عملیات ۔۔ شرعی نقطۂ نظر

مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی

سب سے اہم مسئلہ عامل حضرات کے طرز عمل اور ان کے رویہ کا ہے ، اس سلسلہ میں چند اُمور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے :
اول یہ کہ اجنبی عورتوں کے سلسلہ میں جو شرعی احکام ہیں ، عاملین ان سے مستثنیٰ نہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات سے بہت شدت سے منع فرمایا ہے کہ مرد کی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی ہو ، اس لئے غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا جائز نہیں ۔
دوسرے شریعت میں اس سے بھی زیادہ ممانعت غیر محرم کو ہاتھ لگانے کی ہے ، کیوں کہ اس سے زیادہ فتنہ کا اندیشہ ہے ، مادی طریقۂ علاج میں بعض دفعہ جسم کے کسی حصہ کودیکھنے یا چھونے کی ضرورت پیش آتی ہے ، کیوں کہ جسمانی کیفیت ہی کے ذریعہ مرض کی تشخیص ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ روحانی طریقۂ علاج میں مرض کی تشخیص کے لئے اس کی ضرورت نہیں ، اس لئے اس صورت کو ڈاکٹری معائنہ پر قیاس نہیں کرنا چاہئے ، یہی حال غیر محرم کا چہرہ دیکھنے کا بھی ہے ، کہ اگر جوان لڑکی یا خاتون ہو ، تو چہرہ کا پردہ بھی ضروری ہے ، عام طورپر عامل حضرات ان اُمور کے بارے میں احتیاط نہیں برتتے ، نتیجۂ کار خود فتنہ سے دوچار ہوتے ہیں ، دوسروں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہیں ، اور دین و اہل دین کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں ۔
تیسرے جھوٹ سے احتیاط بھی ضروری ہے ، جب بھی کوئی شخص عملیات کی دنیا میں پہنچتا ہے ، تو ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص یا تو جادو کا شکار ہے ، یا اس پر جنات سوار ہے ، گویا بیماریاں دنیا سے اٹھ چکی ہیں ، پیسہ حاصل کرنے کی غرض سے خواہ مخواہ ہر شخص کو اس وہم میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ وہ مسحور یا آسیب زدہ ہے ، یقیناًتمام عامل حضرات ایسا نہیں کرتے ، لیکن ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے ، یہ جھوٹ دھوکہ کو بھی شامل ہے ، اس لئے گناہ بالائے گناہ ہے ۔
چوتھی بہت ہی قابل توجہ چیز یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے نہ کہ توڑنے کا ، اور غیب کی باتوں سے اﷲ ہی واقف ہیں ، لیکن عام طورپر عامل حضرات اپنے زیر علاج لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ تم کو فلاں شخص نے جادو کردیا ہے ، تم پرتمہارے سسرال والوں کی طرف سے سحر ہے ، وغیرہ ، اس طرح کی باتوں کی وجہ سے کئی خاندان بکھر گئے ہیں ، والدین اور اولاد کے درمیان ، ساس اور بہو اور بھائی اور بھائی کے درمیان خلیج حائل ہوگئی ہے ، میاں بیوی کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوچکی ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات ماں بیٹی کے تعلقات میں ایسا بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کی روادار نہیں ، اﷲ اور اس کے رسول نے ہمیں مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، لیکن ایسی باتوں کے ذریعہ دل جڑنے کے بجائے ٹوٹتے ہیں ۔
جادو ایک اَن دیکھی چیز ہے ، انسان اس سلسلہ میں یقین نہیں کرسکتا کہ جادو کس نے کیا ہے ؟ بعض دفعہ تو لوگ آنے والوں کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں ، اگر ساس بہو کے تعلقات کشیدہ ہیں ، نند ، بھاوج میں کھچاؤ ہے ، یا بھائیوں میں کچھ اختلاف ہے ، تو ان رشتہ داروں کی طرف نسبت کردی جاتی ہے ، اور کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں آدمی فوراً ان کا یقین بھی کرلیتا ہے ، بعض عامل حضرات بقول ان کے جنوں سے اگلواتے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے ، جن ایک ایسی مخلوق ہے ، جو انسانوں کے وجود میں سماسکتی ہے ، اس لئے یہ بات ممکن ہے کہ واقعی یہ بولنے والا جن ہی ہو ، لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت انسان جن کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ، وہ تو اس قدر جھوٹ بولتے ہیں ، اوررائی کو پہاڑ بنانا جانتے ہیں ، تو کیا کسی جن کی بات کی سچائی پر یقین کیا جاسکتا ہے ؟
