’ارطغرل غازی‘ کی مقبولیت، صدر طیب اردوغان کی سرگرمیوں اور آیا صوفیہ کی بحالی کے بعد بحث ’خلافت‘ کے احیاء تک پہنچ گئی ہے، لیکن …..
ڈاکٹر یامین انصاری
اب سے چند گھنٹوں کے بعد ترکی کی سر زمین پر ایک تاریخی واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ ایک ایسا واقعہ، جو نہ صرف عالم اسلام ، بلکہ دنیا بھرکے لئے موضوع بحث ہے۔اگر چہ ۲۴؍ جولائی ۲۰۲۰ء بروز جمعہ یہ واقعہ تاریخی شہر استنبول (قسطنطنیہ) میں پیش آنے والا ہے، لیکن اس کے اثرات پوری دنیا میں دیکھنے کو ملیں گے۔ تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے بھی یہ واقعہ ہر خاص و عام کی زبان پر پہلے سے ہی ہے۔ کیوں کہ یہاں کی تاریخی آیا صوفیہ مسجد میں ۸۶؍ سال کے بعد پہلی بار نماز جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ باقاعدہ نماز شروع ہو جائے گی۔ در اصل ترکی میں گزشتہ دنوں عدالتنےاستنبول میں واقع میوزیم کو دوبارہ بحیثیت مسجد بحال کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے کے بعد نہ صرف ترکی، مشرق وسطیٰ، یوروپ اور افریقہ تک ایک بحث شروع ہوگئی ہے ، بلکہ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی اس بات کی خوب چرچہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ صحیح ہے یا غلط؟سوشل میڈیا پر تو جیسے اس فیصلہ کی موافقت اور مخالفت میں ایک طوفان سا برپا ہے۔ مختلف حوالوں، تاریخی واقعات، پرانی دستاویزات اورشرعی احکامات سے اپنی اپنی باتوں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی کبھی تو احساس ہوتا ہے کہ اس معاملے کی شدت ترکی سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔
موجودہ ترک حکومت کی سرگرمیوں اور اقدامات پر بحث کرنے سے پہلے ترکی کی سیاست، خطہ کے حالات اور پوری دنیا، بطور خاص عالم اسلام میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کو بھی مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ در اصل آیا صوفیہ مسجد کی بحالی پر بحث و مباحثہ کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ترک عدالت کے حکم نامے کے بعد یہ سوال شدت اختیار کررہاہے کہ کیا ترکی خلافت یا سلطنت کے احیاء کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ کیا واقعی ایک چرچ کو مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے؟ اگر بہت گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں تو فی الوقت دونوں ہی باتوں میں بہت زیادہ دم نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن ہاں اتناضرور ہے کہ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کے اقتدار میں آنے کے بعد ترکی میں جس طرح کے اقدامات کئے گئے ہیں، اس نے یقیناً پوری دنیا کے عام مسلمانوں کے دل میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے امت مسلمہ کہیں انتشار و اختلافات کا شکار ہے اور باہم برسر پیکار ہے، تو کہیں دشمنوں سے کی آلہ کار ہے۔لہذا ایک شکست خوردہ قوم کی طرح مایوسی کے عالم میں ڈوبی مسلم دنیا کو امید کی ایک ہلکی سی کرن بھی روشنی کی مانند نظر آتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ اسی انتشار و اختلافات کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ پورا خطہ عالمی اور مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں یہاں آکر کبھی کسی کی حمایت میں تو کبھی کسی کی مخالفت میں پنجہ آزمائی کر تی ہیں۔ کبھی کوئی ملک امریکہ کو اپنا حامی و مدد گار سمجھتا ہے تو کبھی کوئی ملک روس کو اپنا حلیف سمجھ کر یہاں کے عوام پر آگ اور خون کی بارش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔نتیجتاً لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں، کروڑوں افراد بے یا ر و مددگار دوسرے ملکوں میں یا اپنی سر زمین پر در در بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ کتنے ہی ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں، کتنے ہی حکمراں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔غرض یہ کہ افغانستان سے لے کر ایران تک، لیبیا سے لے کر سیریا تک، عراق سے لے کر یمن تک ، ہر جگہ تقریباً ایک ہی کہانی ہے۔ اس پورے خطہ کا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہو گیا ہے کہ یہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ترکی کے اقدامات نے ایک بار پھر ماضی کے دریچوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے۔ترک ڈرامہ ’ارطغرل غازی‘ کی عکس بندی بھلے ہی صد فیصد حقیقت پر مبنی نہ ہو، لیکن سرسری طور پر وہ اس بات کا اشارہ ضرور کر رہا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے بنیاد گزاروں کوجس طرح کے حالات کا سامنا تھا اور عالم اسلام خطوں اور قبیلوں میں تقسیم تھا، ٹھیک اسی طرح آج بھی عالم اسلام نہ صرف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم ہے بلکہ منتشر اور ایک دوسرے سے بر سر پیکار بھی ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک آیا صوفیہ مسجد کی بحالی سے پورے عالم اسلام کے حالات بدل جائیں گے۔ نہ ہی ترکی نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں عالم اسلام کی قیادت کرے گا۔ نہ ہی وقت اور حالات ایسے ہیں کہ ترک خلافت یا سلطنت کا احیاء ہو سکے، لیکن پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے۔ جہاں تک آیا صوفیہ مسجد کی بحالی کا مسئلہ ہے تو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ترک حکومت کسی چرچ کو مسجد میں تبدیل نہیں کررہی ہے، بلکہ ایک میوزیم کو مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے جو پہلے بھی مسجد تھی۔ در اصل اس مقام پر کبھی رومی عیسائیوں کا ایک قدیم چرچ ہوا کرتا تھا ۔ جس کو رومی شہنشاہ جسٹینن اول نے ۵۳۷ء میں بنوایا تھا۔ اس عمارت کو صلیبی جنگوں کے دور میں کافی اہمیت حاصل رہی، کیونکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا کلیسا کہلاتا تھا۔ تقریباً نو سو سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا کلیسا رہا، مگر جب ۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ پر خلافت عثمانیہ کے طاقتور حکمراں محمد ثانی نے قبضہ کیا تو اس کلیسا کو تباہ و برباد کرنے کے بجائے ایک معاہدے کے تحت اس کو انھوں نے ایک مسجد میں تبدیل کردیا ۔ اس وقت کے رائج قانون کے مطابق جو بھی فاتح کسی بھی مقام کو فتح کرتا تو وہ اس کی ملکیت تسلیم کی جاتی تھی اور یہ ایسی حقیقت تھی جو کسی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ لہٰذا موجودہ حالات کا موازنہ اُس وقت سے کرنا بے معنی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عثمانی سلطنت کے سربراہ سلطان محمد فاتح کا فیصلہ اُس وقت کے اسلامی قانون کے مطابق بالکل درست تھا اور موجودہ ترک حکومت کے فیصلے کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔ تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کی بازنطینی حکومت میں جہاں آیا صوفیہ کی عمارت واقع تھی، وہ محض ایک چرچ نہیں تھا، بلکہ ان کا ایک مضبوط سیاسی اور عسکری گڑھ بھی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عمارت کے ایک حصے میں عیسائی اپنی عبادت کرتے تھے، تو دوسرے حصے میں ان کی سیاسی اور عسکری قیادت اپنے حالات و واقعات کے حساب سے فیصلے کیا کرتی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ اورمغرب کے تابع حکمراں مصطفیٰ کمال اتاترک کے دور حکومت یعنی ۳۵۔۱۹۳۴ء تک آیا صوفیہ تقریباً ۵۰۰؍ سال سے مسجد تھی، لیکن اتاترک نے اسے میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ وہی اتاترک تھا جس نے سیکولرازم کے نام پر ترکی زبان کا رسم الخط بدل دیا ، عربی زبان پر پابندی لگادی، مذہب پر عمل پیرا لوگوں کو اذیتوں میں مبتلا کیا، مساجد میں عبادت کرنے پر اور قرآن پاک کی تلاوت تک پر پابندی لگا کر اپنے مغربی اور یوروپی آقاؤں کا قرض ادا کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایسی کارروائیاں کی گئیں، جن کے ذریعہ اسلام کو سیاسی اور معاشی دائرے سے باہر نکال کر مکمل طور پر کچل دیا گیا۔ اب موجودہ صدر طیب اردوغان نے ایک بار پھر ترکی کو اس کی اصل اور تاریخی حیثیت دلانے کی تگ و دو کی ہے تو کچھ طاقتیں یہ برداشت نہیں کر پا رہی ہیں۔
رجب طیب اردوغان نے یقیناً اپنے دور اقتدار میں داخلی اور بیرونی سطح پر کافی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ انھوں نے بہت کم وقت میں استنبول کا میئر منتخب ہونے سے لے کر جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھنے تک، اور وزارتِ عظمیٰ سے صدارت تک کا سفر کیا ہے، وہ ان کی اپنی صلاحیتوں کا ثمرہ ہے۔ در اصل ان کا اسلام پسندی کا رحجان، سخت سیکولر سے لبرل مسلم معاشرے کی ترویج اور اسے سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کرنا ترک عوام کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ لیکن فی الحال یہ بحث بے معنی معلوم ہوتی ہے کہ ترکی سلطنت کے احیاء کی طرف بڑھ رہا ہے، کیوں کہ ترکی کی تجارت کا محور بڑی تعداد میں یورپی اور امریکی ممالک ہیں۔ لہٰذا اس کے اسلام پسندی کے رجحان سے موجودہ معاشی نظام چلانے میں رکاوٹ پیش آئے گی۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا میں اپنا مضبوط اثر رکھنے والے سعودی عرب سے اس کے تعلقات سب پر عیاں ہیں۔ ایسے میں اسلامی دنیا سے حمایت حاصل کرنا ترکی کےلیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، لیکن اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ اگر ترک قوم اپنی قوم پرستی اور ماضی کے درخشاں ہونے کی بنیاد پر آگے قدم بڑھاتی ہے تو آیا صوفیہ کی بحیثیت مسجد بحالی، ارطغرل غازی کی عکس بندی و مقبولیت اور اس طرح کے کئی فیصلے اردوغان کی قیادت کو توانائی بخشنے کا کام کریں گے۔