ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے مالدیپ سے واپسی کے بعد 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزارسے زائد الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ،ہر چار روز بعد تقریبا 15 سو الفاظ پر مشتمل ایک قسط شائع کی جائے گی ، دیگر اخبارات کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ آج سفرنامہ کی دوسری قسط ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر
شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ )
اندراگاندھی انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے روانگی
نئی دہلی ایئر پورٹ سے تقریبا صبح کے چار بجے ابوظہبی کیلئے ہماری روانگی تھی ،نئی دہلی ایئر پورٹ کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین ہوائی اڈہ میں ہوتاہے ،ایئر پورٹ کا رقبہ بھی کافی وسیع اور لمبا چوڑا ہے ،دنیا کے کئی ممالک کے لوگ مختلف انداز اور جداگانہ کلچر کو اختیار کئے ہوئے یہاں مل جاتے ہیں،ہندوستان کے مزاج کے مطابق یہاں زیادہ بھیڑ دیکھنے کو نہیں ملی ،عموما یہ تصور ہے کہ ہندوستان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ضرروت سے زیادہ بھیڑ نہ ملے ،ریلوے اسٹیشن ،میٹرو اسٹیشن ،بس اسٹوپ اور اس طرح کے دیگر سبھی مقامات پر بے انتہاء بھیڑ ہوتی ہے ،ایئر پورٹ پر ایسی صورت حال نہیں تھی اور ایسالگ رہاتھاکہ ایئر پورٹ کی بھیڑ حکومت کے قابو میں ہے ۔
امیگریشن کاؤنٹر پر کرپشن
ہندوستان میں عموما ایئر پورٹ کے عملہ کا رویہ بہتر ہوتاہے ،دیگر مقامات کے مقابلے میں ایئر پورٹ پر تعینات عملہ مسافروں سے بغیر کسی تفریق کے اخلاق ومحبت کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں لیکن کبھی بھی یہاں بھی دیگر محکموں جیسی صورت حال کا سامنا کرناپڑتاہے ،مسافروں کو پریشان کرنے ،ان سے رشوت کے نام پر رقم لینے کی کوشش کرتے ہیں ،چناں چہ امیگریشن کے دوران مجھے بھی اس صورت حال کا سامنا کرناپڑا ، امیگریشن کاؤنٹر پر ایک فارم پر کرکے جمع کرناپڑتاہے ،فارم پاسپورٹ سائز سے کچھ چھوٹاہوتاہے جس میں نام ،پتہ موبائل نمبر اور دیگر ضروری چیزیں لکھی ہوئی ہوتی ہیں،دستخط کا کالم بھی ہوتاہے ،اس فارم پر بوڈنگ اسٹاف کے دستخط اور مہر کا کوئی کالم نہیں ہوتاہے اور نہ ہی عموما کرایا جاتاہے ،مالدیپ کے پہلے بین الاقوامی سفر سے مجھے بہت سی چیزوں کا تجربہ بھی ہوچکا تھا ،اس لئے مالدیپ جاتے وقت جس انداز سے ہم نے فارم پر کیاتھا اسی طرح یہاں بھی ہم نے فارم پر کردیا ،ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی کا فارم بھی ہم نے ہی پر کیا ،جس وقت میں فارم پر کررہاتھا اس وقت ایک خاتون بھی آگئیں اور کہنے لگیں کہ میرا فارم پرکردے مجھے معلوم نہیں کہاں کیا کیا لکھاجائے گا ،بہر حال میں نے وہ کردیا ،امیگریشن ہال میں کافی بھیڑ تھی ،تقریبا دس بارہ لائنیں لگی ہوئی تھی ،دس کاؤنٹر زبھی نظر آرہے تھے ،بزنس کلاس والوں کیلئے علاحدہ کاؤنٹر تھا اس لئے مفتی صاحب کو لائن میں لگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ،لائن سے گزرنے کے بعد شہاب الدین صاحب الگ کاؤنٹر