ایدھی صاحب کو کسی سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں

رامیش فاطمہ
ہم ایدھی ہیں؟ سب یہی کہنا چاہتے ہیں، سننے میں اچھا لگتا ہے لیکن کیا ہم ایدھی ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہو سکتا ہے کیونکہ جی خدمت کی خاطر خود کو ایسے وقف کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا کام کیا اور آخر چلے گئے ہماری دلچسپی کا موضوع مگر کچھ اور ہے۔ ہم لوگ انہیں کلمہ پڑھانا چاہتے ہیں، مسلمان ثابت کرنا چاہتے ہیں، اسی پہ بس نہیں کرتے بلکہ انہیں کسی مسلک کے تابع بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اصرار ہے کہ ایدھی جیسے اسرار کو تہہ در تہہ کھولیں اور من پسند چیز نکالیں لیکن اس چکر میں ہم ان کی ذات کو فراموش کر رہے ہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو شناخت پہ یقین رکھتے ہیں لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ایدھی کی پہچان انسانیت ہے۔ وہی انسانیت جس سے ہم دور ہی بھلے۔ ہماری کچھ اقدار ہیں، روایات ہیں جو تعلق ان کے باہر بنتا ہے ہم اسے ناجائز کہتے ہیں اور اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کو اپنا نہیں سکتے، جو سماجی دباؤ کے سامنے ہار گئے اس اولاد کو ایدھی نے اپنا نام دیا۔ ہم ایسے نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تو سالے ناجائز بچے ہیں ان پہ تھوکا ہی جا سکتا ہے اپنا نام کیسے دیں؟ ہم اس شعور کو اجاگر نہیں کر سکتے کہ صاحب محبتیں کرنے کا شوق پال رکھا ہے تو اولاد کو اپنانے کا حوصلہ بھی رکھیں۔ یہ بات اگر کوئی کہہ دے تو ہم اسے بھی یہی بات سنا دیں گے کہ آپ اقدار کو پامال کرنے کی راہ تجویز کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ جو تعلق ہماری روایات کے عین مطابق جائز ہے وہاں بھی لوگ اپنی پانچویں چھٹی بیٹی سے تنگ آ کر، یا غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اولاد ایدھی کے جھولے میں ڈال آتے ہیں اور ایدھی ان سے بھی سوال نہیں کرتے تھے؟
Eidhi sbکسی عورت کو بےآسرا کر کے گھر سے نکال دیں تو جائے امان ایدھی ہے۔ کسی میت کی منتقلی ہو تو ایدھی ہے، لاوارث لاشیں اٹھانی ہو تو ایدھی ہے، لاش رکھنے کی خاطر سرد خانہ چاہیئے تو ایدھی ہے نا۔ کیا آپ یہ سب کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس کرنے کو اور اہم کام ہیں۔ ہم دائرہ اسلام کے کھیل میں مشغول ہیں کہ کس طریقے سے فلاں فلاں کو باہر نکالا جائے اور پھر بوقتِ ضرورت یا بہ امرِ مجبوری کسی کو مشرف بہ اسلام کیا جائے۔ کیا ایسا کھیل کھیلنے والوں کی دعائے مغفرت کی ضرورت اس ایدھی کو ہے جس نے اس دنیا میں ہزاروں لوگوں کی زندگی بہتر بنا دی؟ آپ لوگ تو اے پی ایس کے بچوں کیلئے بھی دعائے مغفرت ہی کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ کہیں ہم قاتلوں کے خاموش ساتھی تو نہیں؟ جنت کے ٹھیکیدار پریشان ہیں کہ ایدھی صاحب کو جنت دی جائے یا نہ دی جائے۔ کیا ایدھی نے کسی دنیاوی یا آخرت کے فائدے کے سبب انسانیت کی خدمت کی ہے کہ آپ اس چکر میں پڑے ہیں؟
ایدھی صاحب چلے گئے اور اپنے پیچھے لوگوں کو پریشان چھوڑ گئے۔ کچھ لوگ ہیں جو ان کے جانے پہ رو رہے ہیں، کچھ ہیں جو کہتے ہیں ہم سب ایدھی بن جائیں، کچھ ہیں جو یہ معمہ حل کرنے میں لگے ہیں کہ آخر کس طرح ایدھی صاحب کو مسلمان کر کے ان کے مخالفین کا منہ بند کروایا جا سکے اور تھوڑے بہت ہیں جو پریشان ہیں اگر اس ملک میں ایدھی کو بھی مذہب کے ٹھیکیداروں کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے تو یہاں باقی کسی کے لئے کیا گنجائش ہو گی۔۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایدھی صاحب کے کام کو کسی ایوارڈ، کسی سرٹیفیکیٹ، کسی گواہی کی ضرورت نہیں۔ ان کا کام ہی کافی ہے ان کی پہچان کی خاطر۔ ایدھی تو خود ہماری پہچان بن گئے لیکن ہم ان کو اپنانے اور ان کے کام میں حصہ ڈالنے کے بجائے ان کی شناخت تلاش کرنے میں لگ گئے۔
قدرتی آفت کہہ کر اپنی نااہلی چھپاتے رہتے ہیں، سیلاب زدگان کو کوستے ہیں کہ وہ پونڈ ایریا میں کیوں بیٹھے رہتے ہیں، حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ آخر وہ پیشگی انتظامات کیوں نہیں کرتے، زلزلہ زدگان کی امداد سے زیادہ ان کے اعمال کو کوستے ہیں جو ہمارے حساب سے زلزلے کا سبب بنے۔پھر شاید کبھی کبھار جی چاہے تو تھوڑی امداد کر کے اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں اور اس میں بھی کچھ ستم ظریف ایسے ہیں کہ اس امداد کی تصویری نمائش ضرور کرتے ہیں تو پھر ہم ایدھی کیسے ہو سکتے ہیں جو چپ چاپ اپنا کام کرتا رہے یعنی دکھی انسانیت کی خدمت۔۔۔
نہیں صاحب، ہم جذباتی لوگ ہیں۔ اسے محض جذبات کا اظہار ہی سمجھا جائے کہ ہم ایدھی ہیں ورنہ حقیقت بہت مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کئے بغیر کام کرنے کا حوصلہ ایدھی کا ہی تھا، جو ریاست کی ذمہ داری تھی وہ ایدھی نے نبھائی، جس کو سگے رشتوں نے نہیں پوچھا ایدھی اس کا سہارا بنا۔ جس ایدھی نے بلاتفریق مذہب، ذات، رنگ، نسل ہر انسان کی مدد کی آج اس ایدھی کے جانے کے بعد بھی ہم انسانیت کا مدعا سمجھنے پہ تیار نہیں۔(ملت ٹائمز)