مولانا سید احمد ومیض ندویؔ
دوڈھائی ماہ کی طویل تعطیلات کے بعد مدارسِ اسلامیہ کی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہو رہا ہے، ہرطرف جدید وقدیم داخلوں کی ہماہمی ہے، بہت سے اداروں میں باقاعدہ تعلیم شروع ہوچکی ہے، اضلاع اور اطراف واکناف کے تشنہ گانِ علوم ان مدارس کا رخ کر رہے ہیں۔
مدارسِ اسلامیہ ملک وملت بلکہ انسانیت کی تقدیر بدلنے میں کیا کچھ رول ادا کرسکتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بقول مولانا علی میاں ندویؒ ’’مدرسہ ہرمرکز سے بڑھ کر مستحکم، طاقتور، زندگی کی صلاحیت رکھنے والا اور حرکت ونمو سے لبریز ہے، اس کا ایک سرا نبوتِ محمدیﷺ کے چشمۂ حیواں سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے ان کشت زاروں میں ڈالتا ہے، وہ اپنا کام چھوڑ دے تو زندگی کے کھیت سوکھ جائیں اور انسانیت مرجھانے لگے، مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے، جہاں سے اسلامی آبادی؛ بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کار خانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے‘‘ (پاجا سراغِ زندگی: ۹)
مدرسہ بہت کچھ ہے، تاہم ایسا طاقتور، مستحکم، حرکت ونمود سے لبریز اور تعمیر انسانیت سے بھرپور مدرسہ اینٹ وپتھر یا درودیوار کا نام نہیں، مدارس کا سارا وجود اور ان کی قوتِ تاثیر ان میں تیار ہونے والے افراد سے وابستہ ہے، انسانی زندگی میں مدارسِ اسلامیہ کے رول کی نزاکت تمام تر اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کیسے افراد کو نسلِ انسانی کے لیے مہیا کر رہے ہیں، مدارس سے فارغ ہوکر نکلنے والے طلبہ زندگی کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ڈوبتی انسانیت کی نیا کو ساحل لگانے کی تمام ترذمہ داری انہیں کے کندھوں پر آپڑتی ہے، وراثتِ نبویﷺ کے حق کی ادائیگی وہ عظیم ذمہ داری ہے، جس کے تصور سے بدن پر رعشہ طاری ہونے لگتا ہے، جس ذمہ داری کو کسی زمانہ میں حضراتِ انبیاء علیہم السلام انجام دیا کرتے تھے، طالبانِ علوم نبوت دراصل اس کے امین ومحافظ ہیں، نبوت والی اس عظیم ذمہ داری کے قیام کے لیے کن اونچی ظاہری وباطنی صلاحیتوں اور کمالات کی ضرورت ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، ان صلاحیتوں کو مختصر الفاظ میں علم وعمل کے کمال سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، ایک طرف طالبانِ علوم نبوت کی اس عظیم ذمہ داری اور اس کے لیے مطلوب صلاحیتوں کی ناگزیریت ہے، دوسری طرف طلباءِ مدارس کا رلادینے والا علمی وعملی انحطاط ہے، اس علم وعمل کے روز افزوں انحطاط کے سلسلہ میں ایسا نہیں کہ ہمارے ذمہ دارانِ مدارس فکر مند نہیں ہیں، انہیں تو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ معیار میں زیادہ سے زیادہ بہتری آئے، لیکن ان کی یہ فکر مندی اور ساری جدوجہد اسی وقت ثمر آور ثابت ہوگی جب طلباء بھی حصولِ علم کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔
نصب العین اور مقصد کی بلندی کا احساس
