ہر دور میں بہار سے ایسی نابغہ ہائے روزگار شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں جنہوں نے ایک عالم کو اپنے افکار اور علمی و عملی کارناموں سے متاثر کیا:پروفیسر اختر الواسع

وسعت نظر، وسعت مطالعہ، رسوخ فی العلم اور ذکاوت میں مولانا مناظر احسن گیلانی کی نظیر ممالک اسلامیہ میں ملنی مشکل 

پروفیسر اختر الواسع معروف اسلامی اسکالر اور عظیم دانشور ہیں ۔انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام سلطان القلم مولانا مناظر احسن گیلانی پر پٹنہ میںیکم 2دسمبر کو منعقد ہونے والے دوروزہ قومی سمینار کے وہ مہمان خصوصی تھے جس میں انہوں نے تاریخی اور معلومات افزا کلیدی خطبہ پیش کیا ۔حاضرین نے سے اسے بے پناہ سراہا ۔ملت ٹائمزمیں ان کامکمل خطاب شائع کیا جارہاہے۔

(ادارہ)

 

کلیدی خطبہ

یوں تو اس روئے زمین پر ہر دن نہ جانے کتنی شخصیات پیدا ہوتی ہیں اور کتنے افراد اپنی عارضی زندگی کے لمحات پوری کر کے راہی¿ ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ لیکن انسانوں کی اس بھیڑ میں کچھ ایسے بھی افراد ہوتے ہیں جو اپنی گوں نا گوں خصوصیات اور عظیم الشان خدمات کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں پر مرتسم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مولانا مناظر احسن گیلانی ایسی ہی شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی خدمات اور کارناموں کے ذکر جمیل سے ہم خود کو اور آنے والی نسلوں کو آشنا کرنے کے لئے اس سیمینار کا انعقاد کر رہے ہیں۔ اس کے لئے میں صمیم قلب سے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی اور اس کے بالغ نظر ودور اندیش بانی وصدر محترم ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور دعا کرتا ہوں کہ باری تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو مکمل شفاءوصحت نصیب فرمائے اور ملت اسلامیہ کے لئے ان کے قیمتی وجود میں بے پایاں برکت عطا فرمائے۔
IOS کا یہ ایک امتیاز رہا ہے کہ اس نے مسلم تاریخ پر عظیم کرداروں کو اپنے یہاں بحث وتحقیق کا موضوع بنایا ہے، اور اہل علم وتحقیق کی بزم سجا کر فکر ونظر کی ان خدمات کو آنے والی نسلوں کے ہاتھوں تک پہنچایا ہے۔ IOS کا گذشتہ 30 سالہ سفر اس حقیقت کی روشن کتاب ہے کہ امت مسلمہ کو عام طور پر اور مسلمانان ہند کو خاص طور پر مہمیز اور بےدار کرنے والے موضوعات پر IOS نے ایسی شاندار تحقیقات کا سرمایہ فراہم کر دیا ہے اور ایسے اچھوتے اور اہم موضوعات پر تحقیقات اور کتابیں تصنیف کرائی ہیں اور ایسے ایسے اہم موضوعات پر سیمینار، سمپوزیم، ورک شاپ اور لکچرس کرائے ہیں کہ وہ طویل مدت تک قافلہ علم وتحقیق کو روشنی فراہم کرتے رہے گے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا مولانا مناظر احسن گیلانی کی شخصیت اور ان کی خدمات پر منعقد کیا جانے والا یہ سیمینار اسی سلسلہ زریں کی ایک خوبصورت کڑی ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے بہار کی سرزمین میں اپنی آنکھیں کھولیں اور پھر اسی خاک بہار کا حصہ بن گئے، لیکن عمر حیات کے اس درمیانی عرصہ میں آپ کے فیوض علمی اور سوز دروں سے وطن عزیز کے کئی حصے مستفید ہوتے رہے۔
