گائے کو ہتھیار کس نے بنایا؟

احمد شہزاد قاسمی
کئی جانور ایسے ہیں جواپنی سادگی اور بھولے پن کے لئے مشہور ہیں جیسے بکری اونٹ گائے وغیرہ ان جانوروں کی سادگی کے کئی واقعات اردو نصاب کی ابتدائی کتابوں میں منقول ہیں ،تاہم گائے کو ان میں اولیت کا مقام حاصل ہے گائے کی بے پناہ سادگی اور بے ضرر ہونے کی خصوصیت کی وجہ سے ہی اس کی سادگی ضرب المثلبن گئی ہے،جب کسی شخص کی سادگی اور بھولے پن کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو’’ اللہ میاں کی گائے‘‘ہے یعنی یہ انسان نہایت شریف نیک اور دوسروں کا بھلا چاہنے والا ہے۔ لیکن آج کے ہندوستان میں اسی شریف اور بھولے جانور کی ایسی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ گائے کاتصور آتے ہی خوف وہراس سے ذہن کانپنے لگتا ہے ۔
اسکے نام کے ساتھ کئی اذیت ناک واقعات وابستہ ہوگئے ،دادری کا درد بیل تاجروں کو درخت پر لٹکانا انسانوں کے منہ میں جانوروں کا پیشاب اور غلاظت بھرنا عوامی مقامات پر خواتین کو زدو کوب کرنا یہ سب مکروہ حرکتیں گائے اور اسکی نسل کے جانوروں کے ساتھ منسوب ہیں ،گزشتہ برس اتر پردیش کے دادری میں اخلاق نامی ایک شخص کو محض گھر میں بیف کی افواہ ہونے کی بنا پر پیٹ پیٹ کر زندگی سے محروم کردیا تھا اس واقعہ کو سوائے اربابِ حکومت کے پورے ملک نے کر اہت کی نظر سے دیکھا تھا بہت سے لوگوں نے سرکاری اعزازات واپس کر کے ناراضگی جتائی تھی جسکے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اب اس طرح کا واقعہ رونما نہیں ہوگا ،لیکن اہلِ حکومت کی معاندانہ چشم پوشی خاص طور سے سر براہِ مملکت کی معنی خیز خا موشی نے تحفظِ گائے کے نام پر انسانوں کو ہراساں کر نے والے گروہ کو ہمت فراہم کی جس سے حوصلہ پاکر یہ لوگ گؤ رکشک کے نام پر ظلن وتشدد فساد ونفرت کا کھیل کھیلتے رہے ،یہاں تک کہ مردہ گاےء کا چمڑہ اتارنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا بھی گؤ رکشکوں کے یہاں جرم ٹہرا ،جانور بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے ساتھ مار پیٹ اور تشدد کی خبریں ملک کے طول وعرض سے آتی رہتی ہیں ،ہریانہ میں ایک ٹرک ڈرائیور کو مشتعل بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر اس لئے قتل کردیا تھا کہ وہ اپنے ٹرک میں جانوروں کو لے کر جا رہا تھا اسی طر ح ہماچل میں بھی جا نور بردار ٹرک ڈرائیور کو گؤ محافظین کے تشدد کا نشانہ بنکر اپنی جان دینی پڑی ،حالیہ دنوں میں اس نوعیت کے دو دلدوز واقعات سامنے آےء ہیں پہلا واقعہ گجرات کا ہے جہاں چار دلت نو جوانوں کو بر ہنہ کر کے بے رحمی سے پیٹا گیا مذکورہ نو جوانوں کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے پیشہ کے مطابق اس گاےء کا چمڑہ اتار رہے تھے جس کو ایک شیر نے ہلاک کر دیا تھا ،اس واقعہ کی گونج سڑک سے پارلیمنٹ تک ہے، گجرات میں دلتوں نے بڑے پیمانہ پر احتجاجی تحریک چھیڑ دی ہے اور ایوان میں بھی بی ایس پی سمیت اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملہ پر حکو مت کو گھیرا ہے ،ہاردک پٹیل کی قیادت میں پٹیل ریزرویشن تحریک کے بعد دلتوں کی احتجاجی تحریک سے حکمراں جماعت کی مصیبتوں میں اضافہ کا امکان ہے
