اگر میں امریکہ کا صد ر ہو تا

احتشام الحق آفاقی

  اخباروں کی سرخیوں،قلم کاروں کی تحریریں ، فنکاروں کی فن ، سیاحوں کی سیاحت نے امریکن سپہ سالاری کی طاقت کوبہت اجاگر کیا ، دل میں خیال  آیا، کہ کیوں نہ میں بھی خیالی صدر بن جاؤں، ورنہ دل میں تو یہی خیال آتا ہے ، کہ   میں ایک بڑا امام بن جاؤں ، ایک عالم دین بن جاؤں، ایسے ہی نہ جانے کیسے کیسے خیالات دل میں آتے ہیں ، پھر دل یہ بھروسہ دلاتا ہے ، جو ہے وہی رہ ، زیادہ مت اڑ ، ایک دن یہ پریں تیری ٹوٹ جائیں گی ، ایسے خیالات کا دل میں آنا پاگل پن کی ایک قسم ہے ، چل خاموش رہ مجھے پاگل پن کی قسمین مت گنا  ، یہ وسیع وعر یض ملک جسمیں بیک وقت چار مختلف زون ہیں، آج دنیا کا سب سے زیا دہ تر قی یا فتہ ملک، دو لت مند اور طا قت ور ملک ہے یہ حیثیت ان کو کئی دہا ئیو ں سے حاصل ھے تا ہم روس کے بکھڑ نے کے بعد تو اس کا کوئی حر یف بھی نہ رہا،دنیا کے جن بڑ ے مما لک یعنی روس،فرا نس،بر طا نیہ،جا پان چین جر منی کی مجموعی طا قت بھی ان سے بہت کم ہے دنیا بھر کی تجا رت میں ان کا بڑ ا حصہ ہے،سا ئنس اور ٹکنا لو جی میں بھی اس کا کو ئی ثا نی نہیں صنعت وحر فت میں وہ سب سے آ گے ہے اسلحہ سازی میں تو کوئی اس کے قریب بھی نہیں جا سکتا،دنیا بھر کے معاملے میں وہ پو ری دلچسپی کے سا تھ حصہ لیتا ہے،اقوام متحدہ کے اندر امریکہ کا موقف سب سے ز یا دہ وزن رکھتا ہے،چنانچہ ھر ملک کے لئے امریکہ سے تعلق رکھنا ایک اہم ترین ایشو بن گیا ہے لیکن ایک امریکہ ہے جو ھر جگہ اپنی مفا د کو تلا ش کر تا ہے، پھر بھی بھوکے پیٹ سوتا ہے آخر کیا وجہ ہے؟ انہیں تمام معاملے میں میری حکو مت بھی ایک انشا ئیہ کی شکل میں اپنی حکو مت سازی کا دعوی پیش کر رہا ہے۔

