ڈاکٹر وحید انجم اور شیخ اعجاز مصور کا اردو ادب میں نمایاں کردار: ڈاکٹر طیب خرادی شعبہ اردو نیوکالج، چنئی میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد

چنئی: (پریس ریلیز) تامل ناڈو کا مشہور و معروف ادارہ نیوکالج کے شعبہ اردو میں 4دسمبر 2020 بروز جمعہ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر طیب خرادی کی صدارت میں ایک تعزیتی اجلاس کا انعقاد عمل میں لایا گیا، جس میں شہر گلبرگہ کرناٹک کے مشہور شاعرو افسانہ نگار ڈاکٹر وحید انجم اور اردو کے مشہور آرٹسٹ ومصور شیخ اعجاز مصور کی اردو خدمات کو یادکرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کیاگیا۔

اجلاس کا آغاز شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ساجد حسین ندوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ صدر شعبہ اردو ڈاکٹر طیب خرادی نے ڈاکٹر وحید انجم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے ڈاکٹر وحید انجم نہایت ہی خلیق، ملنسار اور ادب دوست شخصیت کے مالک تھے۔ خود اعتمادی اور قوت برداشت کا مادہ قدرتی طور پر ان میں ودیعت تھا۔ بزرگوں سے احترام سے پیش آتے تھے، ہم عمروں سے بے تکلفی اور چھوٹوں سے محبت اور شفقت سے ملتے تھے۔ خصوصاً نوجوان نسل اور نئے قلم کاروں کی رہنمائی فرماتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ تحقیق کے نگراں نہیں تھے، لیکن بہت سے تحقیق کرنے والے طلباء کی از اول تا آخر رہنمائی فرماتے اور تحقیق سے متعلق کتابوں کے انتخاب اور دیگر پریشانیوں کو دور فرماتے۔انہوں نے مزید کہا کہ ابھی حال ہی گلبر حاضری کے موقع پر ان سے ملاقات طے تھی پر نہ ہوسکی لیکن خدا کے فیصلہ کو کون ٹال سکتا ہے۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، ان کی یادیں اور ان کی تحریریں ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ایک بہترین شاعر تھے۔ ان کی ناگہانی موت اردو شعر و ادب کا عظیم نقصان ہے۔ ڈاکٹر وحید انجم ہرفن مولیٰ تھے۔ وہ بیک وقت، شاعر، ادیب، افسانہ نگار، خاکہ نویس اور اردو ادب کے بہترین استاذ تھے۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے۔
ڈاکٹر طیب خرادی نے مہشور آرٹسٹ اعجاز مصور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کی فنکاری کو کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ آرٹسٹ بہت ہوتے ہیں لیکن ان کو کا کمال یہ تھا وہ اردو شاعری کو آرٹ اور اپنے فن کے ذریعہ شعراء و ادباء کے خوبصورت تصاویر بناکر پیش کرتے تھے۔ وہ مصور ہونے کے ساتھ اردو کے افسانہ نگار و شاعر بھی تھے۔
بیرون ملک بھی آپ نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے، تقریباً دو دہائی عرب ملکوں میں رہے، پھر وطن واپسی پر سماجی، تعلیمی، ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔ خوش مزاجی ملنساری آپ کا وطیرہ تھی۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شخصیت و فن پر تحقیق کی جائے، تاکہ آنے والی نسلوں تک ان کا تعارف رہے۔یقیناً ان دو شخصیات کا اردو ادب میں بڑا کردار رہا ہے۔
آج وہ ہمارے بیچ نہیں رہے۔ ان کا تعلق ہمارے شہر گلبرگہ سے تھا۔ ابھی حال ہی میں گلبرگہ جاناہوا تھا، لیکن ہماری بد قسمتی کہیے کہ وعدے کے باوجود ان سے ملاقات نہ کرسکا جس کا صدمہ تاحیات مجھے ستاتا رہے گا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور خصوصاً پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آپ کے ان غمگین لمحات میں ہم دلاسہ دیتے ہیں اور آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
اخیر میں دونوں مرحومین کے لیے قرآن کی کچھ آیتیں پڑھ کر ایصال ثواب کیا گیا۔ پروفیسر سید شببیر حسین کی دعاؤں کے ساتھ یہ تعزیتی اجلاس اختتام پذیر ہوا۔ اس تعزیتی اجلاس میں شعبہ اردو کے اساتذہ پروفیسر باقرسید باقر عباس،سید شبییر حسین، ساجد حسین خالق احمد کے علاوہ دیگر حضرات بھی موجود تھے۔