حصولِ علم میں سب سے زیادہ معاون بننے والی چیز اس علم کے نصب العین اور اس کے بلند مقصد کا احساس وشعور ہے، دنیوی تعلیم میں جس قدر سرگرمی اور دلچسپی کا مظاہرہ ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ مقصد ونصب العین کا شعور ہے، طالبِ علم کو احساس ہوتا ہے کہ محنت کروں گا تو مستقبل میں ڈاکٹر بنوں گا یا انجینئر بنوں گا، مستقبل میں حاصل ہونے والے اس عظیم مقصد کا تصور ہی اس کو جدوجہد میں لگادیتا ہے، مدارس اسلامیہ کے اکثر طلبہ کی صورتِ حال یہ ہوتی ہے کہ ان کے پیش نظر کوئی نصب العین نہیں ہوتا، بہت سے طلبہ اس لیے اس میدان کا انتخاب کرتے ہیں کہ ان کے والدین کا اصرار ہوتا ہے، والدین چاہتے ہیں کہ بچہ حافظ بنے، عالم بنے، لیکن خود ان کا اپنا کوئی مقصد نہیں ہوتا، ایسے طلبہ مدارس میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، چوں کہ ان کا اپنا کوئی نصب العین نہیں، اس لیے نہ انہیں پڑھنے سے کوئی رغبت نہ ہی اوقات کی کوئی پابندی، نہ محنت، نہ جدوجہد، ایسے طلباءِ مدارس کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قرآن وحدیث کے جس علم کے حصول میں وہ لگے ہوئے ہیں، اس کا نصب العین دنیا کے تمام کاموں سے بلند ہے، اس کے بلند اور مہتم بالشان ہونیکے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ طالبِ علم وراثتِ نبویﷺ کا حقدار ہوتا ہے، وہ انسانیت کی تقدیر بدل سکتا ہے، اسی سے ہدایت وروحانیت کے چشمہ پھوٹتے ہیں، جس طالبِ علم کے ذہن میں دینی تعلیم کے اس عظیم مقصد کا استحضار ہوگا، وہ اپنی ساری توانائیوں کو علم کے لیے جھونک دے گا۔
اکثر طلباء کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ فارغ ہونے کے بعد مسجد کی امامت یا کسی مدرسہ کی مدرسی سے بڑھ کر ہم کیا کرسکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں محنت کی کیا ضرورت ہے، یہی وہ احساسِ کمتری ہے جس نے طلبہ کی تمام قوائے عمل کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خود کامیاب امام یاکامیاب مدرس کا دارومدار پختہ صلاحیت پر ہے اور امت کو آج کامیاب اور باصلاحیت ائمہ اور مدرسین کی سخت ضرورت ہے، تقریر وخطاب اور نئے پیش آنے والے مسائل میں امت کی صحیح رہنمائی ٹھوس کتابی اور علمی صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں، آج بھی مدارس میں کامیاب اساتذہ کی شدید قلت ہے، پھر اس سے بڑھ کر ایک قابل عالم دین مسجد یامدرسہ سے ہٹ کر ساری امت کی مختلف میدانوں میں رہنمائی کرسکتا ہے، آج پورے ہندوستان میں ہم ان علماء کی خدمات کو دیکھ رہے ہیں جو اپنے کمال کی وجہ سے پورے ملک کو مستفید کر رہے ہیں، احساسِ کمتری کو جب تک ختم نہ کیا جائے طلبہ میں اٹھان نہ پیدا ہوسکے گا۔
جہدِ مسلسل کی ضرورت: طالب علم کو علم کے بلند نصب العین کا احساس ہو تو پھر دوسرا مرحلہ ذاتی محنت کا ہے، علم ہی کیا کسی بھی کمال کے حصول کے لیے تمام تر بیرونی وسائل کے باوجود ذاتی محنت کی اشد ضرورت ہوتی ہے، دنیا نے جتنے باکمال اشخاص دیکھے ہیں، اس کے پیچھے ان کی ذاتی محنتوں کا بڑا دخل رہا ہے، نصب العین جتنا بلند ہوگا اسی قدر محنت میں زیادتی ہوگی، طلبِ علم کے سلسلہ میں ذاتی محنت پر زور دیتے ہوئے مولانا علی میاں ندویؒ نے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر فرمایا تھا: ’’آپ تاریخ کی شخصیتوں میں جس کا بھی نام لیں، جب آپ اس کی سیرت کا مطالعہ کریں گے اس کی زندگی کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں گے، تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے والی سب سے اہم اور بنیادی چیز اس کی ذاتی محنت، اس کی فکر ولگن، مقصد کی دھن اور اس کی تڑپ تھی، اس کے بغیر اگر اساتذہ چاہیں یا عظیم الشان ادارے اس کے لیے کوشش کریں، کسی کے بس میں کچھ نہیں، جو بھی بنا ہے اپنی ذاتی محنت اور جدوجہد سے بنا ہے، یقیناًاللہ تعالیٰ کی توفیق اور اساتذہ کی رہنمائی کی بھی ضرورت ہے، لیکن اگر اللہ کی توفیق شاملِ حال ہے تو پھر ذاتی محنت سے انسان اپنے آپ کو سب کچھ بناسکتا ہے‘‘ (پاجاسراغِ زندگی)
