طنز و مزاح کے عظیم شاعر، اسرار جامعی نہیں رہے

ڈاکٹر عبدالقادر شمس
طنز و مزاح کے عظیم شاعر اور اپنے رنگ و ادا کے منفرد انسان اسرار جامعی زندہ ہیں یا فوت کرگئے، زیادہ تر ادیبوں، شاعروں اور فروغ اردو کے ذمہ داروں کو معلوم نہیں ہے۔ کئی بار ان کی وفات کی خبروں نے لوگوں کو چونکایا لیکن وہ اپنی مسکین سی صورت لے کر خود ہی اپنی زندگی کا ثبوت دے دیتے۔ مگر آج صبح سات بجے آنکھ کھلی تو مصدق خبر موصول ہوئی کہ وہ واقعی چل بسے۔
اسرار جامعی لاشۂ بے جاں کے طورپر ایک عرصے سے زندہ تھے اور چنددنوں قبل پتہ چلاکہ وہ الشفا ہاسپیٹل میں ایک بیڈ پر پڑے ہوئے ہیں جہاں ان کا کوئی پرسان حال (Attendent) نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام ہے۔ دوسرے مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے لوگ اپنا بچا ہوا کھانا انہیں کھلا دیتے ہیں۔
پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرشادکے ہاتھوں کم عمری میں ہی ایوارڈ حاصل کرچکے اسرار جامعی کی ایسی قابل رحم حالت اچانک نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ برسہا برس سے مشکلات، تنہائی، بے سروسامانی اور مصیبتوں سے دوچار رہے اوربے شمارایام ایسے گزرے جب انہیں فاقہ کشی کی نوبت آتی رہی۔ یہ ایسے شخص ہیں جو کالا ہانڈی میں نہیں رہتے تھے بلکہ دہلی کی راجدھانی میں فاقہ کشی کرتے رہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی گمنام شخص ہوں، ان سے اردو شعر و ادب کا ہرآدمی واقف تھا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ طنز و مزاح کی شاعری کے امام کہلانے کے حقدار ہیں۔ ایسا شخص اگر اکیسویں صدی میں فاقہ کشی کا شکار رہا تو یہ پورے مہذب سماج کو شرمندہ کرنے والا ہے۔
اسرار جامعی کو راقم الحروف اس وقت سے جانتا ہے جب آل انڈیا ملی کونسل کے ٹاڈا مخالف کنونشن میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کی فرمائش پر انہوں نے نہایت معرکۃ الآرانظم پڑھی تھی جس کے ایک ایک شعر میں طنز و مزاح کے ساتھ حالات کی عکاسی، مظلوموں کا درد و الم اور فکر انگیز اشارے تھے۔
احمد ہو نام جن کا ان سب کو جاکے پکڑو
داؤد ہوگا تایا ٹاڈا میں بند کردو
خفیہ پولیس کی بیوی شوہرسے کہہ رہی تھی
مرغا یہ کیوں نہ لایا ٹاڈا میں بند کردو

مگر تین برس قبل میری بیٹی جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسکول میں پڑھتی تھی اس نے دیکھا کہ وہ گلی میں گرے ہوئے تھے اور آنے جانے والے انہیں شرابی سمجھ کر نظر انداز کرکے گزر رہے تھے، میری بیٹی نے انہیں رکشہ میں بٹھاکر ان کے کمرہ کی راہ بتائی، اس کے بعد وہ اپنے بھائی کو لے کر دوسرے دن بھی ان کی خیریت معلوم کرنے ان کے کمرے پر گئی۔ پتہ چلا کہ کوئی ہوٹل والا کھانا دے جاتا ہے، جب وہ نہیں آتا تو فاقہ کشی۔ اس کے بعد تو میرے بچے اکثر ان کی خیریت لینے جاتے رہے اور ان کو کبھی کبھار کچھ کھانے کی چیز بھی پہنچاتے رہے۔