حلف اور کا نفر نس سے پہلا خطا ب

      تمام تعر یفیں اس پاک ذات کے لئے ہے جو تمام عا لم کی ذمہ داری بحسن خو بی اکیلے انجام دے رہا ہے،میں اس پاک ذات کا بے حد ممنو ن ومشکو ر ہو ں جس نے اپنی ملکیت کا ایک چھو ٹا سا خطہ میرے سپر د کیا ،حقیقی مالک تو تمام کا ئنات کا وہی ہے اور ساتھ ہی میں آپ سبھی سیکو لرزم عوام کا شکر گزار ہوں کہ انہو ں نے مجھے اس قابل سمجھا اور امریکہ جیسے عظیم سلطنت کے کا رندوں کے طور پر وہا ئٹ ہاوس میں بیٹھنے اور کام و کاج میں دلچسپی لینے کا مو قع فراہم کیا شا ید کہ میں اپنے مقصد اور سوچ کے تحت اسے اور آگے لے جا سکوں دو ستو حقیقت تو یہ ہے میں اکیلا اس ملک کو بلندی تک پہوںچا نے کے قابل نہیں، کہ اس ملک کو اور بلندی تک پہنچاؤ ں ، لیکن میں ضرور کوشش کروں گا ، کہ اس ملک کی جو وقار ہے اس کو برقرار رکھ سکوں اور اس ملک کے ماتھے پر جو داغ لگا ہے اس کو صاف و شفاف بنا سکو ں ۔ ترقی یہ نہیں ، کہ ہم کتنے ملکوں سے آگے ہیں اور کتنے سے آگے بڑھنا ہے ، بلکہ ترقی تو یہ ہے ، کہ ہمارے ملک سےچھوٹے ملک جو ہم سے بہت سی  باتوں اور معاملات میں ہم سے کئی گنا پیچھے ہیں ، ہم سے وہ کتنا دلی لگاؤ رکھتا ہے اور ہماری کامیابی سے کتنا خوش ہے اور ہمیں کتنا عزت فراہم کر رہا ہے ، ہم اپنے آپ کو کتنا محفوظ خیال کررہے ہیں ، دراصل یہی ہے ہماری اصل کامیابی اور ترقی ، ہمارا ملک سپر پاور طاقت ضرور ہے لیکن عزت کی نظر سے نہیں بلکہ ذلت کی نظر سے ، جب میں امریکی صدر منتخب ہوا فورامیڈیا میں یہ سوال اٹھا ، کہ سابقہ صدر کی نگرانی میں جو خامی تیل اور پٹرول کو حکومت نے دبا رکھا ہے ، آپ اس کو مزید بڑھاوا دیں گے یا اس کی مواخذہ کریں گے، اس وقت مجھ سے کوئی جواب نہ بن سکا ، میں آپ سب کے سامنے یہ حلف لیتا ہوں ، کہ میں کبھی بھی اپنی اور اپنے ملک کی مفاد کی باتیں نہیں کرون گااور میں یہ امید کرتاہوں ، کہ آپ میری بھر پور مدد اور تائید کریں گے ،میں اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہوں ، کہ یہ سب کرپانا میرے لئے بہت مشکل ثابت ہوگا ، لیکن آپ سب کی مدد اورسرپرستی مجھ پر سایہ فگن رہی ، تو میں ضرور کر گزروں گا ، اور سلطنت امریکہ کو حقیقی ترقی کی منہج پر لا کھڑا کردوں گا ۔

بحیثیت امریکی صدر وزراء کے ساتھ پہلی میٹنگ

             میں بحیثیت امریکی صدر پہلی مرتبہ آۤپ سب کے سامنے حاضر ہوا ہوں ، سب سے پہلے تو میں  آۤپ سب کو مبارک باد یش کرتا ہوں اور آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہون اور وقت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے میں اجلاس کی طرف لوتٹا ہوں ، آج امریکہ جس صورت حال سے گزر رہا ہے ، دنیا کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے ، ورلڈ ریکارڈ بک میں  ہر معاملہ میں سب سے آگے ہمارا نام آتا ہے ، لیکن ہم خود اس کا محاصرہ کریں ، کہ ہم کس معاملے میں اور ملکوں سے آگے ہیں ، ہم کہتے ہیں ہمارا تعلیمی سسٹم شاندار ہے ، لیکن وہ کیسے ؟ ہماری ایجوکیشن سسٹم میں اتنی بداخلاقی کی بھر مار ہے، کہ ہم سب سےآ ۤگے ہوتے ہوئے بھی ہم قعر مذلت کی کھائی میں دکھائی پڑتے ہیں ، تعلیمی میدان میں بد اخلاقی و بدکرداری نے اچھی خاصی جگہ کو اپنے اندر ضم کرلیا ہے ، جو مجھے اور آپ سب کو مل کر اخلاقی کردار اور بد اخلاقی کردار کو ایک دوسرے سے جداکرنا ہے ، ورلڈ ریکارڈ بک میں درج ہے ، کہ ہم دنیا کےامیر ترین ملک ہے ، لیکن ہمارے ملک میں ٹھرٹی فائیو فیصد لوگ غریبی اور مفلسی کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں ، آخر اس پینتیس فیصد غربت کو امریکہ سے کیسے دور کرنا ہے؟ اس پر بھی ہما را خاص توجہ ہوگا ، تیسرےمقصد کو بھی واضح کردوں ،کہ ہمارا خارجہ پالیسی کبھی بھی درست نہیں رہا ہے ، حقیقی ترقی کی راہ پر جو حائل ہے وہ ہمارا خارجہ پالیسی ہے ، ان شاء اللہ میں اس کوبہتر سے بہتر کروں گا، تاکہ کوئی بھی ملک ہمارے ترقی کی راہ میں حائل نہ ہو ، مجھے امید ہے ، کہ میں ضرور اس کامیابی کو حاصل کروں گا ۔

