صدر ایردوان نے اقوام متحدہ کے 75 ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اداروں کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کے لیے ہمیں پہلے اپنی ذہنیت ، اداروں اور قواعد و ضوابط کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے
صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ نئی قسم کی کورونا وائرس (کوویڈ ۔19) کے وباء کے آغاز ہی سے تمام ممالک کو ان کیے حال پر چھوڑنے کا منظر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جس سے میرے یہ نظریات ایک بار پھر درست ثابت ہو رہے ہیں کہ ” دنیا پانچ ممالک سے عظیم ہے ”
صدر ایردوان نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کے 75 ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
صدر اردوان نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ بین الاقوامی اداروں کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کے لیے ہمیں پہلے اپنی ذہنیت ، اداروں اور قواعد و ضوابط کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا ، ” ہمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تنظیم نو کرتے ہوئے جامع اور با معنی اصلاحات کو تیزی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیاء کے استحکام اور امن کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے آج تک حل نہیں کیا جاسکا ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات نے اس مسئلے کو مسئلہ پیچیدہ بنادیا ہے۔ ہم اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہیں۔ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور خاص طور پر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر ایردوان ، شام کے بحران کے بارے میں کہا کہ
“بین الاقوامی برادری کی حیثیت سے ، ہم تمام دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ یکساں اصولی رویہ اختیار کیے بغیر شام کے مسئلے کا مستقل حل نہیں تلاش کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترکی آج دنیا میں سب سے زیادہ پناہ دینے والے مہاجرین کے ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے انہوں نے پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں بساتے ہوئے پوری انسانیت کے وقار کو بلند کیا ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ جن ممالک نےالقدس میں سفارتخانے کھولنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اس سے مسئلہ فلسطین مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔
صدر ایردوان نے مشرقی بحیرہ روم کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔انہوں نے کہا کہ ” ہم ایک علاقائی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں جس میں خطے کے ممالک کے حقوق کو مدنظر رکھا جائے اور قبرصی ترکوں کو بھی اس میں جگہ دی جائے۔ مسئلہ قبرص کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یونان کا غیر مناسب رویہ اور پالیسی ہے۔
صدر ایردوان نے کہا کہ وہ مسئلہ قبرص کوقبرصی ترکوں کی سلامتی اور ان کے تاریخی اور سیاسی حقوق کی مستقل ضمانت دے کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