی مقروض ہوں۔ انہوں نے میرے لیے تمام سہولیات مہیا کیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھی، ان کے گھر گئی، اور ان کے اہلِ خانہ سے ملی۔ سچ پوچھئے تو میں نے انڈیا کے سفر سے بہت استفادہ کیا۔
پوری دنیا میں ہمیں جادو کی کہانیاں ملتی ہیں۔ فروری ۲۰۱۹ء میں جب میں کلکتہ گئی تو وہاں مجھ پر ایک جادو چھایا ہوا تھا۔ کلکتہ واپس آنے کے بعد یہ جادو میرے ساتھ رہا۔ میں نے ایک احساس اور ایک خیال کے ساتھ شروع کیا اور اپنی پہلی نظم لکھی بعنوان ”جادو۔“ ابتدا میں اپنی نظمیں فیس بک کی اپنی پروفائل پر لگائیں، جس سے بعض اردو والوں سے خوب داد حاصل کی۔ اس وقت تک مجھے خود نہیں معلوم تھا کہ میں اردو میں شاعری کر سکتی ہوں۔ میرے لیے یہ بہت مختلف اور حیرت انگیز تجربہ تھا۔ یہ تقریباً ناممکن لگتا ہے کہ میں اردو میں لکھنے کے قابل ہوں۔ یہ تجربہ ایک چیلنج تھا اور میں نے بہت کچھ سیکھا۔ دباؤ اور ذہنی الجھن کے باوجود میں لکھتی رہی۔ یہاں مصر میں مجھے اردو جاننے والوں سے کم حوصلہ افزائی ملتی تھی۔ اور اب تک لوگ سوالات کرتے ہیں کہ وہ اردو میں کیسے لکھتی ہے؟ اردو اس کی مادری زبان نہیں ہے! اسے اپنی ذاتی ذمے داریوں کے ساتھ کب وقت ملتا ہے؟ اکثر و بیشتر لوگ حیران ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنا چھوڑنے کے لیے یا کنٹرول کرنے کے لیے میرے ارد گرد لوگوں کے رویے بہت سخت تھے۔ ان تمام باتوں سے خود کو اداس اور لاچار محسوس کرتی تھی، لیکن لکھنے کے تئیں فکر مند رہتی تھی۔ یہاں تک کہ رات کو نیند بھی نہیں آتی تھی، جب تک اپنے قلم سے کوئی شعر لکھ نہیں لیتی تھی۔ میں لکھنا چھوڑنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں تھی اور اس کے لیے میں نے بہت کچھ برداشت کیا۔
الحمدللّٰہ میری محنت اللہ دیکھ رہا تھا، اس لیے میرے ساتھ رہا اور اس کا ایسا کرم ہوا کہ اس نے مجھے دو دوستوں سے نوازا، جن کا خلوص اور محبت میرے لیے مشعل راہ تھی۔ ہمیشہ ان کا کہنا تھا کہ آپ میں صلاحیت موجود ہے اور خدا نے آپ کو یہ صلاحیت بخشی ہے، اپنی صلاحیت پر ایمان و یقین رکھیں، لکھیں اور اعتماد رکھیں۔ لوگوں کی زیادہ پرواہ نہ کریں۔ اس قسم کی باتوں سے مجھے حوصلہ ملتا تھا۔ ان دوستوں کے توسط سے میری نظمیں اور مضامین اردو کے بعض رسالوں اور اخبارات میں شائع ہو رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میری پہلی نظم کے بعد افسانہ نگار، کالم نگار اور شاعر جناب فہیم اختر (لندن) مجھے صحیح مشورہ دیتے تھے کہ ہر ہفتے میں مجھے ایک نظم لکھنی ہے۔ اسی طرح ادیب اور رسالہ اردو آنگن کے مدیر جناب امتیاز گورکھپوری (ممبئی) نے میری نظمیں لائق اشاعت سمجھیں، جن کے عملی تعاون سے میری نظموں کا پہلا مجموعہ ” سمندر ہے درمیاں “ منظرعام پر آ گیا ہے۔