تعلیمی نظام میں بہتری

                موجودہ دور میں جو امریکہ کا تعلیمی نظام دیگر ممالک سے قابل رشک ہے ، لیکن صرف اور صرف اس میں خلجان ہی پایا جاتاہے ، جب تک اس خلفشاری کو ختم  نہ کیا جائے اس وقت تک اس کو بہتر تعلیمی نظام نہیں کہا جا سکتا ہے ، کیوں کہ زہر کا جو ٹھیکہ ہمیں اسکولوں میں نصاب کے نام پر لگایاجاتا ہے اس سے اور اس کے اثر سے باہر نکلنا بہت مشکل ہے ، آج پورے امریکہ تعلیمی جہالت کا شکار ہے ، اسکولوں میں جو پڑھائی پڑھائی جاتی ہے وہ کالج میں جاکر کچھ اور ہو جاتا ہے ، یہ کنفیوزن اس وقت ختم ہوتا ہے جب طالب علم کالج سے نکل کر یونیورسٹی پہونچتا ہے ،تب ان کو سمجھ میں ۤآتی ہے ،کہ تعلیم کیا چیز ہے ، کیوں کہ انھوں نے کبھی تو پڑھا نہیں ، کہ اخلاقیات کی درس کیا چیز ہوتی ہے ، کالج میں خلا کی سائنس تو پڑھا لیکن انھون نے سماجی سائنس نہیں پڑھا کہ سماج بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، تو انھیں کیسے معلوم ہوگا، کہ معاشرہ کو کیا چاہئے اور انھیں کیا چیز ہمیں فراہم کرنا چاہئے اور وہ آج کس دور سے گزر رہی ہے اور ان کی علاج کس دوائی سے کرنی چاہئے ، بس ان کو صرف چاند کا سفر نظر آتا ہے اور  وہ سورج کی کرنوں کو گنتے ہوئے جوان ہوتے ہیں ، ہمیں تبدیلی اس میں یہ کرنی ہوگی ، کہ ہم اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشرتی تعلیم پر بھی زور دیں گے ، تاکہ انسانیت کو انسانیت کی قیمت معلوم ہو اور معاشرے کو تباہی سے بچا سکے ، جس کے ذریعہ امریکہ ایک سپر پاور طاقت کے ساتھ ساتھ انسانی خیر خواہوں کا ملک ہو ، تعلیمی و اخلاقی کردار میں تبدیلی لانے کے بعد اس ملک کو کسی بھی ملک سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا ، پھر تو دہشت گرد تنظیموں کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا ، کہ ہم امریکہ کو اس لئے ختم کرنا چاہتے ہیں ، کہ امریکہ میں اخلاقی گراوٹ کا فقدان ہے ۔

معاشیات میں سدھار اورغربت کا خاتمہ

              بحیثیت امریکی صدر میں یہاں کے معاشی حالات میں سدھار لانا ضروری سمجھتا ہوں ، کیوں کہ ، یہ ریاستہائے متحدہ کے لئے ایک اہم ترین مسئلہ ہے، اولین تو میں بہت سے ممالک کے سربراہوں سے بات کرتا ، کہ آپ ہمارے ملک  میں کمپنیاں قائم کیجئے جس کے ذریعہ ہمارے ملک میں بے روزگار لوگوں کو روزگار ملے ، اور امریکہ معاشی بحران سے نکلےاور اس مقصد کو حاصل کرنے کے بعد میں کوشش کرتا ، کہ امریکہ پوری طرح سے معاشی بحران سے نکل سکے اور میں اس کو بہتر کرنے کے لئے ،ادھر ادھر ہاتھ پھیلاتا رہتا ، یہ حال میرا اس وقت تک جاری رہتا ، جب تک میں اس ہدف کو حاصل کرنہ لیتا اور امریکہ کو ایک نئی بلندیوں تک نہ پہونچا دیتا ۔