بہت ممکن ہے کہ بعض طلبہ ذہنی اعتبار سے کمزور ہوں، لیکن ذاتی محنت انہیں بڑے سے بڑے ذہین طلبہ کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے، امام ابوحنیفہؒ نے اپنے شاگرد امام ابویوسفؒ سے ایک مرتبہ فرمایا: ’’تم بہت کند ذہن تھے، مگر تمہاری کوشش اور مداومت نے تمھیں آگے بڑھادیا‘‘ اسی طرح امام طحاویؒ کے ماموں امام مزنی رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ امام طحاویؒ کو کند ذہن ہونے کی عار دلائی اور کہا: ’’خدا کی قسم تجھ سے کچھ نہ ہوسکے گا‘‘ امام طحاویؒ ابوجعفر احمد بن ابی عمران حنفیؒ کے درس میں شریک ہوگئے اور بڑی محنت سے علم حاصل کیا اور فقہ میں بڑی مہارت حاصل کی، انہیں ماموں نے پھر اس کند ذہن کو امام تسلیم کیا (بستان المحدثین بحوالہ آداب المتعلمین)
حصولِ علم میں محنت کے سلسلہ میں ایک مقولہ علماء میں کافی مشہور ہے کہ: ’’العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک‘‘ علم تم کو اپنا ایک حصہ بھی نہیں دے سکتا جب تک کہ تم پورے طور پر اپنے کو اس کے حوالہ نہ کرو، پچھلے زمانہ میں علماءِ سلف انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں جاں توڑ محنت کرتے تھے، مدارس کی جانب سے آج کی طرح قیام وطعام کا تو تصور ہی نہ تھا روشنی تک کے لیے پریشان ہوا کرتے تھے، سدِ رمق خوراک کے لیے حصولِ معاش کا بھی مسئلہ ہوا کرتا تھا؛ لیکن اس کے باوجود وہ حصولِ علم میں کوشاں رہتے تھے۔
اساتذۂ فن سے تعلق
ایک محنتی طالبِ علم کے لیے اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ بے ڈھب محنت میں لگا رہے، محنت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماہر فن استاذ کی رہنمائی میں ہو، بغیر رہنمائی کی محنت بسا اوقات ایک سنجیدہ طالبِ علم کو بھی علم سے مایوس کردیتی ہے، چوں کہ جب اسے محنت کے باوجود کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا تو وہ مایوس ہوکر تعلیم کو چھوڑنے کا فیصلہ کر بیٹھتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلبہ کا اساتذہ سے کتنا گہرا تعلق ہونا چاہیے، علم ایک ایسا جوہر ہے جو استاذ وشاگرد کے مکمل اشتراک ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، طلبہ کو چاہیے کہ وہ متعلقہ فنون کے ماہر اساتذہ سے ربط رکھیں اور فن سے متعلق ان کی رہنمائی میں محنت جاری رکھیں، تاریخ شاہد ہے کہ بہت سے مشاہیر علماء کو علم وفضل کا کمال اپنے بعض اساتذہ کی کامل توجہ سے حاصل ہوسکا، شبلی نعمانیؒ کی عنایت واہتمام سے علامہ سیدسلیمان ندویؒ کو پروان چڑھا، علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی توجہ نے سیکڑوں باکمال شاگردوں کو جنم دیا، امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد میں ابویوسفؒ اور محمدؒ جیسے امام وقت پیدا ہوئے، ہمارے دَور میں خود مولانا علی میاں ندویؒ کو جو مقام حاصل ہے، اس سے کون واقف نہیں، مولانا خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ’’پہلی چیز وہ ذاتی تعلق ہے جو مجھے اپنے اساتذہ سے رہا، وہ تعلق نہیں جو ضابطہ کی خانہ پری کے لیے ہو، بلکہ وہ تعلق جو شب وروز کا تھا، اس تعلق کو میرے مخلص اساتذہ بھی محسوس کرتے تھے اور میں بھی اس کو محسوس کرتا تھا، یہ وہ پہلی چیز ہے جس نے مجھے بہت نفع پہنچایا اور میں نے جو کچھ حاصل کیا وہ اسی کا صلہ ہے‘‘ (پاجاسراغِ زندگی: ۳۴)
مطالعہ کا اہتمام
مطالعہ طالبِ علمانہ زندگی کا نچوڑ اور اس کا ایک عنصر ہے، اسی سے اس کے علم کی نکھار ہے، اسی سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، اوّل تا چہارم کے سالوں میں طلبہ کو اگر درسی اور نصابی کتابوں پر توجہ مرکوز کرنی ضروری ہے، تو اس کے بعد والے سالوں میں خارجی مطالعہ پر زور دینا چاہیے، ابتدائی سال کتابی صلاحیت میں پختگی پیدا کرنے کے ہوتے ہیں، ان میں تو طلبہ کو درسی کتابوں پر ہی توجہ دینی چاہیے، صرف ونحو میں استحکام اور عبارت خوانی میں کمال پیدا ہونے کے بعد اخیر کے سالوں میں جہاں طلبہ تفسیر وحدیث کے تفصیلی مضامین پڑھتے ہیں، متعلقہ فن کی غیردرسی کتابوں کے مطالعہ کا اہتمام کرنا چاہیے، قاری صدیق احمد باندوی علیہ الرحمۃ نے علماء واسلاف کے مطالعہ کی سرگذشت بڑی تفصیل سے لکھی ہے: حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں ’’میں ایک دفعہ ساری رات امام محمد کے یہاں رہا، آپ کی ساری رات اس طرح گذری کہ کچھ دیر مطالعہ کرتے پھر لیٹ جاتے، پھر اٹھ جاتے اور مطالعہ کرنے لگتے، جب صبح ہوئی تو آپ نے فجر کی نماز پڑھی، جس سے معلوم ہوا کہ ساری رات باوضو رہے اور جاگتے رہے‘‘۔
لکھا ہے کہ امام محمدؒ بہت کم سوتے تھے، اکثر حصہ مطالعہ میں گذارتے، بعض احباب نے کم خوابی اور زحمت کشی کی وجہ دریافت کی، تو فرمایا: ’’کیف أنام وقدنامت عیون المسلمین توکلا علینا یقولون إذا وقع لنا أمر رفعناہ إلیہ، فیکشفہ لنا، فإذا نمت ففیہ تضییع الدین‘‘ ’’سب لوگ تو اطمینان پر سورہے ہیں، کہ جب کوئی مسئلہ پیش آجائے گا تو ہم جاکر اس (امام محمدؒ ) سے معلوم کرلیں گے، اب اگر میں بھی سوجاؤں اور دینی کتابوں کا مطالعہ نہ کروں تو اس میں دین کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے‘‘ علماءِ سلف کے ایسے سیکڑوں واقعات ہیں، آج کل مدارس کا حال یہ ہے کہ اوّل تو مطالعہ کا ذوق نہیں، اگر بعض طلبہ میں کچھ رحجان ہے بھی تو ناقص، نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ درسی کتابوں سے ہٹ کر خارجی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، قرآن وحدیث اور فقہ وسیرت کی بنیادی معلومات بھی ناقص ہوتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ ذوقِ مطالعہ کی کمی ہے، مدارس میں جس طرح تدریسی کتابوں کا نظام ہے، اسی طرح مطالعہ کی کتابوں کا بھی مستقل کورس ہونا چاہیے، مختلف درجوں کے اعتبار سے کتابیں متعین کی جائیں اور اس سلسلہ میں اساتذہ کی پوری سرپرستی حاصل رہے، اکثر طلبہ اپنے زیادہ اوقات درسی کتابوں کے مذاکرہ میں صرف کرتے ہیں اور انہیں شکایت ہوتی ہے کہ خارجی مطالعہ کے لیے وقت نہیں مل پاتا، اس طرح کی بات اوقات کی ترتیب وتنظیم نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، طالبِ علم کو مطالعہ اور دیگر علمی کاموں کے لیے اوقات متعین کرلینا ہوگا، درسی کتابوں کے مذاکرہ کا وقت الگ ہو، خارجی کتابوں کے مطالعہ کا الگ ہو، مقالہ نگاری یامضمون نویسی کا ایک وقت مقرر ہو، تقریر وخطابت کی تیاری کا الگ نظام ہو، اس طرح جب ہرکام کا وقت مقرر ہوگا تو اوقات میں غیر معمولی برکت ہوگی۔
طلباءِ مدارس میں تضییعِ اوقات کی بڑی غلط رسم پائی جاتی ہے، جمعہ اور جمعرات کی تعطیل کے اوقات تو گذرہی جاتے ہیں، ساتھ ہی تعلیم کے ایام میں بھی بڑی بے دردی سے وقت ضائع کیا جاتا ہے، مطالعہ کی عادت اوقات کی حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے، ابتداء میں مطالعہ بڑا شاق گذرے گا، لیکن چسکہ لگنے کے بعد اس میں سکون ملنے لگے گا۔
کسی خاص فن میں اختصاص
مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ طلباءِ مدارسِ اسلامیہ سے خطاب کے دوران خصوصیت کے ساتھ دوچیزوں پر توجہ دیا کرتے تھے، اخلاص، اختصاص، جہاں تک اخلاص کی بات ہے وہ اگر عام لوگوں کے لیے ضروری ہے تو علماء اور طلباء کے لیے اشد ضروری ہے، اخلاص کا اثر جہاں اعمال پر پڑتا ہے، وہیں طلبہ کی استعداد وصلاحیت اور علمی کمال پر بھی پڑتا ہے، دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کے کمال کے پیچھے اخلاص ہی کار فرما رہا ہے، طلبہ کو دورانِ تعلیم اخلاص کی عملی مشق کی کوشش کرنی چاہیے، اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے، اس کے لیے ابھی سے کسی شیخِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے دینا چاہیے، اعمال واخلاص کے سلسلہ میں یہ خیال کہ فراغت کے بعد توجہ دی جائے گی انتہائی غلط ہے، حضرت تھانویؒ اور ان کے خلفاء خصوصیت کے ساتھ طلبہ کو اس معاملہ میں تاکید فرمایا کرتے تھے، دوسری چیز اختصاص ہے، موجودہ دَور اختصاص کا دَور ہے، اس دَور میں وہی شخص اپنی افادیت ثابت کرسکتا ہے جو کسی فن میں اختصاص رکھتا ہو اور اس مقام پر پہنچ چکا ہو جہاں لوگ اس کے محتاج ہو جائیں، ویسے طلبہ کو ہرکتاب میں محنت کرنی چاہیے، تاہم جس فن سے ان کو خصوصی دلچسپی یامناسبت ہو، دورانِ تعلیم ہی سے اس میں خصوصی محنت شروع کرنی چاہیے، متعلقہ اساتذہ کی نگرانی میں اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، اس کا اثر یہ ہوگا کہ فراغت تک فن سے غیر معمولی تعلق پیدا ہوگا اور بعد میں مستقل اس کورس میں حصہ لینا بھی آسان ہوگا۔
نئے تعلیمی سال کے آغاز پر طلبہ یہ اور ان جیسی باتوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، تو بہت ممکن ہے کہ پورے سال کی صحیح قدر ہو اور بہت سی خامیوں کی اصلاح ہو جائے، چوں کہ سال کے آغاز پر طلبہ جو کچھ طے کرلیتے ہیں سال بھر اس کا اثر رہتا ہے، آغازِ تعلیم کے موقع پر بعض کتابوں کا مطالعہ بھی بڑا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔جیسے: پاجاسراغِ زندگی، از مولانا علی میاں ندویؒ (۲)آداب المتعلمین، ازحضرت قاری صدیق احمد باندوی علیہ الرحمۃ (۳)اخلاق العلماء، از امام ابوبکر آجریؒ (۴)آپ بیتی، از شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاؒ (۵)بنیادِ اصلاح، افادات حضرت حکیم الامتؒ وغیرہ(۲۶؍جنوری ۲۰۰۱ء: مرتبہ جناب عبدالستار صاحب) ۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار دار العلوم حیدرآباد میں استاذ حدیث ہیں)