شمس تبریز قاسمی
ایران دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کا پرانا نام فارس ہے ۔ ماضی بعید میں دنیا کی دو سپر پاور طاقتوں میں سے ایک کا یہ مرکز بھی تھا اور پورے خطے پر اس کا اثرو رسوخ تھاتاہم امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں یہ پورا خطہ مسلمانوں نے فتح کرکے اسے اسلامی سرزمین میں تبدیل کردیا اور یہاں کی ساسانی سلطنت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوگیا ۔ تاریخ اسلام کی مشہورلڑائی جنگ قادسیہ اسی سرزمین پر لڑی گئی تھی جس کے سپہ سالا ر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ تھے دوسری طرف کا سپہ سالا ر مشہور پہلوان رستم تھا جس کی بہادری ، طاقت اور شجاعت کا پوری دنیا میں چرچاتھا لیکن جنگ کے دوران مارا گیا اور اس کی فوج کی بدترین شکست ہوئی حالیہ دنوں میں یہ جگہ عراق میں واقع ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کی سربراہی میں بھی متعدد جنگیں یہاں ہوئی اور بالآخر یہ خطہ اسلامی فتو حات کے دائرے میں آگیا ۔ یہاں کے پارسیوں نے اسلام قبول کرلیا اور یوں یہ ایک عظیم اسلامی ملک بن گیا ۔ خلافت بنو امیہ کے خاتمہ اور خلافت عباسیہ کے قیام کے دوران یہی علاقہ بنیادی مرکز بنا ہوا تھا ۔ تاریخ اسلام کی مشہور سرزمین خراسان کا بیشتر حصہ ایران میں ہی واقع ہے جسے خلافت عباسیہ کے قیام کے وقت مرکزی ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل تھی ، ابو مسلم خراسانی کا علاقہ بھی یہی تھا ۔ عالم اسلام پر دو صدی سے زیادہ تک مضبوطی کے ساتھ حکومت کرنے والی سلجوقی سلطنت کا دارالخلافہ شہرے رے اور اصفہان بھی ایران میں ہی واقع ہے ۔ امام فخر الدین رازی ، امام غزالی ،امام طوسی، ابن سینا سمیت دسیوں ماہرین فلسفہ ، فقہاء ، مجتہدین ، مفسرین ، محدثین اور صوفیاء کرام کی آماجگاہ بھی یہی ایران ہے ۔معروف بزرگ اور مولانا جلال الدین رومی کے شیخ مولوی شمس تبریزی رحمتہ اللہ علیہ کا وطن بھی ایران میں واقع صوبہ تبریز ہی تھا ۔ خاندان نبوت کے اہم چشم و چراغ اور شیعوں کے آٹھویں امام حضرت علی رضا کا مقبرہ بھی ایران کے مشہد میں واقع ہے جنہیں خلیفہ مامون الرشید نے اپنا ولی عہد بنایا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے خلافت کا حق اس کے حقدار کے حوالے کردیا ہے لیکن ممکن نہیں ہوا اور زہر دیکر شہید کردیا گیا ۔
ایران کا جائے وقوع بھی بے انتہاء اہمیت کا حامل ہے اور اسی وجہ سے پوری دنیا کی توجہ ایران پر مرکوز رہتی ہے ۔ ایران جنوب مغربی ایشا میں واقع ہے جسے مشرق وسطی کہاجاتاہے ۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان۔ مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ایران کا کل رقبہ 1648195 کیلومیٹر ہے جبکہ یہاں کی کل آبادی 8 کروڑ کے قریب ہے ۔