ہمیں کورونا وائرس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنا ہے اور بارگاہ الہی میں اپنے گناہوں کی تلافی بھی کرنا ہے
ڈاکٹر یامین انصاری
صدی کی خطرناک ترین وبا کورونا وائرس کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ نومبر ۲۰۱۹ء میں نئے کورونا وائرس (SARS-CoV-2) نے جس زبردست وبا ’کووڈ۱۹؍‘ (COVID-19)کو جنم دیا، وہ ایک ایسا تایخی واقعہ ثابت ہوا، جس نےزمین پر بسنے والے انسانوںکی زندگی کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا ہے۔ کرۂ ارض پر تقریباً ۲۰۰؍ممالک آباد ہیں۔ اس وباء نے کم و بیش اور کسی نہ کسی شکل میںتقریباً ان سبھی ملکوں کو اپنا شکار بنایا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بیماری کی سب سے خطرناک شکل وباء ہوتی ہے۔ جب یہ وبا انسانی زندگیوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہے تو پوری کی پوری سلطنتیں ختم ہو جاتی ہیں اور عوام و خواص، دونوں کی زندگی تہہ و بالا ہو جاتی ہے۔ نئے کورونا وائرس کے بطن سے پھوٹی وباء نے پوری دنیا میں مختلف انسانی شعبوں خصوصاً معاشرت، معیشت، سیاست، نفسیات، صحت اور تمدن میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وباء نے انسانی معاشرتی زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے لوگ بھی ایک دوسرے سے ’معاشرتی دوری‘ (سوشل ڈسٹینسنگ) اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس وبائی حملے نے بنی نوع انسان کو کئی نقصان پہنچائے، تو بہت سے نئے سبق بھی عطا کیے۔
چین کے شہر ووہان میں۱۷؍ نومبر۲۰۱۹ء کو کورونا وائرس کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا۔ ہندوستان میں ۳۰؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو کورونا وائرس کا پہلا معاملہ درج کیا گیا۔حکومت نے اس بات کی تصدیق کی چین کی ووہان یونیورسٹی سے آئے ایک طالب علم میں کورونا وائرس کی علامتیں پائی گئی ہیں۔ اس طالب علم کو کیرلہ میں طبی عملہ کی نگرانی میں رکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سب سے پہلے ووہان میں ہی کورونا وائرس پر قابو پالیا گیا۔ کہا گیا کہ کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ جب سائنسدانوں نے ایک مریض کے جسم سے لیے جانے والے وائرس کا جائزہ لیا تو سیدھا اشارہ چمگادڑوں کی جانب کیا گیا۔ اس کے بعد بھی مختلف تحقیقات کی گئیں اور یہ جاننے کی کوشیں اب تک جاری ہیں کہ آخر اس وباء کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔ کورونا وائرس کی عام علامات میں نظام تنفس کے مسائل (کھانسی، سانس پھولنا، سانس لینے میں دشواری)، نزلہ، نظام انہضام کے مسائل (الٹی، اسہال وغیرہ) اور تھکاوٹ جیسی علامات شامل ہیں۔ شدید انفیکشن نمونیہ، سانس نہ آنے یہاں تک کہ موت کا سبب بن سکتا ہے۔ کورونا وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی زد میں لے لیا اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ۱۱؍ مارچ ۲۰۲۰ءکو اسے عالمی وبا قرار دیا۔ اس کے بعد عام لوگوں پر اس کا براہ راست اثر ہونا شراع ہوا۔ پھر حکومتوں کی جانب سے بھی احتیاظی اقدامات کئے گئے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ کورونا وائرس کی مزید روک تھام کے لیے سفری پابندیاں، لاک ڈاؤن، کرفیو، قرنطینہ، اجتماعات اور تقریبوں کی منسوخی، عبادت گاہوں اور سیاحتی مقامات کو مقفل کر دینے جیسے سخت اقدامات بھی کیے گئے۔ تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا گیا، درس و تدریس کا سلسلہ منقطع ہوگیا، جو آج بھی معمول پر نہیں ہے۔ اگرچہ لمبے عرصہ تک اسکول کالج بند رہنے کے سبب بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی، تاہم آن لائن کی صورت میں اداروں نے تعلیمی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی۔ ہندوستان میں آج بھی کوئی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اسکول کب کھلیں گے۔ بلکہ دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے تو کہہ دیا ہے کہ جب تک ویکسین نہیں آئے گی، اسکول نہیں کھولے جائیں گے۔ کورونا وائرس اگرچہ چین سے پھیلنا شروع ہوا، لیکن سب سے زیادہ امریکہ اور یورپی ممالک متاثر ہوئے، جبکہ ایک سال کے دوران اس مہلک وائرس سے تقریباً ۱۳؍ لاکھ سے زائد زندگیاں ختم ہو گئیں۔ جبکہ دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ساڑھے پانچ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ کورونا وائرس کی وباء نے کئی ممالک میں روزمرہ زندگی لاک ڈاؤن کردی، کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ متعدد ادارے بند ہو گئے۔ جس کے سبب لاکھوں اور کروڑوں لوگ ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جب کورونا وائرس کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اس وقت ایسا مانا گیا تھا کہ ایک سال میں اس وبا پر قابو پا لیا جائے گا اور کوئی نہ کوئی دوا تیار کر لی جائے گی۔ لیکن ایسا کہنے والوں نے شاید اس بارے میں نہیں سوچا کہ خالق کائنات کے آگے انسان کتنا بے بس اور لاچار ہے۔ اب ایک سال مکمل ہوچکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر بھی آ گئی ہے۔ امریکہ، یوروپ اور ہند و پاک وغیرہ میں اس وباء کی ہلاکت خیزی میں بھی کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔لیکن آج بھی سوائے احتیاطی تدابیر کے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ مختلف ویکسین ابھی بھی تیاری کے مرحلے میں ہیں اور کب تک یہ ہر متاثر شخص تک پہنچے گی، کوئی دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ اسی کالم میں پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ کورونا وائرس پوری دنیا کے لئے خالق کائنات کی جانب سے ایک آزمائش ہے۔ ایک ایسی آزمائش، جس میں سوچنے اور سمجھنے والوں کے لئے بہت کچھ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اقدس کے آگے پوری دنیا کے سائنسداں، تحقیق داں اور میر ترین افراد مل کر بھی سارا زور لگالیں تو انسان کو مشکلات سے نہیں نکال سکتے۔ کورونا وائرس نے ایک سال کے دوران جہاں پورا نظام زندگی بدل کر رکھ دیا ہے، وہیں کوئی بھی شخص اس وباء کے خوف سے نہیں نکل سکا ہے۔ کسی بھی دنیاوی چیز کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ روپیہ، پیسہ، گاڑی، بنگلہ، کاروبار، آرائش کے سامان ،لگژری زندگی سب بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک انجانے سے خوف نے انسانوں کو دنیا کے جلووں اور رنگینیوں سے متنفر کردیا ہے۔ بہر حال، ماہرین کا ماننا ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ کورونا وائرس کی خبروں سے خود کو دور رکھیں۔ ایک دوسرے کی فکر ضرور کریں ، لیکن ہمیشہ کورونا کے بارے میں سوچتے رہنے سے آپ ڈپریشن یا نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید، دینی تعلیم یا پسندیدہ کتابیں پڑھ کر اپنا وقت گزاریں۔ والدین اور بیوی بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور بے فکر رہنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو گا، جس کی آج کل بہت ضرورت ہے۔ خدا کی ذات اور اس کی رحمت پر بھروسہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ جس طرح ہر بلا ایک دن ٹل جاتی ہے، یہ بلا بھی ٹل جائے گی۔ ہمیں اس عالمی وباء نے بتا دیا ہے قدرت کا بنایا ہوا نظام ہی بہتر ہے، اسی میں انسان کی بھلائی ہے۔ دنیا کتنی بھی ترقی کرلے قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
کورونا کی وباء جہاں انسانی زندگی میں بہت سی مشکلات لے کر آئی اور اس مشکل وقت میں بھی تخریب کاروں اور شر پسندوں نے غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کیا، وہیںاسی کرہ ارض پر ایسے لوگ بھی سامنے آئے جنھوں نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر دوسروں کی جان بچانے کو فوقیت دی۔ ہندوستان سمیت مختلف ملکوں میں ڈاکٹر اور نرسیں چوبیس گھنٹے مریضوں کی جانیں بچانے اور ان کی خدمت کرنے میں مصروف رہے۔ اس دوران نہ جانے کتنے ڈاکٹر اور نرسیں کورونا وائرس کا نشانہ بن کر چل بسے، مگر انہوں نے اپنے فرض سے منہ نہیں موڑا اور پوری استقامت سے وباء کا مقابلہ کرتے رہے۔ اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی انسانیت نواز افراد نے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس وبا کے شکار لوگوں کی ہر طرح سے مدد کی۔ایثار اور ہمدردی کی مثالیں قائم کرنے والے انہی افراد نے کرۂ ارض میں ایک امید کی کرن پیدا کی ہے۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ جب بنی نوع انسان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہو تو دنیا بھر کے مردو خواتین اپنی توانائی مشکل حالات کا مقابلہ کرنے میں صرف کردیتے ہیں۔