عابد انور
ہندوستان میں امن و انصاف مسلمانوں ، دلتوں، کمزور طبقوں، آدی واسیوں اور پسماندہ طبقوں کے لئے گولر کے پھول کی مانند ہے جو کبھی نظر نہیں آتا۔ چند ماہ قبل ایک انگریزی اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں موت کی سزا پانے والوں کی پوری تفصیل بیان کی گئی تھی۔وہ رپورٹ نہ صرف حیران کن تھی بلکہ ہندوستان کے نظام عدل پر بڑا سوال بھی قائم کر رہی تھی۔رپورٹ یہ بتایا گیا تھا کہ ملک کی آزادی کے بعد اب تک موت کی سزا یافتگان میں سے بیشتر مسلمان، دلت، کمزور،آدی واسی اور پسماندہ طبقات میں سے ہیں۔ اس کے پہلو پر غور کریں تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جرائم کرنے والوں میں ان کا طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان طبقات کے جرائم کا تعلق چھوٹے موٹے جرائم سے ہوتا ہے یا وہ کسی کہنے یا بہکاوے میں آکر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔مسلمانوں کے خلاف فسادات میں جانی اتلاف میں کمی آئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے یہاں کا اکثریتی طبقہ شریف ہوگیا ہے یا ان میں انسانیت آگئی ہے ،بلکہ ان لوگوں کو بھاڑے کے قاتل نہیں مل رہے ہیں۔ گجرات فسادات اور قتل عام کے دوران بڑے پیمانے پر دلت طبقوں کو فسادات میں استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن حالیہ دنوں میں دلت طبقوں نے فسادات میں استعمال ہونے سے صاف انکار کردیا۔وہ ان لوگوں کے گھناؤنا چال کو سمجھ چکے ہیں اس لئے فسادات میں جانی نقصان میں کمی آئی ہے۔ اب فسادات کا مقصد جانی نقصان کے بجائے مالی و معاشی نقصان پہنچانا ہوتا ہے تاکہ پوری زندگی متاثرین کو کھڑا ہونے میں ختم ہوجائے ۔ یہی طریقہ حالیہ برسوں میں کوسی کلاں اور دیگر فسادات کے دوران اختیار کئے گئے۔کیوں کہ فسادات کے بعد ہندوستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی تھی اور یہ بدنامی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہے۔ مودی کے وزیر اعظم بننے کے باوجود گجرات فسادات ان کا ہر جگہ پیچھا کرتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے مغرب اور یوروپی ممالک جانے پر پابندی عائد تھی اور ان کو ویزا نہیں مل رہا تھا۔ اب جہاں جارہے ہیں وہ ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے جارہے ہیں۔ مودی کی حیثیت اب بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ گجرات پوری دنیا میں اس لئے بھی بدنام ہوا کیوں کہ گجرات فسادات کے بعد بھی وہاں انسانیت کا خون ہوتا رہا اور حیوانیت کا ننگا ناچ جاری رہا۔سیاست سے لیکر افسران تک انسانیت کے قاتل بنے، سپریم کورٹ کی مداخلت پر کچھ کو جیل بھی جانا پڑا لیکن ریاستی اور مرکزی حکومت کی ساز باز سے سب لوگ یکے بعد دیگرے بری ہورہے ہیں اور سب لوگ بری ہوجائیں تو کوئی بعید نہیں ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنا ہندوستانی حکومت کی فطرت میں شامل نہیں ہے۔ ہندوستانی نظام عدل نے یہ بات واضح طور پر بتا دی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ رویہ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ عشرت جہاں انکاؤنٹر کے خاطیوں کو جس طرح پذیرائی کی گئی اور بچ نکلنے کا آسان راستہ فراہم کیاگیا وہ ہندوستانی نظام عدل پر ایک سیاہ دھبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھانسی کی تاریخ پر عمل کرنے کیلئے ایک مسلمان کے لئے صدر جمہوریہ رحم درخواست کو مسترد کرنے کے لئے قلم کا ڈھکن کھولے تیار رہتے ہیں۔ یہاں کی عدالت رات بھر جاگتی ہے لیکن یہی معاملہ پرگیہ کا ہوتا ہے تو اسے فوراً کلین دے دی جاتی ہے۔ عدالت ایک بار بھی تفتیشی ایجنسیوں سے یہ سوال نہیں کرتی کہ گرفتار کئے اور پوچھ گچھ کئے بغیر کلین چٹ کیوں دی جارہی ہے۔ ہرین پانڈیا ، اکشر دھام معاملے میں یہاں کی عدالت اصلی گنہگاروں کو عدالت میں کہٹرے میں لانے کی کبھی ہدایت کیوں نہیں دیتی ہے۔ تفتیشی افسران سے یہ سوال کیوں نہیں کرتی ان بے گناہوں کیوں پھنسایا گیا ، کن لوگوں کے اشارے پر ان پولیس افسران نے بے گناہ مسلمانوں کو پھنسانے کی سازش رچی تھی، اسے طشت ازبام کیوں نہیں کیا جاتا۔گلبرگ سوسائٹی قتل عام کے معاملے میں جو فیصلہ آیا ہے محترم جج صاحب نے جو تبصرے کئے ہیں اس سے انصاف پر یقین رکھنے والا ہر شخص حیران ہے۔ جو باتیں دفاعی وکیل کی ہوتی ہیں وہ عدالت کے منہ سے اچھی نہیں لگتیں۔ اگر گجرات میں خواتین کی آبرویزی، وحشیانہ سلوک، پیٹ چیر بچہ کو تلوارنوک پر لہرانا، عورتوں کی چھاتی کاٹنا، زندہ جلانا، جلانے سے پہلے ایک ایک اعضا کاٹنا اگر یہ جرم نہیں ہے تو پھر نربھیا کے معاملے میں مجرموں کو پھانسی سزا کیا صحیح ہے؟ کیا نربھیہ نے جدوجہد نہیں کی تھی، دانت نہیں کانٹے تھے؟آخری شاذ ونادر کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ کیا مسلمانوں کے ساتھ بھیانک اور انسانیت سوز جرائم شاذو نادر کے زمرے میں نہیں آتے۔ اگر گجرات قتل عام کے سانحات شاذ و نادر کے زمرے میں نہیں آتے تو ہندوستان میں کوئی جرم بھی شاذ و نادر کے زمرے میں نہیں آنا چاہئے۔
گلبرگ سوسائٹی قتل عام خصوصی عدالت کو رےئر آف ریرسٹ نہیں لگا۔ کیوں کہ ایسا ہے بھی نہیں ۔ کسی بھی فساد میں مسلمانوں کا منصوبہ بند قتل عام ہندوستان میں ایک عام بات ہے اور عدالت نے اسے تسلیم کرلیا ہے۔ ورنہ عدالت کو سیکڑوں لوگوں کو سزائے موت دینی پڑے گی۔ 69لوگوں کا بے رحمانہ، وحشیانہ، درندگی پن اور انسانیت کو شرمسار کرنے والا قتل کہیں سے بھی عدالت کے سامنے ریر آف دی ریرسٹ کے زمرے میں نہیں آیا۔مسلمانوں کو سزا دلانے میں عدلیہ کیوں فراخ دل بن جاتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ۹۹ بے قصور کو سزا ہوجائے لیکن ایک بھی قصوروار چھوٹنا نہیں چاہئے۔آج تک ہم یہی نظارہ دیکھ رہے ہیں، مسلم نوجوانوں کو پندرہ بیس سال جیل میں سڑانے کے بعد بری کرکے عدالت سرخرو ہوتی ہے اور انصاف کا پرچم کا بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن جرم کا داغ مٹا لیکن سزا تو عمر قید سے بھی زیادہ کاٹ لی۔ لیکن جب معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے تمام عدالتی حسیت جاگ اٹھتی ہے۔ پتہ نہیں کیوں مسلمانوں کے مجرموں کو سزا دینے میں عدالت کا ہاتھ کانپ جاتا ہے۔ اسے کوئی سازش نظر نہیں آتی۔69لوگوں کا اجتماعی قتل سازش اور منصوبہ کے بغیر کیا ممکن ہے؟ جب مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے تو یہاں کی عدلیہ ثبوت کے فقدان میں عوامی جذبات بناکر سزائے موت سناتی ہے۔ جیسا کہ افضل گرو کیس میں ہوا ہے۔ اتنا بدترین فساد، بھیانک قتل، ایسا وحشیانہ قتل جس کا جدید دور میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود بھی یہ معاملہ نادر واقعہ میں نہیں آیا۔ اسے دوہرا معیار کے علاوہ اور کیاکہا جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ سزائے موت صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ گھر جلاتا ہے، قتل کرتاہے ، آبروریزی کرتا ہے اور سزا صرف سات سال۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صرف گیارہ لوگوں کی بھیڑ نے 69 لوگوں کا بے دردی سے قتل عام کردیا ہو۔گجرات کے گودھرا میں 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے کو جلائے جانے کے ایک دن بعد یہاں میگھانی نگر علاقے میں اقلیتی کمیونٹی کے خاندانوں کی رہائش گاہ والے گلبرگ سوسائٹی میں بھیڑ کی طرف سے زندہ جلا کر مار دیئے گئے 69 لوگوں، جن میں کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری بھی شامل تھے، سے جڑے گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس میں مجرم ٹھہرائے گئے 24 لوگوں کو یہاں ایک خصوصی عدالت نے 11کو عمر قید، ایک کو دس سال اور 12کو سات سال کی سزا سنائی ہے۔ گلبرگ سوسائٹی قتل عام کیس کی سماعت کے لئے قائم خصوصی ایس آئی ٹی کورٹ کا خیال ہے کہ فساد کی صورت میں عصمت دری نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے گلبرگ سوسائٹی میں ہوئی واردات کے وقت ہوئے اجتماعی عصمت دری کے الزام کو یہی کہہ کر مسترد کیا۔ عدالت نے کہا کہ جس جگہ پر ایک بڑی بھیڑ پتھر، جلتے ہوئے کپڑے پھینک رہی ہو اور گھر جلانے کی کوشش کر رہی ہو، اس جگہ پر عصمت دری کرنے کے بارے میں سوچنا مشکل ہے۔جج پی بی دیسائی نے اس قتل عام کے وقت 2 خواتین کے ساتھ عصمت دری کرنے کے الزام میں 3 قصورواریوگیندر شیخاوت، لکھن سنگھ چوڈاسما اور دنیش شرما کو اسی بنیاد پر بری کر دیا۔عدالت نے کہا کہ 3 میں سے 2 ملزم، چوڈاسما اور شرما کو واقعہ کے 7 سال بعد گرفتار کیا گیا۔ اتنے عرصے بعد نہ تو کوئی فورینزک شواہد اور نہ ہی کوئی میڈیکل ثبوت ہی بچا تھا جو کہ عصمت دری کئے جانے کی تصدیق کر سکے۔کورٹ نے کہا، ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت کے احترام کو ختم کرنے اور اس کا ظلم و ستم کرنے کے لئے اس کے کپڑے پھاڑ دیے گئے ہوں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ عصمت دری کے الزام بعد میں سوچ و فکر کے بعد لگائے گئے۔اس سزا پر بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیاگیا ہے۔عدالت نے حالانکہ اس معاملے میں منصوبہ بند سازش ماننے سے انکار کرتے ہوئے تمام ملزمان کے خلاف لگائی گئی متعلقہ تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی کو ہٹا لیا۔ مجرم قرار دیے گئے وی ایچ پی لیڈر اتل وید کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 143، 147، 148، 149، 153، 186، 188، 427، 435، 436 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ انہیں قتل یا دیگر سنگین جرائم کا ملزم نہیں بنایا گیا ہے۔
یہ معاملہ گجرات فسادات سے جڑے ان نو معاملات میں شامل ہے جس کی جانچ سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی نے کی تھی۔ سپریم کورٹ نے مارچ 2008 میں گجرات کی اس وقت کی نریندر مودی حکومت کو سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آر کے راگھون کی سربراہی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایس آئی ٹی نے فروری 2009 سے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی تھی۔ اس معاملے میں مسٹر مودی کے کردار پر بھی سوال اٹھائے گئے تھے بعد میں ایس آئی ٹی نے انہیں کلین چٹ دے دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی روزانہ سماعت اور بعد میں فیصلہ سنانے پر روک لگانے کے احکامات دیے تھے۔ گذشتہ فروری ماہ میں عدالت نے فیصلہ سنانے پر روک ہٹا لی تھی۔واضح رہے کہ سماعت کے دوران مسٹر کوڈکر نے عدالت سے 24 میں سے 11 مجرموں جنہیں قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے کو پھانسی یا کم از کم عمر قید کی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کو ٹھنڈے کلیجے (کولڈ بلڈیڈ) سے کیا گیا قتل اور نادر واقعات میں سے بھی کبھی کبھار ہی ہونے والا واقعہ (ريریسٹ آف ریر) قرار دیا تھا۔مدعا علیہان کے وکلاء نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ قصورواروں کو پھانسی کی سزا نہیں دی جانی چاہئے اور انہیں سدھرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ وہ پیشہ ورانہ مجرم نہیں ہے اور انہوں نے ضمانت کی مدت کے دوران بھی کبھی ثبوت سے چھیڑ خانی کی کوشش نہیں کی۔ مدعا علیہان کے وکلاء نے عدالت سے نرمی کا رخ دکھانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجرم ٹھہرائے گئے لوگ پیشہ ور مجرم نہیں ہیں۔
