بھگوا شرپسندوں کا مقابلہ بہت آسان ؛ لیکن کیوں او ر کیسے ؟

فیروزاحمد ندوی
اسی سال جولائی میں گجرات میں کچھ دلتوں کو مردہ گائے کے چمڑے نکالنے کے جرم میں گائے رکشک کے غنڈوں نے لاٹھی ڈنڈوں سے مار مار کر ادہ مرا کردیا تھا جس کا ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوگیا تھا ، اس کے نتیجے میں گجرات کے دلتوں نے زبردست احتجاج کیا تھا اور ان لوگوں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اب کوئی بھی دلت کہیں بھی پورے گجرات میں مردہ گایوں سے چمڑے نکالنے والا کام نہیں کریگا ، اور سارے ولتوں نے اس پر عمل بھی کیا تھا جس کی وجہ سے گجرات میں جگہ جگہ مردہ گایوں سے تعفن اور بدبو آنے لگی تھی ۔ اسی طرح حیدراباد یونیورسٹی کے ایک طالب علم روہت ویمولا کی سوسائڈکے ذریعے موت سے حیدراباد سے لیکر دہلی تک ایک سیاسی و سماجی بھونچال آگیا تھا۔اسی طرح ہاردک پٹیل جس نے پاٹیدار ریزرویشن کیلئے زبردست احتجاج کیا تھا اور گجرات میں حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔یہاں تک کہ گجرات کے چیف منسٹر انندی بین کو استعفا دینا پڑا تھا۔یہ سب اس قوم کی چند مثالیں ہیں جو اپنے ہندو قوم کے درمیان انتہائی ذلیل وکمتر سمجھی جاتی ہے حتی کے ان کو مندروں میں داخلہ ممنوع رہتا ہے اسی قوم میں سے وقت آنے ایک عام ادمی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پوری قوم کا لیڈر بن جاتا ہے اس کی ایک آواز پر پوری قوم لبیک کہتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک عظیم ریلی اورلوگوں کا سیلاب اکٹھا کر لیتا ہے ۔
اسی موقع سے بی بی سی اردو سروس کے دہلی کے رپورٹر شکیل اختر نے ایک مضمون میں کہا تھا کہ دلت تھوڑے ہی مسلم ہیں ، ان کا یہ جملہ برابر میرے ذہن کے تہ خانے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور بار بار میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ ہم مسلمان جسے امت وحدت کا لقب ملا ہے اور جسے کہا گیا ہے اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں اختلاف نہ پیدا کر و اگر اختلاف پیدا کروگے تو تم ناکام ہوجاوگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی ، آخر ہماری کیا حالت ہوگئی ہے ، دلتوں سے گئے گزرے ہوگئے ہیں، ہم اس قدر بے حس کیوں ہوگئے ہیں کہ روز بروز ہم پر لاشوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے کبھی انفرادی طور پر لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے تو کبھی اجتماعی طور پرنماز جنازہ ادا کرنا پڑتا ہے یہ کندھا بوجھل ترہوتا جارہا ہے اور بار بار ہم سے یہ سوال کرتا ہے آخر کب تک لاشوں کو ڈھوتے رہوگے۔کب وہ وقت ائیگا جب ہم سکون کی سانس لیں گے ۔ آہ اے کاش وہ وقت جلد سے جلد آجائے ۔
لیکن کیا ہمارے اندر بیداری آئیگی ؟کیا ہم ایک گہری اورلامتناہی نیند سے جاگیں گے ؟ روز بروز مسلمانوں کیلئے ہندوستان میں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں اگر کہا جائے تو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ ہر امن پسند شہری کے لئے جان بوجھ کر ماحول خراب کیا جارہا ہے ہر اس شخص کے لئے جو حکومت کے غلط اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتا ہے ،یا تو اسے دیش دروہی کہا جاتا ہے یااسے اس قدر میڈیا کے ذریعے بدنام کیا جاتا ہے کہ وہ شخص سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کاش میں مخالفت نہ کرتا۔
