شہر آرزو: اسی نے ہوش کو بخشا جنوں کا پیراہن

جامعہ ملیہ اسلامیہ نے شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج کی قیادت کے بعد تعلیمی میدان میں کامیابیوں کا جو پرچم لہرایا ہے، وہ قابل رشک ہے 

ڈاکٹر یامین انصاری

آئندہ اکتوبر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنے قیام اور علمی سفر کے سو سال مکمل کر لے گی۔ یعنی ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو جامعہ میں جب صدی تقریبات منعقد کی جائیں گی تو یہ یقیناً اس کے لئے ایک تاریخی لمحہ ہوگا۔اس کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ، طلبہ اور یونیورسٹی انتظامیہ کی محنتوں کے نتیجے میں آنے والا یوم تاسیس مزید یادگار بن جائے گا۔ گزشتہ برس سے اب تک تمام نا موافق حالات کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ نےتعلیمی میدان میں یکے بعد دیگرے کامیابی کا جو پرچم لہرایا ہے، وہ بانیان جامعہ کے خوابوں کو پر لگاتا ہےاور ترا نہ جامعہ کے اس شعر کو عملی جامہ پہناتا ہے کہ ؎

یہیں سے شوق کی بے ربطیوں کو ربط ملا

اسی نے ہوش کو بخشا جنوں کا پیراہن

یوں تو مادر درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کو بھی دسمبر ۲۰۲۰ء میں سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یعنی ہمارے اسلاف کی یہ دونوں ہی میراث ملت اسلامیہ ہند کے لئے بیش قیمتی سرمایہ ہیں۔ دونوں ہی درسگاہوں نے اپنے قیام سے لے کر اب تک ہمہ وقت نہ صرف ملت کی رہنمائی کی ہے، بلکہ نوجوانانِ ہند کے علمی سفر اور خوابوں کو پر دئے ہیں۔ جس سے کہ وہ ملک و ملت کی خدمت کر سکیں اور ہمارے اسلاف کی قرباینوں کو رائیگاں نہ جانے دیں۔ لہذا امسال نہ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ، بلکہ اے ایم یو کے لئے بھی یہ ایک تاریخی اور یادگار لمحہ ہوگا۔ اگرچہ علی گڑھ میں عالمِ اسلام کا جدید اور سیکولر تعلیم کا پہلا ادارہ ۲۴؍مئی ۱۸۷۵ء کو پانچ طلبہ کے ساتھ شروع ہوا تھا اور فروری ۱۸۷۷ء کو ایم اے او کالج کی صورت میں اپنی شناخت قائم کی، لیکن ہمارے اسلاف کی شب و روز کی کوششوں اور محنت کے نتیجے میں دسمبر ۱۹۲۰ء میں اسے امپیریل لجسلیٹو کونسل نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ عطا کیا۔ اس طرح رہبر قوم سر سید احمد خاں کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ راقم الحروف اپنے لئے یہ اعزاز اور فخر سمجھتا ہے کہ اسے بھی چمن سر سید کا بلبل کہلانے کا حق حاصل ہوا۔یہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ واقعی اگر یہ دیوانوںکا دشتِ جنوں ہے تو پروانوں کی بزمِ وفا بھی ہے۔ کیوں کہ مادر درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، بلکہ زندگی کا سلیقہ اور ملک و ملت کے مسائل کو سمجھنے کی صاحیت بھی حاصل ہوئی۔ 

جہاں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سوال ہے تو ۲۹؍اکتوبر ۱۹۲۰ ء کو جمعہ کے مبارک دن مہاتما گاندھی ، مولانا محمود حسن، مولانا محمدعلی جوہر ، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹرمختار احمد انصاری، ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے عظیم رہبران قوم کی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ اگر چہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سفر بھی علی گڑھ کی سر زمین پرخیموں میں شروع ہوا اور ۱۹۲۵ء میں قرول باغ میں کرایے کی عمارت تک پہنچا۔ یہ ادارہ آج دہلی میں جمنا کے ساحل پر واقع اوکھلا میں ایک شاندار مرکزی یونیورسٹی کی شکل میں ساری دنیا میں اپنی منفردپہچان بنا چکا ہے۔ ساتھ ہی یکے بعد دیگرے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ؎