آئندہ انتخابات میں یہ تحریکیں حکمراں پارٹی کے لئے یقینی طورپہ خسارہ کا سبب ہونگی اور اسکے بعد یہی کہا جائے گا ۔۔۔
.الٹی ہو گئیں سب تد بیریں
کچھ نہ دوانے کام کیا
دوسرا واقعہ مدھیہ پردیش کے مند سور علاقہ کا ہے جہاں دو مسلم خواتین کو ریلوے اسٹیشن پر پولیس کی موجودگی میں گؤ رکشک کارکنوں نے خواتین کے پاس گاےء کا گوشت ہو نے کی شک کی بنا پر بری طرح مارا جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ گوشت بھینس کا ہے اس سے پہلے بھی مدھیہ پردیش میں ایک مسلم جوڑے کو ٹرین میں جنون پرست گؤ محافظین نے ان پر گاےء کا گوشت ہونے کا کھوٹا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایاتھا ،واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں زور آزماء کر نے والی پارٹیاں تخت وتاج پانے کے لےء مختلف تدبیروں اور حیلوں سے سماج کو بانٹنے کا کام کرتی رہتی ہیں جسکے لےء مذہبیات کا سہارا لیا جاتایے کبھی نفرت آمیز تقاریا وبیانات سے ایک فرقہ کو خوش کرنے کے لئے،اور اسکے ووٹ کھینچنے کے.لےء دوسرے فرقہ کے عوائد ودینیات کو مجروح کیا جاتا ہے لو جہاد بیف گھر واپسی مسلم مکت بھارت وندے ماترم یوگا اور بھارت ماتا کی جے اسکی واضح مثالیں ہیں ،ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک(بی جے پی) نفرت اور تفریق پہ یقین رکھتی ہے جبکہ دوسری (کانگریس) سیکولرازم کا دعوی کر نے کا با وجود اپنی منافقت اور دوہری پالیسی کسی ہوشمند انسان سے مخفی نہ رکھ سکی ۔بھاجپا نے ایک عرصہ تک بابری مسجد کے سہارے اپنے سیاسی وجود کا احساس کرایا اور بابری کی بدولت ہی اسکو پہلی مرتبہ اقتدار کی عیش پسندیوں ذائقہ ملا لیکن اب جب بابری مسجد کی ووٹ کشید نے کی صلاحیت کم ہوگئی تو سماج کو بانٹنے والا گروہ اور اسکی ہمنوا ہندا تنظیمیں گائے پر سوار ہو کر میدان.میں نکل پڑیں ،
گؤ رکشک کے نام پرہندو جنون پرستوں کی دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ظلم وتشدد کی انتہاء غلیظ اور انسانیت کو شرمسار کر نیوالی حیوانی حرکتوں کے پیچھے پسماندہ طبقات کو نشانہ بنانے مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے اور ووٹ بنک کی سیاست کے علاوہ کوء دوسرا مقصد نہیں ہے،اگر انکو گائے سے ذرابھی محبت ہوتی یا اسکے مذ ہبی تقدس کا ذرا بھی لحاظ ہو تا تو گائے کا گوشت برآمد (ایکسپورٹ)کر نے والی گوشت کمپنییوں کی راہ اتنی آسان نہیں ہو تی کہ بھارت میں ہندو مالکان کی ’’النور‘‘اور’’الکبیر ‘‘عرب ملکوں کو سب سے زیادہ گوشت برآمد کرنے کا ریکارڈ قائم کر لیتیں ۔۔
گائے سے محبت تو صرف بہانہ ہے اصل تو سیاسی فائدہ اٹھا نا ہے جو اس طرح کی مارپیٹ دھمکی اور جنون پسندانہ حرکتوں سے ہی ممکن ہے نا کہ بڑی کمپنیوں پر ہاتھ ڈال کے سوال یہ ہے کہ گائے کی یہ تصویر کس نے پیش کی کہ بے ضرر اور سادگی میں ضرب المثل جانور کو مہلک اور خوفناک ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا جا رہا ہے