جادو کرنے کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے ، گویا کسی کو جادو گر کہنا یا کس پر جادو کرانے کا الزام لگانا دراصل اس پر کفر یا ایک کفریہ کام میں شرکت کا الزام لگانا ہے ، اور حدیث میں کسی مسلمان کو کافر کہنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ، اسی لئے فقہاء نے بھی کسی پر کفر کا حکم لگانے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کرنے کی تلقین کی ہے ، لیکن بعض عامل حضرات کو کسی خاص شخص یا رشتہ دار کی طرف جادو کی نسبت کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ہوتی ، اختلاف پیدا ہوتا ہے ، اور اختلاف میں شدت بڑھتی جاتی ہے ، یہاں تک بعض دفعہ قتل و خون کی نوبت بھی آجاتی ہے ، ۔۔۔ عامل حضرات کو چاہئے کہ یا تو صرف مطلوبہ دُعاء بتادیں ، تکلیف کے سبب کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہیں ، یا اگر سحر یا آسیب بتائیں تو کسی کی نشاندھی سے گریز کریں ، اور صاف کہہ دیں کہ اس کا علم اﷲ کو ہے ، ہم اس سلسلہ میں کوئی صحیح اور یقینی بات نہیں کہہ سکتے ۔
چھٹی قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ جھاڑ پھونک اور تعویذ وغیرہ کو اختیار کرتے ہیں ، ان کا یقین اﷲ تعالیٰ کی ذات کے بجائے ان اعمال پر اور بعض دفعہ عمل کرنے والے ’’ باباؤں ‘‘ پر قائم ہوجاتا ہے ، اس سے لوگوں میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی پیدا ہوجاتی ہے ، بیماریوں کے لئے معالجین کے پاس جانے کے بجائے لوگ عاملین کے یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں ، اور اگر مسلمان عاملین سے فائدہ نہیں ہوا ، تو غیر مسلم عاملین تک پہنچتے ہیں ، ہر طرح کے مشرکانہ فعل پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، خواتین خاص طورپر اس میں آگے ہوتی ہیں ، مال و اسباب بھی ضائع کرتی ہیں ، عزت و آبرو سے بھی ہاتھ دھوتی ہیں ، اور اپنا ایمان بھی گنواتی ہیں ، اس لئے عامل حضرات کو چاہئے کہ ان کا عمل قرآنی آیات ، ماثورہ دُعاؤں ، اسماء حسنیٰ اور احادیث میں منقول اذکار تک محدود رکھیں ، اور خاص کر لوگوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ شفاء اﷲ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے ، ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔
ایک اہم مسئلہ تعویذ پر اجرت لینے کا بھی ہے ، بنیادی طورپر جھاڑ پھونک اور تعویذ انسانی خدمت ہے ، اور اس کو خدمت ہی کے پہلو سے انجام دینا چاہئے ، سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے ، یہ تو مسئلہ کا اخلاقی پہلو ہے ، ۔۔۔ لیکن فقہی اعتبار سے کیا تعویذ کی اجرت لی جاسکتی ہے ؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، اکثر اہل علم نے اس کو جائز قرار دیا ہے ، کیوں کہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیس سواروں پر مشتمل ایک دستہ روانہ فرمایا ، جن میں وہ بھی شامل تھے ، یہ دستہ ایک عرب آبادی کے پاس سے گذرا ، وہاں اس نے قیام کیا ، اور مقامی لوگوں سے خواہش کی کہ ان کی ضیافت کریں ، لوگوں نے انھیں مہمان بنانے سے انکار کردیا ، اتفاق کہ سردار قبیلہ کو بچھویا سانپ نے ڈس لیا ، وہ لوگ ان حضرات کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ ہمارا سردار موت کے قریب ہے ، کیا آپ میں سے کوئی شخص جھاڑ پھونک جاننے والا ہے ؟ حضرت ابوسعید خدریؓ نے کہا ، ہاں ! لیکن ہم کچھ لے کر جھاڑیں گے ، ان لوگوں نے تیس بکریوں کی پیش کش کی ، حضرت ابوسعید خدریؓ نے سات دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر ان پر دَم فرمایا ، اﷲ تعالیٰ نے اسے صحت یاب کیا ۔