طنز و مزاح کی شاعری کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکے اسرار جامعی ہندوستان بھر کے مشاعروں میں بھرپور داد و تحسین وصول کرتے رہے ہیں اور وہ ان مشاعروں اور تقریبات میں بھی پہنچ جاتے تھے جہاں انہیں دعوت نہیں بھی دی جاتی تھی۔ اکثر تقریبات میں وہ مجھے مل جاتے اور ادائے بے نیازی کے ساتھ اپنی جیب سے قطعات کی پرچیاں نکالتے اور تھما دیتے۔ ایک دفعہ ایک کھانے کی تقریب میں پرچی دیتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں زور دے کر کہا گھر جاکر پڑھئیے گا۔ بعد میں وہ قطعہ پڑھنے پر پتہ چلاکہ وہ اس تقریب کے آرگنائزر پر سخت تنقید پر مبنی قطعہ تھا۔
میرا بیٹا عمار جامی جو ندوہ سے عالمیت اور دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کے بعد جے این یو میں زیرتعلیم ہے، اس کو اسرار جامعی نے بتایا کہ مشہور ملی و سیاسی قائد سیدشہاب الدین مرحوم ان کے پھوپھا ہیں اس لیے پھوپھی کو میری صورتحال کی اطلاع دی جائے، چنانچہ عمار نے سید شہاب الدین کی اہلیہ اور ان کی بیٹیوں سے فون پر بات چیت کی اور ان کے بلانے پر میور وہار نئی دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ پربھی گیا، بہرحال سیدشہاب الدین کی اہلیہ اور بیٹیاں عمار جامی سے فون کرکے اسرار جامعی صاحب کی خبروخیریت لیتی رہتی تھیں۔
اسرار جامعی کی مشکل بھری زندگی پر میں ایک تحریر لکھ رہا تھا اسی حوالے سے میں نے سپریم کورٹ کے مشہور قانون داں مشتاق احمد ایڈووکیٹ سے بات کی کیونکہ اسرار جامعی مشتاق احمد صاحب کے ہی مکان میں رہتے تھے۔ انہو ں نے بہت سی باتیں بتائیں اللہ مشتاق احمد ایڈووکیٹ کے حسن سلوک کا بہتر بدلہ عطا کرے۔
اسی طرح جب میں نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر فیروز بخت احمد صاحب سے بات کی تو انہوں ں نے بتایا کہ دہلی حکومت سے اسرار جامعی کو ملنے والا پنشن یہ کہہ کر بند کردیا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے، اس کے لیے فیروزبخت احمد صاحب متعلقہ محکمہ میں گئے اور پھر اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ کے یہاں بھی گئے جہاں جاکر انہیں تلخ تجربہ ہوا اور امانت اللہ اور ان کے ’یمین ویسار‘کے لوگوں نے بے حسی اور بے مروتی کا برہنہ مظاہرہ کیا ،بہرحال اسرار جامعی صاحب کی پنشن جاری نہ ہوسکی۔
آج علی الصباح جب میں سورہا تھا کہ میرے بیٹے عمار جامی نے خبر دی کہ اسرار جامعی نہیں رہے۔ کفن کے لیے دکان پر گئے تو دکان پر قفل، بٹلہ ہاؤس قبرستان گئے تو وہاں بھی کوئی نہیں ملا، چنانچہ محض تین لوگ لاش کے پاس ہیں اور کب قبر تیار ہوگی اور جنازہ کب ہوگا کچھ طے نہیں ہے۔ سچ پوچھئے تو مرحوم کا دنیا میں کوئی نہ تھا، ایک بھائی جو پٹنہ میں ہیں مگر بھائی کے نام پر کلنک۔ دو بھانجیاں ہیں وہ بھی پٹنہ میں رہتی ہیں جب اسرارجامعی صاحب صحت سے تھے تو ہرمہینہ ان کو پیسے بھیجتے تھے مگر جب مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو میرے بیٹے نے کئی بار ان کو فون کیا مگر وہی بے حسی، بے اعتنائی اور ہزار بہانے۔ البتہ سیدشہاب الدین کی اہلیہ اور ان کی دو بیٹیاں جو دہلی کے میور وہار میں رہتی ہیں وہ خبر و خیریت لیتی رہیں۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ عطا کرے، آمین۔