اسلامی فتوحات سے قبل بھی یہ علاقہ عالمی سیاست کا مرکز تھا اور صدیوں پرانی تاریخ تھی ، اسلامی ریاست کا حصہ بننے کے بعد بھی یہ عالمی سیاست کا مرکز رہا سائنس اور علم کے فروغ میں اس علاقہ نے نمایاں کردار ادا کیا ۔خلافت بنو امیہ کے خاتمہ اور عباسیوں کو اقتدار سونپنے کی تگ ودو سب سے زیادہ اسی خطہ کے لوگوں نے کی ۔ خلافت عباسیہ کے دور عروج میں حکومت ، اقتدار ، علم اور دیگر شعبوں کے اختیارات ایرانی قوم کے پاس ہی تھے ، خلافت عباسیہ کا جب دور زوال شروع ہوا تو طاقت ترکوں کی سلجوقی سلطنت کے پاس منتقل ہوگئی، اس دوران ایران نشیب و فراز کے دور سے گزرتا رہا، چنگیز خان اور اس کے پوتے ہلاکو خان نے اس علاقہ پر فوج کشی کرکے کم و بیش 10 ملین بے گناہوں کا قتل عام کیا ۔ چودھویں صدی میں تیمور لنگ نے یہاں حکومت قائم کی ، اس کے بعد صفوی حکومت کا دورہ شروع جس کی بنیاد شاہ اسماعیل نے رکھی اور ایران کی شناخت ایک شیعہ اکثریتی ملک کے طور پر ہوئی ۔ اس سے قبل ایران دیگر ممالک کی طرح ایک عالم اسلام کا ملک سمجھا جاتا تھا سولہویں صدی کے آغاز میں 1501 میں شاہ اسماعیل نے صفوی سلطنت کی بنیاد رکھی اور ایران کو سرکاری طور پر ایک شیعہ ملک قرار دیا ۔ اٹھارہویں صدی میں صفوی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ، ایران اور روس کی درمیان شدید جنگ ہوتی رہی ، پھر برطانیہ نے قبضہ کرلیا ، بیسوی صدی کے آغاز میں پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکی حمایت کے ساتھ رضا شاہ پہلوی نے پہلوی سلطنت کی بنیاد رکھی، پہلوی سلطنت ملکی مفاد کی جگہ امریکی مفاد ات کو ترجیحی دیتی تھی، اسرائیل کے قیام میں بھی پہلوی حکومت نے خصوصی کردار نبھایا تھا، امریکی مفادات کی تکمیل کیلئے عوام کو تختہ مشق بنانے سے بھی پہلوی حکومت گریز نہیں کرتی تھی ، ایرانی قوم پر مظالم ڈھائے جاتے تھے ، اپنے ہی گھر میں غلامانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا تھا چناں چہ جب ظلم و زیادتی اور امریکی غلامی جب حد سے بڑھ گئی تو علامہ روح اللہ امام خمینی کی سربراہی میں ایرانی عوام نے رضاہ شاہ کے خلاف بغاوت کا بگل بجادیا اور یوں پہلوی حکومت کا 1979 میں خاتمہ ہوگیا ، امام خمینی کی قیادت میں عوامی جدوجہد نے ایک عظیم انقلاب برپا کردیا ، ایران امریکی غلامی سے مکمل طور پر آزاد ہوکر ایک اسلامی جمہوری ملک بن گیا اور اب وہ دنیا بھر کیلئے ایک نظیرمثال اور آئیڈیل ملک بن چکا ہے ۔ ایران دنیا کا ایک ایسا ممتاز ملک ہے جہاں اقتدار پر علماء کرام کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور اس فہرست میں اب افغانستان بھی شامل ہوگیا ہے جہاں علماءکرام کی حکومت ہے ۔
Freedom Tower of Tehran pic.twitter.com/QEE5HpwFGF
— Shams Tabrez Qasmi (@ShamsTabrezQ) March 1, 2022