جہاں تک بہار کا تعلق ہے تو یہ وہ خطہ ہے جو مطلعِ ہند پر ہمیشہ چمکتا اور اپنی روشنی بکھیرتا رہا ہے۔ یہاں سے ہر دور میں ایسی نابغہ ہائے روزگار شخصیات پیدا ہوتی رہیں، جنہوں نے ایک عالم کو اپنے افکار اور علمی و عملی کارناموں سے متاثر کیا۔مسلم دور حکومت میں جو شخصیات یہاں سے اٹھیں اور جنہوں نے اپنی فکر و شخصیت کے دور رس اثرات ہندستان اور ہندستان سے باہر کی فضا پر قائم کیے، اس کی طویل فہرست ہے، جس کو دُہرانا یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا، لیکن دو ایک شخصیات کا ذکر اشارتاً ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک شخصیت ”مسلم الثبوت“ اور ”مسلم العلوم“ جیسی کتابوں کے مصنف ملّا محب اللہ بہاری کی ہے۔ منطق اور اصولِ فقہ کے حوالے سے ان دونوں کتابوں کے ذکر کے بغیر ان علوم کا ذکر ادھورا ہے۔ شیخ شرف الدین یحیٰ منیری جیسی شخصیت کو اسی خاک سے نسبت ہے اور حالیہ تاریخ میں مولانا محمدعلی مونگیری، بانی ندوة العلماءاور سید سلیمان ندوی جیسی عظیم و عبقری شخصیات اسی مردم خیز خطے کی دین ہیں۔
ان ہی شخصیات میںمولانا سیدمناظر احسن گیلانی کا نام بھی آتا ہے۔ مولانا گیلانی کی شخصیت عجائب روزگار کا مرقّع تھی۔ ایسی شخصیت جس میں نادر و عبقری شخصیات کی اہم اور بنیادی خصوصیات جمع ہوگئی تھیں۔ انہوں نے علم و فکر کے میدان میں تنہا اتنا کام کیا، جس کی توقع پوری ایک جماعت سے بھی کم ہی ہوتی ہے۔ برصغیر ہند میں فکر اسلامی پرہونے والی کوئی بھی گفت و شنید اُن کے ذکر اور حوالے کے بغیر ناقص ہے۔ اُن کے وسیع علمی کارناموں کو دیکھیے تو بے ساختہ زبان پکار اٹھتی ہے
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
علوم و افکار کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جو ان کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ ایک مسحور کن فضا جو قاری کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ پڑھنے والا ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کی کیفیت اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔
مولانا کی شخصیت کے متعدد ایسے امتیازی پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک پہلو ایسا ہے جس پر طویل کلام کیا جاسکتا ہے اور جسے تحریر وتحقیق کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ وہ ایک جامع الصفات شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ وہ بہ یک وقت ایک بڑے مصنف تھے اور ان کی تصنیف و تحقیق کا دائرہ قرآن ، حدیث، فقہ، سیرت، تذکرہ و سوانح، تاریخ، معاشیات، تعلیم، سیاست، تمام موضوعات پر محیط تھا۔ تاہم اس کے ساتھ وہ ایک شیریں بیان خطیب، ایک بلند پایہ ترجمہ نگار، ایک اعلیٰ درجے کے مدرس اور ایک صاحبِ طرز انشاپرداز صحافی بھی تھے۔ حدیث و فقہ میں ان کی کتاب” تدوین حدیث“ اور ”تدوین فقہ“ اس موضوع پر منفرد تصنیفیں ہیں۔ سیرت میں ”النبی الخاتم“ اپنے اچھوتے طرز ِبیان اور البیلے اسلوب کی دجہ سے اردو میں سیرت پر لکھی گئی کتابوں میں اپنی الگ شناخت کی حامل ہے۔ تذکرہ و سوانح کے موضوع پر ”سوانح قاسمی“ اور ”تذکرہ شاہ ولی اللہ“ ہے جو ان کی پہلی تصنیف ہے اور جس کو پڑھ کر مولانا تھانوی نے پیش گوئی کی تھی کہ اس کتاب کا مصنف بڑا عالم بنے گا۔ صحافی کی حیثیت سے ”القاسم“ اور ”الرشیدی“ کی ادارت دیوبند کی صحافتی تاریخ کے دور زریں سے عبارت ہے۔ ترجمہ نگاری میں شاہ اسمٰعیل شہید کی ”عقبات“ اور صدرالدین شیرازی کی ”اسفار اربعہ“ کا ترجمہ مہارت اور سلیس و رواں اسلوب میں آپ نے اردو میںکیا۔ وہ ترجمے کے شاہ کار کا لقب پانے کا مستحق ہے۔
تاہم ان تمام کتابوں میں ان کی کتاب ”ہندستان کا نظام تعلیم و تربیت“ کو خصوصی قدر و منزلت حاصل ہے۔ اردو کے پورے ذخیرہ¿ ادب میں اس کی کوئی نظیر نظر نہیں ملتی۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ کتاب ”مضامین کا ایک ابلتا ہوا سمندر ہے۔ تاریخ کے خدا جانے کتنے نادر واقعات اور نکتے بے ساختہ اور بے تکلف آتے چلے گئے ہیں۔ کتاب، کہنا چاہیے کہ بیش بہا معلومات کا گنجینہ اور علمی نکتہ سنجیوں کا خزانہ ہے“۔
میں اس کتاب کا تذکرہ ان سطور میں بہ طور خاص کرنا چاہوں گا کہ ہندستان میں تعلیم میری فکر و تحریر کا بھی موضوع رہا ہے۔ چنانچہ سرسید کی تعلیمی تحریک اردو کے علاوہ انگریزی اور عربی میں بھی شائع ہو چکی ہے۔
مولاناگیلانی نے اس کتاب میں ہندستان میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت پر مو¿رخانہ اور ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے گفتگو کرتے ہوئے نظام تعلیم کی وحدت کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس کا مقصد ان کی نگاہ میں یہ تھا کہ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں جو ثنویت اور دوئی آگئی ہے اسے ختم کیا جائے تاکہ ان کی اصطلاح میں مسٹر اور ملّا کے نام سے جو دو الگ الگ طبقات بن گئے ہیں، وہ ختم ہوجائیں۔ ہم مولاناگیلانی کی فکر سے اختلاف کرسکتے ہیں اور اس خاکے کو ناقابل عمل قرار دے سکتے ہیںلیکن اس سے اختلاف نہیں کرسکتے کہ وہ کس دانش ورانہ جرا¿ت اور مفکرانہ دیدہ وری سے اس طرح کے موضوعات پر غور و فکر کرنے اور مسائل کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کا جذبہ رکھتے تھے۔
سامعین عظام! مولانا گیلانی، علوم قاسمی کے شارح اور دیوبند کے مکتب فکر کے ترجمان تھے۔ علمائے دیوبند کی اسلامی فکر میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں، مولانا گیلانی کی مختلف موضوعات پر لکھی گئی تمام تحریروں میں اس کے نقوش بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فکر پر سب سے زیادہ گہرا اثر اُن کے استاذ و شیخ ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان ہی کا فیضانِ نظر اور صحبت کی کرامت تھی جس نے اُن کی شخصیت سازی، صلاحیت کی تشکیل اور فکر کی تعمیر میں اساسی رول ادا کیا۔ اس لیے قوم کی فکر میں گُھلنے ، تڑپنے اور اُس کے درد کا مداوا ڈھونڈنے کی وہی فکر اُن کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔
مولانا گیلانی ایک محققانہ اور اجتہادی فکر رکھنے والے عالم دین تھے۔ متعدد ایسے مسائل ہیں جن میں مولانانے اپنی گراں قدر آراءاور افکار پیش کئے ہیں۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم وتربیت پر مولانا کی جس شاہکار کتاب کا ابھی تذکرہ آیا وہ آج بھی اس موضوع کے لئے نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا کی تصنیف ”تدوین حدیث“ کو کون بھول سکتا ہے۔ ےہ کتاب کیا ہے، علم کا خزانہ، معلومات کا انبار، دلائل کی بہتات، نکتہ آفرینیاں اور جدت طرازیاں، جذبے کی فراوانی اور اسلوب کی روانی، اعتراضات کے جوابات اور استدلال کے سوالات، ایسا لگتا ہے کہ بس، قلم چلتا جا رہا ہے اور علم ابلتا جا رہا ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے دلائل وبراہین کے ساتھ یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حدیث نبوی ﷺ اسلام کا ایک مستند ماخذ ہے، اور اس کی حفاظت اور روایت کا جس قدر اہتمام زبانی اور حفظ کے ذریعہ کیا گیا، اس سے کچھ زیادہ ہی اہتمام تحریر اور کتابت کے ذریعہ بھی کیا گیا ہے۔ اور یہ کہ احادیث نبویہ ﷺ کا پورا ذخیرہ خود عہد نبوی میں قید تحریر میں لایا جا چکا تھا، اور اس کی تائید اور استناد کے معتبر ترین طریقے اختیار کر لئے گئے تھے۔ یہ کتاب بڑی مفصل ہے اور اپنے موضوع پر ایک دستاویز ہے۔
تدوین قرآن اور تدوین فقہ پر بھی مولانا گیلانی نے قلم اٹھائے ہیں اور گو مفصل نہیں لیکن ضروری مباحث کا احاطہ کرتے ہوئے نشان راہ فراہم کر دیا ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کے وسیع فکری کینوس کا ایک اہم حصہ ان کے سیاسی افکار ہیں۔ اس کا اظہار مولانا گیلانی کی تصنیف ”امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی“ میں ہوا ہے، چنانچہ آپ کی اس کتاب میں جہاں امام ابو حنیفہ کے دور کے سیاسی احوال اور ان میں امام ابوحنیفہ کا سیاسی موقف بیان ہوا ہے، وہیں خود مولانا گیلانی کے سیاسی رجحانات بھی نکھر کر سامنے آئے ہیں۔
سیرت کے موضوع پر آپ کی انوکھی اور البیلی کتاب ”النبی الخاتم“ تو لاجواب ہے۔ اس کتاب کے لفظ لفظ سے ذات رسالت مآب ﷺ کے ساتھ آپ کے عشق ومحبت کے جذبات امنڈتے اور ابلتے محسوس ہوتے ہیں۔ سچ ہے کہ آپ صحیح معنوں میں عاشق رسول ﷺ تھے، اسی در سے آپ نے لو لگایا تھا، وہیں سے آپ روح کی غذا اور عقل کی روشنی حاصل کرتے تھے۔ النبی الخاتم آپ کے اسی عشق ومحبت رسول ﷺ میں ڈوبے ہوئے جذب دروں اور عقل فزوں کا حسین اظہار ہے۔ اسی جذبہ¿ فراواں کے ساتھ آپ نے حج کا فریضہ ادا کیا اور حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ کا یہ سفر بھی علم اور دل کے باہمی ربط وامتزاج کا عکس تھا۔ آپ کی اس محبت رسول کا ایک خوبصورت اظہار ان اشعار کی شکل میں ہوا ہے جو آپ نے اپنی ایک بیماری کے موقع پر نعت کی شکل میں اپنے گاو¿ں کی سیدھی سادی اور علاقائی زبان میں فرمایا۔ یہ نعت جذبہ عشق ومحبت اور حب نبوی ﷺ میں ایسی ڈوبی ہوئی ہے کہ پڑھنے والا بے اختیار آب دیدہ ہو جاتا ہے۔
پیارے محمد جگ کے سجن