آج پوری دنیا ایک گاوں نہیں بلکہ ایک گھر میں سمٹ کر رہ گیا ہے دنیا بھر کی کوئی بھی خبر منٹوں اور سکنڈوں میں ہم گھر بیٹھے سن اور دیکھ سکتے ہیں ، ذرا یاد کیجئے مصر کا انقلاب لوگوں نے فیس بک اور واٹس اپ ٹویٹر کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو تحریر اسکوائر میں جمع کر لیا تھا ۔کیا آج ہم بھی ایسا نہیں کرسکتے کوئی بھی ملی اورسماجی یا سیاسی مسئلہ ہو ہم آپس میں اتحاد کے ساتھ اس مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں ، لیکن ہم ہیں کہ اپنے اکابرین امت اور رہبران قوم کو سب سے پہلے کوستے ہیں کہ وہ کچھ نہیں کرتے ہیں ، ابتداء خود کرنا ہوگا آگے قدم خود برھانا ہوگا پھر دیکھیں گے کہ لوگ ساتھ آتے رہیں گے اور قافلہ بنتا جائیگا۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا ( مجروح سلطان پوری)
ان فسطائی طاقتوں کو اورا ن بھگوا ذہنوں کو بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے زیر کرنا ہوگا یہ لوگ جس چیز پر اترارہے ہیں اس کی نشاندی کر کے پیروں تلے کچلنا ہوگا ، اپنے اندر اتحاد پیدا کرتے ہوئے سیاسی طور پر اس کو کمزور کرنا ہوگا تاکہ ہم ان کی انکھ میں انکھ ملا کر بات کرسکیں اور جہاں بھی دیکھیں ان سے مقابلہ آرائی کرنا ہوگا ، بہار کے لوگوں نے ان کو ایک اچھاسبق سکھایا ہے اب یوپی کی باری ہے اب دیکھتے ہیں یوپی والے کتنی سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں ، اگر یوپی میں بھی بہار کی طرح ان کو منہ کی کھانی پڑجائے تو یقیناًانہیں ہوش ٹھکانے آجائیں گے ،پھرکوئی بھی غلط اقدامات سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔
دوسری جانب ان تمام کمزور طبقات کوساتھ لانا ہوگا جوان کی حکومت سے بیزار ہوتے جارہے ہیں اور انہیں بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہوگا تاکہ ہماری قوت میں مزید اضافہ ہو ، اور ایسے تمام ایشوز ساتھ ساتھ ارباب حکومت کے سامنے اٹھانا ہوگا جو محض انسانیت کے ناطے سے ہو جس میں مسلمان ہندو سکھ کی بندش ختم ہو تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان صرف اپنی بات کرتے ہیں ،اپنے مسائل اٹھاتے ہیں۔
حال ہی میں رویش کمار کا ایک اچھا تجزیہ پرائم ٹائم میں سننے کو ملا حالانکہ وہ ہمیشہ بہت اچھی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان ڈی ٹی وی پر ایک دن کے لیے پابندی بھی لگائی جارہی ہے اب خبر ہے کہ پابندی نہیں لگے گی، انہوں نے بھوپال انکاونٹر کے سلسلے میں کہا کہ آپ اس طرح کے انکاونٹرس کو مسلمان کی عینک سے نہ دیکھیں اور انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ا ۱۹۹ میں ۱۰ سکھوں کا پیلی بھیت میں ا نکاونٹر ہوا اسی طرح بہرائچ کے ڈی ایم کینجل سنگھ کے والدڈی اس پی کے پی سنگھ کو ۱۹۸۲ میں فیک انکاونٹر میں مارا گیا حالانکہ وہ ہندو تھے ۔
یقیناًپورے ملک کے ہندو اس مسموم ذہنیت کے نہیں ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں اور قانونی طور پر حق کی لڑائی لڑتے ہیں اس کی بھی کئی مثالیں ہیں تیستا سیلواد کیا وہ ایک مسلمان عورت ہے ؟ نہیں۔۔۔بس یہ ہے کہ پورے ملک کے ہندوں کے ذہنوں کو ہندو راشٹر کے نام پراور مسلمانوں کے نام پر مسموم کرنے کی کوشش کررہے ہیں خاص کر نوجوان نسل کو اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔اس لئے موجودہ حالات کا تقاضہ ہے ہم اپنے مسلک ومشرب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کالبنیان المرصوص ہوجاہیں اور ساتھ میں غیر قوموں کے امن پسند لوگوں کو لیکر قافلہ کو آگے بڑھاتے رہیں تاکہ یہ مٹھی بھر بھگوا ٹولی کا ہم ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں ساتھ ساتھ ہوشیار بھی رہیں کہ ہماری کوئی معمولی غلطی سے پورے گاوں شہر ملک ملت کا نقصان نہ ہو۔ اللہ ہمیشہ ہم مسلمانوں کو اپنے حفظ امان میں رکھے ،آمین یا رب العالمین ۔(ملت ٹائمز)

SHARE