خارجہ پالیسی کو مستحکم بنانا

               بحیثیت امریکی صدر میں اب خارجہ پالیسی کو مستحکم کرنے کی طرف گامزن ہوتا ،جو کہ سیدھی انگلی سے گھی نکالنے کے مترادف ہے ، اب مسئلہ یہ ہے ، کہ آپ پوری دنیا کو نیست و نابود کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی خارجہ پالیسی کو مستحکم بنانا چاہتے ہیں، ایسا میں نہیں یہ ایک میرا وزیر کہہ رہا ہے ، اب میں ہندستانی پی ایم بابا چھوڑو لا ل نریندر مودی کی صورت کو اختیار کرتا اور دوسرے ملکوں سے اپنے خارجی تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیتا ، میں کوشش تو یہی کرتا کہ ہمارے ملک کی جو بھی معاملہ التوی میں رکھا ہے ، اس کو دوبارہ بحا ل کیا جائے ، اور فورا ایک 20 جی میٹنگ طلب کرتا جس میں تمام ملکوں کے نمائندوں کو طلب کرتا ، اوراپنے تمام اغراض و مقاصد کو ان سامنے پیش کرتا ، اور میں تمام ممالک کے سربراہوں سے پر زور اپیل کرتا کہ آپ ہمارے ساتھ یہ معاہدہ کیجئے، میں اس معاہدہ کے ذریعہ سے امریکہ سے معاشی تنگی کو دور کرتا اور امریکہ میں نئی نئی کمپنیاں قائم کرتا ، اور میں یہ بھی کوشش کرتا کہ ہماری وجہ سے کسی کا کوئی ذاتی نقصان نہ ہو اور ہمارے ملک کے اندر جو بھی اندرونی خلفشار ہے ، اس کو دور کرتا ، دنیا کو امن و سلامتی اور مثبت نظریہ کے حامل بناتا ، اس طرح سے میں دنیا کے اندر ایک نیا انقلاب لاتا اور یہ انقلاب  اخلاقی ، امنی ، سلامتی ، قومی  ، ملی ، جماعتی اعتبار پر آتا ۔

داخلی امور کی پالیسی اور رواداری کو مضبوط کرنا

                 مدت دراز سے امریکہ میں دو پارٹی نطام رائج ہے ، ایک ریپبلیکین پارٹی اور دوسری ڈیمو کریٹک پارٹی ، وقتا فوقتا کوئی تیسری پارٹی بھی ابھر کر سامنے آتی ہے ، کچھ تہلکہ مچاتی ہے ، لیکن جلد ہی جہاں سےاٹھی تھی وہیں منہدم ہو جاتی ہے ، امریکہ کے اندر جو ہماری پارٹی کا مشن ہوتا شاید وہ عام پارٹی کی مشن سے الگ نہ ہوتا ، کیوں ؟ کہ ہر پارٹی کا مشن یہی ہوتا ہے ، انسانی حقوق، عورتوں ، اقلیتوں ، مزدور طبقہ ، اور تاریکین وطن کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنا ، ہماری پارٹی کی کوشش یہ ہوتی کہ یہ تمام چیزوں سے کچھ الگ کرے ، ہماری پارٹی اور تمام پارٹیوں سے بہت زیادہ نمایا کارنامہ انجام دیتی جو کہ ناقابل فراموش جمہوریت کو ایک ایسا نطام تربیت عطا کرتا ، جو دوسرے ملک کی عوام و خاص اس کو دیکھتی رہ جاتی ، امن و آشتی کو بھر پور بڑھاوا دیتا ، میں ان لوگو ں کی بھر پور مدد کرتا جو لوگ ملک سے انفرادی اجتماعی اخلاقی برائیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، ملک کو عدم راودار ی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا ، عوام بھوک سے پریشان نہیں ہوتی ، سلطنت امریکہ سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتا ، پورے ملک کو ایک حقیقی سیکولرزم کی رنگ میں رنگ دیتا ، دیکھنے والے دیکھتے اور کہتے ، کہ آفاقی کا ہے انداز حکومت اور۔

جمہوریت کا سخت قانون

              میں امریکہ میں جمہوریت کا ایک ایسا قانون نافذ کرتا ، جس کو چھوڑکر کوئی بھی شہری ایک قدم بھی آگے نہ بڑھاتا ، مذہب کے خلاف بولنے کی کوئی بھی شخص جرات نہیں کر تا امریکہ میں ،میں !ہر اس قانون کی نفاذ کرتا  ، جس کو ہندستانی آج باآسانی نظر انداز کر دیتے ہیں، کاش کہ میں ہندستا ن کا صدر ہوتا اور یہ خیالی پلاؤ ایک ہندستانی وزیر اعظم کی لا تعبیر سپنوں کی حیثت سے پکاتا

 

SHARE