تم پر واروں تن من دھن
تُمری صورتیا من موہن

کبھیو کراہو تم درشن
جیّا کنھڑے، دلوا ترسے

کرپا کے بدرا کہیا برسے
تُمری دوریا کیسے چھوڑوں

تم سے توڑو ںتو کس سے جوڑوں
تُمری گلی کی دھول بٹوروں

تُمرے نگر میں دم بھی توڑوں
جی کا اب ارمان یہی ہے

آٹھوں پہر اب دھیان یہیں ہے

واقعہ یہ ہے کہ مولانا گیلانی ایک اچھے شاعر اور نعت گو بھی تھے، اور آپ کی یہ شاعری در اصل آپ کے واردات قلبی کی ترجمان تھی۔ چنانچہ مولانا نے کئی نعتیں، نظمیں، مثنوی اور مرثیے وغیرہ لکھے ہیں۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کی شخصیت میں کئی پہلو جمع تھے۔ وہ ایک اچھے خطیب اور قادر الکلام مقرر بھی تھے۔ حیدرآباد کے قیام کے دوران آپ کی تقریروں کی دھوم مچی رہتی تھی اور ماہ ربیع الاول میں تو خطابت اور تقریر سے آپ کو فرصت نہ ملتی تھی۔ حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا ذکر آیا ہے تو ہم یہ بھی یاد کرتے چلیں کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے حیدرآباد کی جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات میں اس وقت اپنی خدمات انجام دیں جب جامعہ اپنے قیام کے ابتدائی مرحلہ سے گذر رہا تھا اور وہاں ارباب کمال کی کہکشاں جمع تھی۔ مولانا گیلانی نے دینیات کے لازمی پرچہ سے لے کر اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبہ تک تدریس کے فرائض انجام دیئے اور باکمال شاگردوں کی ایسی کھیپ تیار کر دی جنہوں نے مولانا کے نہج پر اسلامی تحقیق کا قافلہ رواں دواں رکھا۔ مولانا گیلانی کی شخصیت یونیورسٹی کے اندر اور باہر دونوں جگہ وقار اور اعتبار کا مرکز تھی۔
حاضرین! دو باتوں کے تذکرہ کے بغیر مولانا کی ذات پر گفتگو مکمل نہ ہوگی۔ ایک یہ کہ مولانا گیلانی نے کتاب الٰہی قرآن کے ساتھ اپنا مضبوط رابطہ استوار کیا تھا۔ حیدرآباد میں آپ کا سلسلہ درس قرآن افادہ اور استفادہ کا زریں موقع ہوا کرتا تھا اورآپ کے علمی نکات سے حاضرین بہرہ ور ہوا کرتے تھے۔ دوسری یہ کہ مولانا گیلانی علم وفضل کے ساتھ روحانیت اور اعلیٰ اخلاق کے بھی مقام بلند سے آراستہ تھے۔ آپ کی زندگی سادگی کا نمونہ اور تزکیہ باطن سے آراستہ تھی۔ آپ نے لوگوں کی زندگی سنواری اور خود بھی اس کا عمدہ نمونہ پیش کیا۔ جاہ ومرتبہ کے اونچے مقام پر فائز ہونے کے باوجود اپنی زندگی ایک سچے اور سادے مومن والی برقرار رکھی، یہی وجہ ہے کہ آپ جس خاک بہار سے اٹھ کر ٹونک، پھر دیوبند، پھر حیدرآباد، منماڑ، مونگیر اور کلکتہ ہوتے ہوئے حیدرآباد کو مرکز بنایا۔ ملک کے اہم ترین اداروں سے وابستہ ہوئے۔ وقت کی اکابر علمی، روحانی اور سیاسی شخصیات سے گوں نا گوں استفادہ کیا۔ ان سب کے بعد جب زندگی کا سورج لب بام ہو رہا تھا، آپ پھر اسی بہار کی سر زمین پر واپس آ گئے اور اسی گاو¿ں کی پر سکون زندگی میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
محترم سامعین! میں اس دور کے عظیم مفکر، بلند نظر عالم اور نام ور مفکر مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی کے ایک اقتباس پر اپنی گفتگو ختم کرنا چاہوںگا۔ وہ لکھتے ہیں:
”بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ وسعت نظر، وسعت مطالعہ، رسوخ فی العلم اور ذکاوت میں ان کی نظیر اس وقت ممالک اسلامیہ میں ملنی مشکل ہے۔ تصنیف و تالیف کے لحاظ سے وہ عصر حاضر کے عظیم مصنفین میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو مواد جمع کر دیاہے وہ بیسیوں آدمیوں کو مصنف اور محقق بنا سکتاہے۔ اس ایک آدمی نے تن تنہا وہ کام کیا ہے جو یورپ میں پورے ادارے اور منظم جماعتیں پیش کرتی ہیں۔ ان جیسا آدمی برسوں میں پیدا ہوا تھا۔ اور ان جیسا آدمی شاید برسوں میں بھی پیدا نہ ہو
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

SHARE