پر گئے میں الگ کاؤنٹر پر گیا ،امیگریشن کاؤنٹر پر پاسپورٹ ،ویزا اور ٹکٹ چیک کرنے کے بعد اسٹاف نے کہاکہ فارم آپ کا ناقص ہے میں نے کہاکہ کیا مطلب انہوں نے کچھ دیر کی خاموشی اختیار کرنے کے بعد جواب دیا بورڈنگ اسٹاف کا دستخط نہیں ہے ،میں نے کہاکہ اس پر دستخط نہیں ہوتاہے سب لوگ اسی طرح جمع کررہے ہیں ، اس سے قبل میں نے یونہی جمع کیا ہے ،اس نے میری باتوں پر کوئی توجہ دیئے بغیر دوسرے مسافر میں مشغول ہوگیا ،میں اس سے الجھے بغیر دوڑتاہوا بوڈنگ اسٹاف کے یہاں گیا،وہاں کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون سے میں نے کہا،یہاں آپ کو دستخط کرناتھا لیکن آپ کے نہ کرنے کی وجہ سے مجھے آنا پڑا ،انہوں نے کہاسر یہ دستخط عموما نہیں ہوتاہے ،تکلیف کیلئے معذرت ،اب آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی،وہاں اور بھی کئی مسافردکھے جسے ان کے فارم پر دستخط نہ ہونے کی بناپر امیگریشن کاؤنٹر سے واپس کیا گیاتھا ۔یہ بات میرے ذہن میں مسلسل کھٹک رہی تھی کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا ،بعدمیں مفتی صاحب نے بتایاکہ دراصل مسافروں کو پریشان کرنے اور ان سے پیسہ لینے کیلئے امیگریشن والے یہ سب کرتے ہیں ،نئے لوگوں کوخاص طو ر پر اس طرح پریشان کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دیگر لوگوں کے ساتھ ایسانہیں کیا گیا ،متحدہ عرب امارات کا سفرنامہ لکھتے وقت ان باتوں کا تذکرہ اور ایئر پورٹ عملہ کا رویہ میں ہندوستان کی اصل تصویر دکھانے کیلئے لکھ رہاہوں کہ رشوت ،کرپشن ،بے ایمانی سے ملک کا ایئر پورٹ بھی محفوظ نہیں ہے ، امیگریشن جیسے کاؤنٹر پر بیٹھ کر یہ دھندا کیا جاتاہے ،جہاں دنیا بھر کے لوگ ہوتے ہیں ،مختلف ممالک کے مسافرین ہوتے ہیں ۔
فیس بک پرسفرکی اطلاع
امیگریشن سے فراغت مل جانے کے بعد ہمیں ایک طرح کا اطمینان محسوس ہوا،ایسا لگاکہ اب سفر یقینی ہوگیا ہے ،آگے کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی ،جس سرزمین پر ہم جارہے ہیں وہاں ایسا نہیں ہوگا ،بہرحال یہی سب سوچتے ہوئے ہم لاؤنج میں آکر بیٹھ گئے ،لاوئج کا یہ حصہ کافی خوبصورت اور دیدہ زیب تھا ،آرام دہ اور خوبصورت کرسیاں لگی ہوئی تھیں،ایک دو سیلفی بھی ہم نے یہاں سے لی ،ایئر پورٹ پر وائی فائی کی سہولت تھی جسے استعمال میں لاتے ہوئے وہیں سے ہم نے فیس بک پر ایک اسٹیٹس بھی اپڈیٹ کردیاکہ’’ ایک پروگرام میں شرکت کی غرض سے دبئی جانا ہورہاہے آپ تمام احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے ‘‘ میرے دبئی سفر کے بارے میں سوائے دوتین لوگوں کے کسی کو پتہ نہیں تھا اس لئے بھی ہم نے ضروری سمجھتے ہوئے فیس بک پر یہ اطلاع شیئر کردی ،فیس بک پر میرا یہ اسٹیٹس اب تک کاسب مقبول پوسٹ ثابت ہواہے ،تقریبا 500 سو کے قریب اسے لائکس ملے ہیں،بڑی تعدادمیں دوستوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔
آئی جی ایئر پورٹ پر مسجد کی سہولت
کچھ دیر لاؤنج میں بیٹھنے کے بعد ہم نے مسجد کا رخ کیا ،نئی دہلی ایئر پورٹ پر دیگر تمام سہولیات کے ساتھ چھوٹی سی جگہ مسجد کیلئے مختص ہے ،ساتھ میں چھوٹا سے وضوخانہ ہے ،مسجد کی صفائی ستھرائی کیلے مستقل طور پر ایک اسٹاف معمور ہے ،مسجد میں قبلہ کی سمت بتانے کیلئے لکڑی کاایک چھوٹا سے محراب بھی رکھا ہواہے ،وہاں دورکعت نماز صلاۃ السفر اداکی ،کچھ دیر وہیں بیٹھے، نئی دہلی میں دومیسٹک ایئر پورٹ پر بھی مسجد کی سہولت ہے ۔بہر حال بوڈنگ شروع ہونے کے بعد فلائٹ میں جاکر ہم لوگوں نے اپنی جگہ لے لی اورزبان پر سفر کی دعاؤں کا ورد کرتے ہوئے جانب منزل رواں دواں ہوگئے۔
سرزمین عرب پر پہلی نظر
رات کا وقت تھا ،فلائٹ سے باہر اندھیر اہی اندھیرا تھا ، اس لئے باہر دیکھنے اور کھڑکی سے جھانکنے کے بجائے اندرونی حصہ کے نظارہ پر اکتفا کرناپڑرہاتھا ،اس فلائٹ میں ہر سیٹ پر ٹی وی کی سہولت نہیں تھی،چارپانچ سیٹوں کے فاصلہ پر اوپر میں ٹی وی لگی ہوئی تھی جس کا ریموٹ کنٹرول کیپٹن کے اختیار میں تھا ،نیند کا غلبہ تھا ،ایک پل بھی سونے کا موقع نہیں مل سکا تھا ،اس لئے مجھے نیند آگئی ،جب آنکھ کھلی تو فلائٹ ابوظہبی کے اطراف میں پہونچ چکی تھی ،متحدہ عرب امارت کے وقت مطابق صبح کے چھ بجے اور ہندوستانی وقت کے مطابق صبح کے آٹھ بجے ابوظہبی ایئر پورٹ پر فلائٹ لینڈ کررہی تھی ،صبح کی روشنی میں جہاز کی کھڑکی سے عرب کا صحراء نظر آرہاتھا ،کہیں کھجور کے باغات دکھ رہے تھے ،کہیں سمند نظر آرہاتھا ،بلند وبالات عمارتیں نگاہوں سے ٹکرارہی تھیں ،جیسے جیسے فلائٹ سطح زمین سے قریب ہورہی تھی چیزیں صاف دکھ رہی تھیں،انہی نظاروں کے درمیان فلائٹ ابوظہبی ایئر پورٹ لینڈ ہوگئی۔
ابوظہبی ایئر پورٹ
ایئر پورٹ کا رقبہ کا فی وسیع اور لمباچوڑا معلوم ہورہاتھا ،کئی یورپین ممالک کی ایئر لائنز وہاں کھڑی تھیں،وہاں پر مجھے اردن اور اور لبنان ایئر لائنزکی جہازیں بھی کھڑی دکھی ،ایئر پورٹ کے زیادہ تر عملہ غیرملکی لگے ،کیرالا سے تعلق رکھنے والے بڑی تعدا د میں نظر آئے ،جہاز سے اتر کر ابوظہبی ایئر پورٹ کی یادگار کو محفوظ رکھنے کیلئے فلائٹ کے ساتھ میں نے ایک سیلفی لینی چاہی ،ابھی کلک بھی نہیں ہواتھا کہ سامنے سے ایک زوردار آواز میری کانوں سے ٹکرانے لگی ،نظر اٹھایا تو دیکھاکہ ایئر پورٹ اسٹاف مجھے سیلفی لینے سے منع کررہے ہیں اور فورا بس میں جانے کو کہ رہے ہیں،شکل وصورت سے یہ کیرالا کے لگ رہے تھے ،انتہائی مستعد ی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے ،جہاز کے سامنے الاتحاد کی بس کھڑی تھی ،الاتحاد خلیجی ممالک کی بہت بڑی کمپنی ہے ، دنیا کے بیشتر ممالک کیلئے اس کی پرواز ہے ، ہندوستانی ایئرکمپنی جیٹ ایئر ویز سے اس کا اتحا د ہے ،اس لئے ہندوستان میں الاتحاد کی فلائٹ جیٹ ایئر ویز کے حلقہ میں لینڈ کرتی ہے اور گلف میں جیت ایئر ویز کا تمام کام الاتحاد کی نگرانی میں ہوتاہے۔تقریبا بس کے دس منٹ چلنے کے بعد ہم لوگ الاتحاد ژون میں پہونچے اور کچھ راستہ طے کرنے کے بعد امیگریشن ہال میں پہونچ گئے ،
عرب کی سرزمین پر عربی بولنے کا خواب