ان لوگوں نے حسب وعدہ بکریاں بھیج دیں ، چوں کہ حضرت ابوسعیدخدریؓ کا یہ مطالبہ اپنے اجتہاد پر مبنی تھا اور اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت نہیں تھی ، اس لئے بعض حضرات نے اسے درست سمجھا اور کھانے میں شریک رہے ، اور بعض نے کھانے سے انکار کردیا ، جب یہ حضرات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو حضرت ابوسعید خدریؓ نے پورا واقعہ بیان کیا ، اول تو آپ نے دریافت کیا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ سے مریض کو دَم کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا یہ بات میرے دل میں ( من جانب اﷲ ) ڈالی گئی ، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ ، مختلف محدثین نے اس روایت کو نقل کیا ہے ، ( ترمذی ، حدیث نمبر : ۲۰۶۳) ۔۔۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تعویذ پر اُجرت لی جاسکتی ہے ، اسی لئے اکثر فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے ۔
البتہ بعض فقہاء نے اس سے منع کیا ہے ، جن میں امام ابن شہاب زہریؒ کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے ، کیوں کہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید پر اُجرت حاصل کرنا ہے ، ( عمدۃ القاری : ۵/۶۴۷ ) ۔۔۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ عملیات کو مستقل ذریعۂ معاش نہ بنایا جائے ، بلکہ دوسرے ذرائع معاش کو اختیار کرتے ہوئے گاہے تعویذ پر کچھ ہدیہ بھی لے لیں ، حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت کے سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پہلے زمانہ میں ہر جگہ قیام کے لئے ہوٹل اور سامان کے لئے بازار دستیاب نہیں ہوتے تھے ، اور ریگستان کا سفر اتنا طویل ہوتا تھا کہ جو سامان لوگ ساتھ لے جاتے ، وہ راستہ میں ختم ہوجاتا تھا ، اس لئے مسافرین کو بڑی دقت کا سامنا ہوتا تھا ، اسی لئے یہ بات قبائلی روایت کے مطابق واجبی اخلاقیات میں شامل تھی ، کہ مسافروں کو مہمان بنایا جائے ، اسی اُصول کے تحت اہل مکہ حج و عمرہ کے لئے آنے والوں کی ضیافت کا اہتمام کیا کرتے تھے ، پس اس عہد کے عرف کے اعتبار سے آبادی کے لوگوں کا ضیافت سے انکار کرنا دراصل ایک طرح کی حق تلفی تھی ، ممکن ہے اس لئے حضرت ابوسعید خدریؓ نے اپنے عمل کا معاوضہ طلب فرمایا ہو ، ۔۔۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اسے مستقل ذریعۂ معاش نہ بنایا جائے اورخدمت کے نقطۂ نظر سے انجام دیا جائے ۔
اور اگر اُجرت لی ہی جائے تو ایسی اُجرت ہونی چاہئے ، جس میں دھوکہ اور غبن فاحش نہ ہو ، دھوکہ سے مراد یہ ہے کہ زیادہ اشیاء منگائی جائیں ، کم خرچ کی جائیں ، اور باقی واپس نہ کی جائیں ، یا جو چیز مطلوب نہیں ہو وہ بھی منگائی جائے ، یا اس کے پیسے وصول کئے جائیں ، ۔۔۔ غبن فاحش سے مراد یہ ہے کہ کسی عمل یا وقت کی اتنی اُجرت لی جائے ، جو اس عمل اور وقت کی اُجرت سے بھی زائد ہو ، مثال کے طورپر ایک شخص کی اُجرت ۶؍ گھنٹوں کی دو سو روپئے سے تین سو روپئے تک ہوسکتی ہے ، تو اس کی ایک گھنٹے کی اُجرت ساٹھ روپئے قرار پاتی ہے ، اگر ساٹھ روپئے کے بجائے سو روپئے اِتنے وقت اور محنت کی اُجرت لی جائے تو غبن فاحش ہے ، جسے مکروہ قرار دیا گیا ہے ، اسی لئے اُجرت میں بھی توازن اور اُصول شرع کی رعایت ہونی چاہئے ، ایسی شکایتیں سامنے آتی ہیں کہ بعض اوقات بیوہ عورتوں کو اپنے زیورات فروخت کردینے پڑے ، اور بعض غریب وپریشان حال لوگوں کو آٹو اور رکشا سے بھی دست بردار ہوجانا پڑا ، یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے ۔
مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ، اور جس کام سے بھی وابستہ ہوں ، ان کے لئے ضروری ہے کہ شریعت کی حدود پر قائم رہیں ، اور اس سے باہر قدم نکالنے کی کوشش نہ کریں ، اس میں آخرت کی حفاظت بھی ہے ، اور دنیا کی فلاح بھی ، اور خاص کر جو لوگ ایسے کام کرتے ہوں ، جن کا رشتہ دین سے جڑا ہوا ہو ، ان کو اپنے کردار کے بارے میں بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے ، کہ ان کی کوتاہیوں سے صرف انھیں کی نہیں ؛ بلکہ دین اور اہل دین کی بدنامی بھی ہوتی ہے ۔(ملت ٹائمز)