یہیں سے لالہ سحرا کو یہ سرُاغ ملا

کہ دل کے داغ کو کس طرح رکھتے ہیں روشن

ابھی لوگوں کے ذہنوں میں گزشتہ برس کے اواخر اور امسال کے آغاز کے وہ واقعات تازہ ہیں، جنھوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف اٹھنے والی ملک گیر تحریک کی جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کس طرحقیادت کی اورجس کے سبب اس کو جوزخم دیئے گئے وہ آج بھی تازہ ہیں۔ ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۹ء سے شروع ہوئی یہ تحریک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں متواتر طریقہ سے مارچ ۲۰۲۰ء تک مختلف نشیب و فراز کے ساتھ جاری رہی۔ پورے ملک اور پوری دنیا نے دیکھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی قیادت میں شروع ہونے والی اس تحریک کو کچلنے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے اپنائے گئے، ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، طلبہ و طالبات کو پس زنداں کیا گیا، انھیں کبھی نہ مٹ سکنے والے زخم دئے گئے، پوری یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، یہاں تک کہ دہشت گردوں کا اڈہ اور ملک مخالف تک قرار دیا گیا، لیکن جامعہ کے طلبہ کے حوصلوں اور ان کے استقلال کو لکھوں سلام! کہ انھوں نے ظالموں اور شرپسندوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، ملک اور آئین کو بچانے کے لئے سینہ سپر رہے۔ آخر کار حکومت کو ان کے آگے جھکنا پڑا اور شہریت ترمیمی قانون کو پاس کرتے وقت وضاحت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ساتھ ہی مجوزہ این آر سی کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ ایک بارگی ایسا محسوس ہوا کہ تین ماہ سے زائد عرص تک چلنے والی اس تحریک نےجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کےہمت و حوصلے کو شاید جھٹکا دیا ہو، ان کے استقلال کو زک پہنچائی ہو، لیکن یہ صرف خام خیالی تھی۔ چونکہ جامعہ کا قیام ہی انگریزی سامراج اور اپنے نظام ِ تعلیم کو غیر ملکی استبداد سے آزاد کرانے کے مقصد سے ہوا تھا اور اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ ایسے نوجوان تیار کئے جائیں جو ہندوستانیت کے ساتھ ساتھ ملت کینمائندگی بھی کر سکیں۔سی اے اے اور این آر سی مخالف تحریک اور جامعہ کی کامیابیوں نے یہ ثابت کر دیا ہےکہ جامعہ کے طلبہ بانیان یونیورسٹی کے ان خوابوں کو بحسن و خوبی شرمندہ تعبیر کرنے کا مادہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ اگر ملک و قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں تو ملت کی نمائندگی بھی کر سکتے ہیں۔  

جامعہ کی تحریک کو جس طرح بھی میڈیا نے پیش کیا، اس کا مشاہدہ ہر کسی نے کیا۔ لیکن حال ہی میں جامعہ نے مختلف میدانوں میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ حال ہی میں اسی مودی سرکار نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو ملک کی سر فہرست یونیورسٹی کا درجہ دیا ہے، جس کے کئی نمائندے اور اس سے قربت رکھنے والے لوگ جامعہ کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دے رہے تھے۔ یہ یقیناً ان لوگوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ وزارت تعلیم کے ذریعہ جاری کردہ درجہ بندی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے۹۰؍ فیصد نمبر کےساتھ پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ان نا موافق حالات میں بھی جامعہ نے سر فہرست رہ کر تاریخ رقم کی ہے۔سی اے اے مخالف تحریک سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھی متاثر ہوئی تھیں، لیکن انھوں نے بھی ٹاپ پانچ میں جگہ بنائی ہے۔ جامعہ کے بعد اروناچل پردیش کی راجیو گاندھی یونیورسٹی دوسرے نمبرپر رہی۔ جبکہ جے این یو تیسرے اور اے ایم یو نےچوتھا مقام حاصل کیا۔ اس سے قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ کو این آئی آرایف رینکنگ میں دسواں مقام حاصل ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمی (آر سی اے) نے کامیابی کی شاندار عبارت لکھی ہے۔اس مرتبہ یو پی ایس سی ۲۰۱۹ء کے امتحان میں آر سی اے کے ۳۰؍ بچوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ان میں ۶؍ کے آئی اے ایس، ۸؍ کے آئی پی ایس بننے کا امکان ہے کامیاب امیدواروں میں ۶؍ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی ادارے کے لئے اس سے زیادہ خوشی اور فخر کا کیا مقام ہو سکتا ہے۔ اتفاق سے اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چانسلر منی پور کی گورنر نجمہ ہیبت اللہ اور وائس چانسلر ماہر تعلیم نجمہ اختر یعنی خواتین ہیں، جو مبارکباد کی مستحق ہیں۔ یقیناً طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ جامعہ کی کامیابیوں کا سہرہ یونیورسٹی انتظامیہ کے سر بھی جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لئے بھی ایک جواب ہے، جو یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ مسلم لڑکیوں کو چہار دیواری کے اندر اور تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ بہر حال، جامعہ ملیہ اور اے ایم یو دونوں اداروں کا ایک صدی کا تعلیمی سفر تاریخ میں اپنا اہم مقام بنائے گا۔ ساتھ ہی برادران وطن اور حکمراں طبقہ کو ان اداروں کے ساتھ خیر سگالی، وسعتِ قلبی، کشادہ ذہنی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

yameen@inquilab.com