مقتول احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے اس سزا پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انصاف نہیں ہے۔گلبرگ سوسائٹی کیس میں عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کی خبر سننے کے بعد سابق ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوی ذکیہ جعفری اپنے آنسو نہیں روک پائیں۔ ملزمان کو عمر قید دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ذکیہ نے دی انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کہا،،جب گلبرگ سوسائٹی میں اجتماعی اور ظالمانہ طریقے سے قتل کی جا رہی تھی، میں وہیں تھی، کورٹ نہیں۔ میں نے لوگوں کا درد دیکھا ہے جو میں مدد کے لئے چلا رہے تھے. میں نے لوگوں کی چیخ سنی ہیں، کورٹ نے نہیں. میں نے دیکھا کہ انہوں نے دھاردار ہتھیار لے رکھے تھے۔ انہوں نے بے دردی سے معصوم لوگوں کو مارا جن حاملہ خواتین، چھوٹے بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔ہم کورٹ کے حکم سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہم اپنی آخری سانس تک اس طویل جنگ کو جاری رکھیں گے’۔ معاملے میں کچھ لوگوں کو رہا کئے جانے پر ذکیہ نے کہا،’’ ہمیں بچانے یا خاموش تماشائی بننے کے لئے نہیں آئے تھے۔ وہ بھی اس جرم میں شامل تھے۔ یہ کیس 14 سال تک لڑنے کے بعد، ہمیں امید تھی کہ تمام ملزمان کو عمر قید ملے گی، لیکن آج کا فیصلہ بالکل مختلف ہے. ہم قانونی رائے لینے کے بعد اپنی جنگ جاری رکھیں گے‘‘۔
گلبرگ سوسائٹی قتل عام کا اثر گجرات فسادات کے دیگر مقدموں پر پڑیں گے۔ اب ضروری ہے کہ ان مقدمات میں پیش کئے گئے دلائل و براہین کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کو اصلیت سے آگاہی حاصل ہوسکے۔ انصاف کا دوہرا پیمانہ اور دوہرا معیار پر کھل کر بحث ضروری ہے ۔ دنیا کو معلوم ہوسکے مقدمہ میں کتنا دم تھا اور کیا فیصلہ کیا آنا چاہئے تھا اور کیا آیا۔یہ فیصلہ اس لئے بھی افسوسناک ہے کہ گجرات کی عدالت نے گودھرا ٹرین آتش زدگی معاملے میں جس میں 49 لوگ ہلاک ہوئے تھے ، اس مقدمے میں 11 مسلمان کو پھانسی کی سزا اور 20کو عمر قید کی سزا سنائی تھی ا ب جب کہ گلبرگ سوسائٹی میں 69 لوگوں کے وحشیانہ قتل میں ایک کو بھی پھانسی کی سزا نہیں سنائی گئی ہے اور صرف گیارہ کو عمر قید کی سزا۔ باقی کو سات سال کی سزا۔ یہ سزا جانوروں کے اسمگلنگ کی سزا سے کم ہے۔ بمبئی بم دھماکہ کے کیس میں جس میں 258افراد ہلاک ہوئے تھے اور 250کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا اس میں 117لوگوں کوسزائیں دی گئی تھیں ان میں ایک درجن سے زائد سزائے موت کی سزا تھی، بیشتر کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ بمبئی فسادات کے دوران تقریباً تین ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور تین ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا لیکن ان میں سے آج تک کسی کو موت کی سزا دور کی بات ہے عمر قید کی سزا تک نہیں ہوئی۔ فسادات کے معاملے میں بھاگلپور قتل عام میں چند لوگوں کو عمر قید کی سزا کے علاوہ دیگر فسادات میں سزائیں بھی نہیں ملی ہیں، میرٹھ ملیانہ، مرادآباد، بھیونڈی، نیلی، جمشید پور اور دیگر فسادات کے ملزم آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔تاریخ میں شائد پہلی بار ہوا ہے کہ کسی عدالت نے مجرمین کی طرفداری کی ہو، اس کے فعل کو جائز ٹھہرایا ہو۔ اس فیصلہ سے تکلیف ہونا فطری بات ہے لیکن مایوس ہونے کی ضرورت ہے اس لئے جہاں انصاف کا دروازہ بند ہوتا ہے وہیں سے انصاف دوسرا درواز بھی کھلتا ہے بس ہمیں اس دروازے کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو اپنے معاملات جہاں قرآن و سنت کا دام تھام کرحل کرنے کوشش کرنی چاہئے وہیں دنیاوی اعتبار سے تمام طریقے کو اپنا نا چاہئے۔عدالت کی تمام خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنا ہمارا جمہوری حق ہے اور اس حق کو ہمیں ہر حال میں استعمال کرنا چاہئے۔(ملت ٹائمز)
abidanwaruni@gmail.com