خلاصہ کلام یہ کہ تاریخ اسلام کا ایران سے گہرا رشتہ ہے ۔ عالم اسلام اور اسلامی فتوحات ، علمی خدمات اور مسلمانوں کے سنہرے دور کی تاریخ ایران کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے ۔ اسلامی تاریخ کو سمجھنے اور جاننے کیلئے ایران جانا اسے قریب سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ خاص طور پر تاریخ اسلام کے طالب علم کی یہ بنیادی خواہش ہوتی ہے کہ تاریخ کے صفحات پر جن اہم مقامات ، علاقوں اور صوبوں کا تذکرہ موجود ہے وہاں جانے کا موقع مل جائے ۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے دوران میری بھی شدید خواہش رہتی تھی کہ جن علاقوں اور ملکوں کے بارے میں ہم پڑھ رہے ہیں کاش ان سرزمینوں پر کبھی قدم رکھنے کا موقع مل جائے ۔ الحمد للہ میری یہ خواہش پوری ہوئی۔ دو ماہ قبل ایران کلچرل ہاوئس سے ایک فون آیا کہ صحافیوں کا ایک وفد ایران جارہا ہے جس میں ہم آپ کی بھی نمائندگی چاہتے ہیں ۔ اس تعلق سے میرے ذہن میں یہ باتیں بھی گردش کرتی رہتی تھی کہ ایران میں کیسے اسلامی انقلاب برپا ہوا ، آج سے چالیس سال قبل امریکی حمایت فوج کو عام مسلمانوں نے کیسے شکست سے دوچار کردیا ، ایران شدید پابندیوں کے باوجود کیسے ترقی کررہاہے ، ایران کی کامیابی کا راز کیا ہے ، ایران کا جمہوری نظام کیسا ہے ؟ ایرا ن امت مسلمہ کیلئے کیا کارنامہ انجا م دے رہا ہے ۔ مسجد اقصی کی آزادی کیلئے ایران کیا کوششیں کررہا ہے ۔ ایران کی خارجہ پالیسی کیا ہے ۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کیسے ہیں ۔ ان تمام امور کو قریب جاکر سمجھنا ، جاننا اور آگاہی حاصل کرنا چاہییے ،مشرق وسطی کے حالات میں خصوصی دلچسپی کی وجہ سے بھی اس طرح کی باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہتی تھیں ،
ईरान में मीडिया पूरी तरह से स्वतंत्र, पश्चिमी मीडिया लगातार हमारे खिलाफ झूठी खबरें कर रही है प्रसारित: सूचना एवं प्रसारण मंत्रालय ईरान https://t.co/UGri7ZDQKK
— Millat Times (@Millat_Times) March 2, 2022
اسی مقصد سے بہت صحافی تجزیہ کار اور رائٹرس ایران جاتے بھی ہیں اور قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چناں چہ میں نے بھی ایران کی دعوت قبول کی اور وہاں جانے کا پروسیس شروع ہوا ۔ صحافیوں کے وفد میں میرے علاوہ اسٹینی جونی ایڈیٹر برائے بین الاقوامی امور روزنامہ دی ہند و ، جناب محمد ریاض احمد نیشنل کو رآڈینٹر روزنامہ سیاست حیدر آباد ، جناب محمد اشرف زیدی ایڈیٹر دی لیڈر س میگزین ، جناب محمد انجم جعفری بیورو چیف روزنامہ سیاسی تقدیر ، جنا ب محمد رضوا ن ایڈیٹر تہلکہ توڈے شامل تھے اس کے علاوہ ترجمان کی حیثیت ڈاکٹر ضابط رضا حیدر بھی وفد میں شامل تھے ۔ صحافیوں کے وفد کا یہ آٹھ روزہ دورہ تھا جہاں ہم نے بہت کچھ دیکھا ، بہت سے امور کے بارے میں علم ہو ا اور قریب سے ایران کی سرگرمیوں کو دیکھنے کی کوشش کی ۔ آئندہ کی قسطوں میں ہم سلسلہ وار یہی زیب قرطاس کریں گے کہ ایران میں ہم نے کیا دیکھا ہے ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے سی ای اور چیف ایڈیٹر ہیں)