یہاں تقریباسات لائنیں لگی ہوئی تھی جو پانچ کاؤنٹر زپر جاکر ختم ہورہی تھی،کس لائن میں کھڑا ہونا ہے یہ سمجھنا مشکل تھا ،اتفاق سے وہاں جبہ میں ملبوس ایک شخص پر نظرپڑی ،نقل وحرکت سے معلوم ہورہاتھا کہ یہ اسٹاف ہیں ،چناں چہ میں نے سوچا کہ عرب کی سرزمین پر کسی عربی سے عربی زبان میں گفتگو کرنے کا یہ بہت اچھا اور پہلا موقع ہے ،عربو ں سے گفتگو کرنے کا بارہا اتفاق ہوا لیکن عرب کی سرزمین پر پہلا اتفاق تھا اس لئے میں نے عربی زبان استعمال کرتے ہوئے ان سے پوچھاکہ غیرملکیوں کیلئے کونسی لائن ہے ،میراجملہ سننے سے قبل وہ سمجھ گئے کہ یہ ہندوستانی ہے اور اردوزبان میں کہاکہ اس لائن میں کھڑے ہوجاؤ ۔
امیگریشن کاؤنٹڑ پر ہر ایک کا پاسپورٹ چیک کرنے او ر مہر لگانے کا ساتھ آئی اسکین ہورہاتھا،آنکھوں کا اسکین یہاں لازمی ہے ،اسکین کے بعد متحدہ عرب امارات میں داخل ہونے والے ہر شخص کا مکمل ڈاٹا محفوظ ہوجاتاہے ،اس کی تمام نقل وحرکت پر نظر رہتی ہے ،اگر وہاں کوئی غلط کرتاہے اور پولس میں اس کی رپوٹ ہوجاتی ہے تو اس اسکین کی وجہ سے واپسی میں اسے گرفتار کرلیا جاتاہے ،وہاں قیام پذیر سے کسی غیرملکی سے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے ،مثلا وہ بجلی کا بل پے نہیں کرتے ہیں،یاکمپنی کے اصول کے خلاف روزی کرتے ہیں،ان پر تاوان کی کوئی رقم باقی ہوتی ہے تو نکلتے وقت ایئر پورٹ پر آئی اسکین کی وجہ سے انہیں پکڑلیاجاتاہے اور ضروری کاروائی کے بعد ایسے مسافر کے پاسپورٹ پر ایکزٹ کا مہر لگایا جاتاہے۔
ایئر پورٹ پر عرب ثقافت کی نمائندگی
امیگریشن کاؤنٹر پر معمور تمام اسٹاف عرب تھے اور عربی لباس جبہ میں ملبوس تھے ،کسی کے چہرے پر ڈاڑھی تھی تو کسی کے نہیں تاہم سبھی عربی تہذیب وثقافت کو اپنا ئے ہوئے تھے ،نرمی اور خوش اخلاقی کے ساتھ ہر ایک مسافر سے گفتگو کررہے تھے ،چہرے پر مسکراہٹ تھی ،خبر خیریت بھی معلوم کررہے تھے ،میں نے انہیں سلام کیا تو مسکراتے ہوئے جواب دیا اور کہاکیسے ہو۔
زندگی میں پہلی مرتبہ کسی جبہ بردار کو ایئر پورٹ اور امیگریشن جیسے اہم کاؤنٹر پر کام کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے بے پناہ خوشی ہوئی ،یہ لگاکہ ہمارا لباس ،ہماری تہذیب ،ہماری ثقافت صرف مسجد اور مدرسہ تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہر جگہ موجود ہے ،جبہ پہننے والے امامت وخطابت اور اسلامیات کی تدریس کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ دنیا کا دیگر کام بھی کرتے ہیں ،بھلے ہی ہندوستان میں یہ صرف مولوی اور امام کا یونیفارم ہے لیکن عرب میں یہی لباس بادشاہ وقت ،وزیر اعظم ،وزیر ،جج ،افسر ،ڈاکٹر ،پولس اور دیگر کا یونیفارم ہے ،عربوں نے بہت کچھ کھونے کے بعد بھی اپنی تہذیب وثقافت کو برقراررکھنے کی کوشش کی ہے ،یورپین کلچر کو اپنانے کے بجائے وہ اپنا کلچر اپناتے ہیں، تمام محکموں میں عرب اسٹاف کو عربی لباس پہننے کی ہدایت ہے ،خواتین اور لڑکیاں بھی برقعہ پہن کر ڈیوٹی انجام دیتی ہیں،عربوں کی یہ سب سے نمایاں خوبی ہے ،یورپ اور مغرب کی طرف پوری دنیا کے مائل ہوجانے کے باوجود ایئر پورٹ پر اپنی تہذیب وثقافت کی نمائندگی قابل فخراور لائق صد ستائش ہے ،اسلامی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کے اس جذبہ کو میں صد سلام کرتاہوں۔(جاری)
اس سفرنامہ کی پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں