ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

پروفیسر اختر الواسع

آج کل ہندوستان میں جمہوریت کا جشن بہار ہےیعنی پارلیمنٹ کے الیکشن کے پانچ دور گزر چکے ہیںاور دو گزرنے باقی ہیں۔ شروع میں تو سب خیر سے گزرا لیکن دوسرے انتخابی دور میں کچھ ایسا لگنے لگا کہ حکمراں جماعت کے یہاں سب خیریت نہیں ہے اور وہ اپنی پارلیمانی اکثریت کھو بیٹھنے کے ڈر سے یا پتہ نہیں کسی اور وجہ سے بوکھلا سی گئی ہےاور اس نے مسلمانوں کو نشانہ بنا لیا ہے۔ وزیر اعظم، مرکزی وزیر داخلہ، اتر پردیش اور آسام کے وزرائے اعلیٰ نے خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ تعجب تو وزیر اعظم کے رویے پر ہوا جب انھوں نے بانسواڑا (راجستھان) کے ایک انتخابی جلسے میں مسلمانوں کو خصوصی نشانہ بنایا اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے اس ملک کی غالب ترین ہندو اکثریت کو یہ خوف دلانے کی کوشش کی کہ اگر انڈیا الائنس اقتدار میں آ گیاتو یہ تمام مراعات اور تحفظات زیادہ بچے پیداکرنے والوں اور گھس پیٹھیوں کو بانٹ دیں گے۔ انھوں نےاس سے پہلے یہ بھی کہا تھا کہ فسادیوں کو ان کے لباس سے پہچاننا چاہیے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کا یہ طرز تخاطب کوئی نیا نہیں تھا بلکہ اگر لوگوں کو یاد ہو تووہ یہ نہیں بھولے ہوں گے کہ اس سے پہلے وہ ہم پانچ اور ہمارے پچیس کا نعرہ گجرات اسمبلی الیکشن میں بھی لگا چکے تھے۔ اس وقت میاں مشرف کا نام ان کی زبان پر تھا اب پاکستان کو بیچ میں لاکر وہ مسلمانوں کو مورد الزام قرار دینا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے زیادہ مسلمان ہی پیدا نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ خود بھی، ان کے وزیر داخلہ بھی کئی کئی بھائی بہن ہیں۔ کثرت اولاد کا تعلق غربت اور جہالت سے ہے نہ کہ کسی مذہبی رویے اور رجحان سے۔

جہاں تک گھس پیٹھیے ہونے کاسوال ہے، ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ ہندوستان میں کچھ ہزار مسلمان ہی باہر سے آئے اور بعد میں یہاں کے لوگوں نے جب اسلام کے حریت، اخوت اور مساوات کے جذبے کو دیکھا تو ان کی بڑی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔ اس میں صوفیوں کی وصل خواہی اور صلح کل کی پالیسی کو بھی دخل تھاجن کی خانقاہوں میں آنے والوں سے ان کا مذہب اور نام نہیں پوچھا جاتا تھا بلکہ کھانے کو پوچھا جاتا تھا۔ ابھی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ آر ایس ایس کے سر براہ شری موہن بھاگوت نے کہا تھاکہ مسلمانوں کا ڈی این اے عام ہندوستانیوں سے الگ نہیں ہے۔ اگر شری موہن بھاگوت کا یہ کہنا صحیح ہے تو پھر وزیر اعظم بتائیں کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں یا آر ایس ایس کے سربراہ؟

جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ان کے سامنے پاکستان جانے کے راستے کھلے ہوئے تھے تو انھوں نے جناح اور لیاقت علی خان کی بات نہیں مانی اور ہندوستان میں رہنا قبول کیا تو پھر ان کو پاکستان کا طعنہ دینا کہاں تک جائز ہے؟ یہ تو خود وزیر اعظم ہیں جو اپنے اخلاق اور حسن کردار کا نمونہ پیش کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف کے یہاں شادی کی دعوت میں پہنچ جاتے ہیںاور پھر طعنہ مسلمانوں کو دیتے ہیں۔ ہم ہندوستان کے مسلمان شہری ہونے پر فخر کرتے ہیں اور یہ بات بہ بانگ دہل کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک کے شہری صرف پیدائش سے ہی نہیں ہیں بلکہ اپنی رضا سے بھی ہیں۔

اسی طر ح جہاں تک مراعات اور تحفظات کاسوال ہے ہم خود بھی مذہب کے نام پر انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ تو آپ خود ہیں جو کہ مذہب کے نام پر ان کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں تواور کیا ہے کہ اگر کوئی شخص شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب ہندو ہے تو وہ ریزرویشن کا حقدار ہے لیکن اگر وہ شعوری اور دانستہ طور پر اسلام یا عیسائی مت قبول کر لے تو پھر وہ ان تحفظات اور مراعات سے محروم ہو جاتا ہےجب کہ درحقیقت اس نے اپنا مذہب بدلا ہوتا ہے، ذات نہیں۔ ہم ہندوستانی شہر ی کی حیثیت سے اس کھیل کو خوب سمجھتے ہیں کہ گجرات میں راجپوت اور راجستھان میں پٹیل کس طرح پس ماندہ زمرے میں ریزرویشن کے مستحق قرار دیے گئے ہیں۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک کے باقاعدہ اور باضابطہ شہری ہیں اور اس حیثیت سے اس ملک پر برابر کا حق رکھتےہیں، محض کرائے دار نہیں ہیں۔ ہم ایک بات اور واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک میں کرکٹ کے بارہویں کھلاڑی کے طور پر نہیں رہنا چاہتے جیسا کہ ہم سب کو بخوبی پتہ ہےکہ کرکٹ کابارہواں کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ کھیل سے باہر ہی رہتا ہے اور ڈریسنگ روم میں اس منفی سوچ کے ساتھ بیٹھا رہتا ہے کہ گیارہ کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کھلاڑی زخمی ہو کر واپس آ جائے اور اسے اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملےاور اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہم کنار کرے۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ کانگریس ہو یا انڈیا اتحاد کی دوسری پارٹیاں، انھوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ووٹ بینک سمجھا اور کچھ نہیں دیا۔ ہم وزیر اعظم کی اس بات سے بڑی حد تک اتفاق رکھتے ہیںلیکن انھیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انڈیا اتحاد میں شامل جن پارٹیوں نے ایسا کیا وہ آج اقتدار سے بے دخل ہیں اور اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں، وزیر اعظم کو تو کم سے کم اس غلطی کو نہیں دہرانا چاہیے کہ ہندوؤں کو ووٹ بینک بنا کر اور صرف جملوں کی سیاست کر کے بے وقوف نہیں بنانا چاہیے ورنہ ان کا اور ان کی جماعت کا حال بھی عوام اسی طرح کرنے پر مجبور ہوں گے جیسا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کا ہندوستانی عوام نے کیا ہے۔

وزیر اعظم نے ادھر اپنے وریے میں بلا شبہ تھوڑی سی تبدیلی بھی کی ہے، گنگا میا کے کنارے ہو یا علی گڑھ یا بہار انھوں نے کہا ہے کہ وہ فرقہ واریت کی سیاست کبھی نہیں کرتے ہیں، ان کا بچپن ہمیشہ مفاہمت اور بھائی چارے پر مبنی رہا ہے۔ عید، بقرعید پر ان کےیہاں کھانا نہیں بنتا تھاکیونکہ وہ مسلمانوں کے گھروں سے آتا تھا، ان کے دوست احباب مسلمان رہے ہیں، بوہرہ سماج کے مسلمانوں سے ان کا خاص تعلق رہا ہے، لیکن پھر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی پارلیمنڑی ٹیم میں، ان کی کابینہ میں کسی مسلمان کی گنجائش کیوں نہیں نکلتی ہے؟ نجمہ ہیبت اللہ، مختار عباس نقوی اور ایم جے اکبر کے بعد ان کی وزارتی کونسل میں کسی مسلمان کو کوئی جگہ کیوں نہیں ملی؟ وہ خود تو سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وِشواس اور سب کا پریاس کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کے وزیر داخلہ اور دوسرے پارٹی رفقا کیوں نہیں اس کی تائید کرتے ہیں؟ پھر کیوں لو جہاد، زمین جہاد، یوپی ایس سی جہاد اور ووٹ جہاد کی باتیں کی جاتی ہیں؟

ہم بھارت کے وِشو گرو ہونے، وِکسِت بھارت ہونے کی بھرپور تائید کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ممکن نہیں جب تک کہ ہم سب مل کر نئے بھارت کی تعمیر کو ممکن نہیں بنائیں گے۔ فرقہ واریت، فسطائیت، مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں سے نفرت کو ختم نہیں کریں گے۔ ہم وزیر اعظم اور ان کے رفقا کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی پیار محبت، ہم آہنگی اور خیر سگالی کے ساتھ اپنے وطن عزیز ہندوستان کو جنت نشان بنانا چاہتےہیںلیکن یہ یاد رکھیے کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک سب مل کر ایک نہیں ہو جاتے ہیں اور اردو شاعر غالب کی زبان میں اس کی تمنائی نہیں بن جاتےکہ:

ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com