کیا بی جے پی اور اسکی ہم نوا ہندو تنظیمیں ہی اسکی ذمہ دار ہیں؟،یا سیکولرازم کی سب سے بڑی دعویدار کانگریس پارٹی کا بھی اسمیں کو ء کردار ہے؟جواب یقیناًہاں میں ہے کیونکہ کانگریس نے ہی امتناعِ گؤ کشی قانون بناکر فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کو پریشان کرنے اور انکا استحصال کرنے کا خطرناک ہتھیار تھمایا ہے
ابھی سینکڑوں لوگ ایسے ہو نگے جنہوں نے پچاس ساٹھ برس پہلے کا وہ زمانہ دیکھا ہوگاجب نہ تو ہندو گؤ ذبیحہ کو اس قدر مکروہ سمجھتے تھے اور نہ ہی گاےء کے نام پر مارا ماری ہوتی تھی اور ملک کے اکثر حصہ میں بغیر کسی قانون کے گاےء کا ذبیحہ تقریبا بند ہی تھا ،لیکن ہندو فرقہ پرستوں کی خواہش کے مطابق کا نگریس نے مذہبی دلیل سے قطع نظر (ہندو ؤں کے یہاں گاےء کو مذہبی تقدس حاصل ہے کانگریس اپنے سیکولرازم کی بنا پر یہ نہیں کہ سکتی تھی کہ ہندو مذ ہب کی رعایت کرتے ہوےء گاےء کا ذبیحہ ممنوع قرار دیاجاےء اس سے اسکا سیکولر چہرہ مخدوش ہو جاتا)اقتصادیات ور معاشی دلیل کی بنیاد پر امتناعِ گؤ کشی کا بل لا کر مسلمانوں کے بد خواہوں کے ہاتھوں میں گاےء کی شکل میں میلک ہتھیار دیدیا،۔حالانکہ اقتصادی اور معاشی نقطہء نگاہ کا تقاضہ تو یہی تھا کہ جو گائیں دودہ دینے کے قابل نہ رہیں اور جو بیل کاشت کاری میں کام آنے کے لائق نہ رہے انکی خوراک بچانے کے لےء اور انکی کھال ہڈی اور گوشت کی قیمت اٹھانے کے لےء انکے ذبیحہ کی اجازت دیدی جائے۔یوپی اسمبلی میں کانگریس کی قیادت والی حکو.مت نے جب یہ بل پاس کیا تھا تو اس وقت کے ایک مؤقر اخبات نے اپنے اداریہ میں لکھا تھا
بالآخر ہندو فرقہ پرستوں کی دیرینہ آرزو پوری ہوء اور یوپی میں امتناعِ گؤ کشی کا قامون پاس ہو گیا ہندو فرقہ پرست کہتے تھے کہ گؤ ہماری ماتا ہے اور ہندو مذ ہب میں مقدس ومعبود ہے اس لےء اسکا ذبیحہ ممنوع ہونا چاہےء یوپی کی کانگریسی سرکار کو اس مذہبی دلیل کی بنیاد پر گاؤکشی ممنوع قرار دیتے ہوےء شرم آتی تھی کیونکہ وہ اپنے دعوی کے مطابق ایک خالص سیکولرحکو مت ہے اور اسکے کسی فیصلہ میں مذہبی رجحانات اور جذبات کا کوء دخل نہ ہو نا چاہےء اس لےء اس قانون کے جواز کے لےء اقتصادیات اور معاشیات کا سہارا لیا اور پھر ایسے ایسے دلائل اس کے حق میں دےء کہ عقل ومنطق غریب سر پیٹ کر رہ گئی۔
کانگریس اپنی دوہری پالیسی اور منافقت کی وجہ سے آج سڑکوں پر آگئی اسکی حالت پتلی ہوگئی صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی اسکی نمائندگی سمٹتی جا رہی ہے، کانگریس سے نہ تو وہ ہ دو احیا پسند افرامنسلک ہیں جنکو خوش کر نے کے لئے بابری مسجد کا سرکا ری تالا کھلواگیا اور نہ ہی وہ مسلمان کانگریس کے ساتھ ہیں جنکو ہمدردیوں کے نام پر سازشوں کا شکار بنایا گیا ۔اکثریت نے اسکو مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام دیکر ٹھکرادیا جبکہ اقلیت اس کے خفیہ طور سے ہندو توا ایجنڈہ پر عمل کر نے کی پالیسی کو سمجھ کر کنارہ کش ہوگئے اور کانگریس کی حا لت یہ ہو گء
زاہد تنگ نظر نے مجھے کا فر جانا
کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
(ملت ٹائمز

SHARE