تقریباً ایک سال قبل ایک بار پھر انڈیا کے سفر کا موقع حاصل ہوا۔ ساتھ ہی بنگلا دیش بھی گئی۔ یہ سفر بھی صرف ایک ہفتے کے لیے تھا۔ ڈھاکا میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے گئی تھی۔ اس کے بعد کلکتہ گئی، جناب فہیم اختر صاحب کی جانب سے مجھے دعوت ملی۔ ایک استقبالیہ میرے لیے وہاں تھا۔ پھر کلکتہ سے ممبئی گئی۔ ایک عالمی فیسٹیول میں شرکت کرنے کے لیے جناب امتیاز گورکھپوری کی طرف سے دعوت ملی۔ اور میری خوش نصیبی ہے کہ ممبئی میں میری کتاب ” سمندر ہے درمیاں “ کا اجرا اردو آنگن ممبئی کے زیرِ اہتمام ہوا۔ وہاں مجھے بڑے شاعر ظفر گورکھپوری ایوارڈ برائے حوصلہ افزائی ملا۔ یہ ایوارڈ میرے لیے نہایت اعزاز اور خوشی کا باعث ہے۔ اس سفر سے واپسی کے بعد میں نے اردو میں غزل کہنا اور افسانہ لکھنا شروع کیا۔ اب تک ان کاموں میں مصروف ہوں۔۔ لکھنا پڑھنا، ترجمہ، تحقیق اور تدریس۔ میری پانچ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور چھٹی کتاب زیرِ اشاعت ہے۔
میں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ میں ذاتی طور پرجو سوچتی ہوں، وہی لکھتی ہوں۔ میں جو محسوس کرتی ہوں اسے قلم بند کردیتی ہوں اور فن شاعری کو قوموں اور ملکوں کے درمیان محبت اور دوستی کا وسیلہ سمجھتی ہوں، جو تہذیبوں کے درمیان باہمی قرب کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے۔ شاعری ایسی آواز ہے جو آرام اور تسکین کی تلاش کرتی ہے۔ میرے نزدیک ہر انسان کوئی خواب دیکھتا ہے۔ میرا خواب ہے کہ ہم سب امن و امان اور محبت سے زندگی بسر کریں، جہاں ہمیں کوئی خوف و خطرہ نہ ہو۔ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے، اس طرح میری تحریریں حیرت ، سوالات اور اعتراضات سے بھری ہوئی ہیں۔ کوشش رہی کہ اپنے مضامین میں اپنے ملک کی ثقافت اردو زبان میں تشہیر کروں تاکہ اس کو برصغیر کے لوگوں تک پہنچایا جائے اور ان کو ایک نیا کلچر، ایک نئی دنیا دکھائی جائے۔ میں تہذیب و ثقافت کی خوب صورتی کی وجہ سے برصغیر سے عشق کرتی ہوں۔ مجھے اردو زبان سے بہت لگاؤ ہے اور یقین کریں کہ اردو سے مجھے عشق ہے۔ اردو کے تہذیبی ورثے کی قائل ہوں۔ بے شک اردو زبان ثقافتی اعتبار سے یا تاریخی اعتبار سے بہت عظیم زبان ہے۔ جب میری ملاقات اردو والوں سے ہوتی ہے تو میں صرف اردو بولتی ہوں۔ ان سے بھی اردو سننا بہت ہی اچھا لگتا ہے۔ میں اپنا مضمون ختم کرتی ہوں اپنی ایک شعر سے:
میں نیل کے کنارے ہوں، لیکن نگاہ میں
جہلم ہے ، گنگا جمنا ہے ، راوی چناب ہے
(مضمون نگار قاہرہ عین شمس یونیورسٹی میں اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)