عبد الرحمن عابد
محترم وزیر اعظم نریندر مودی صاحب !
آداب
جناب عالی آج ہم نے یہ طے کیا کہ ملک کی موجودہ صورت حال پر براہ راست آپ ہی سے مخاطب ھوا جائے ، اگر آپ ایک دن مین چار چار تقریریں ہمیں سناسکتے ہیں توہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنے ملک کے وزیر اعظم سے اپنے ملک کے عوام کی تکلیفوں کے سلسلہ میں براہ راست گفتگو کر یں ، حالانکہ براہ راست یہ کام ملک کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہئے تھا یہ انہی کی ذمہ داری ہے ، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں یاتو حکومت سے خوف زدہ ہیں یا پھر وہ حکمراں جماعت سے طیشدہ میچ کھیل رہی ہیں جسے آجکل فکسڈ میچ کہا جاتا ہے !
بہرحال ! ہم چند سلگتے مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں ان میں سرفہرست نوٹ بندی کا مسئلہ ہے ۔ ہم مانتے ہیں کہ آپ نے مکمل نیک نیتی سے جمع خوروں پر چوٹ کرنے کے لئے اور نقلی نوٹوں کا کاروبار ختم کرنے کے لئے ہی پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں پر یک لخت پابندی لگانے کا فیصلہ لیا ہوگا ، بحیثیت وزیراعظم اپنے ملک کے مفاد میں جوبھی ضروری ہو وہ فیصلہ لینا ایک وزیراعظم کاحق ہے اورذمہ داری بھی ؛ لیکن وزیراعظم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اسکے عواقب و نتائج پر مکمل غوروفکر کرے اس پر مکمل تیاری کرے یہ ذمہ داری بھی اسی کی ہے ، چونکہ حکومت کے فیصلے عوام کی بھلائی اور تعمیر و ترقی کے لئے ہونے چاہئیں ، اگر حکومت کے کسی فیصلے سے عوام کو راحت کے بجائے مصیبت ہونے لگے تو اس فیصلے کو فوری طور پر تبدیل کرنا اچھے حکمرانوں کا شیوہ ہے اس میں ضد یا انانیت ہر گز جائز نہیں !
! جناب عالی ! آج حالت یہ ہیکہ جن جمع خورں کے پاس کالے دھن کے انبار لگے پڑے ہیں انکے سب جگاڑ سیٹ ھوتے جارہے ہیں اور وہ عام عوام جنکے بینک کھاتے نہین یا جو بینک میں کھاتہ کھلنے کے بعد بھی یا تو لکھنے پڑھنے کی دقت کی وجہ سے یا بینک بابووُں کے چکر لگوا نے کی وجہ سے یا پھر اپنی محنت مزدوری کی مجبوریو نکی وجوہات سے بنک کے ذریعے لین دین نہ کرکے اپنے گھر سے ہی اپنی جمع پو نجی کے ذریعے اپنی ز ندگی چلارہے ہیں ، وہی آج بنکوں پر لائنوں میں کھڑے ہیں ، انکی زندگی کا پہیہ رک گیا ہے ، آج ایک طرف وہ مزدوری سے محروم ہیں تو دوسری طرف پیسہ پیسہ کرکے جمع کی گئی اپنے بچوں کی تعلیم گھر بیاہ شادی اور دکھ سکھ مین مشکل وقت کے لئے جمع کئے گئے بیس تیس پچاس ہزار یا لاکھ دولاکھ اور اوسط درجہ کے لوگوں کے پاس پانچ سات لاکھ روپئے جو بچوں کاپیٹ کاٹ کر جمع کئے گئے تھے آج وہی بے چارے چوربنادئیے گئے ، جن کے بچے جوان ہونے کو ہیں یا ہوگئے ہیں وہ شادیاں کیسے کریں ؟ پرانے نوٹ چلتے نہیں بینک میں کھاتہ ھے نہیں ، اگر ہے بھی تو ڈھائی لاکھ سے زیادہ اسے چور بنائے دے رہے اپنی خون پسینے کی کمائی آج کاغذ کے تکرے بنکر اسے خون کے آنسو رلارہی ہے ؟
جناب وزیراعظم صاحب!
ہمنے بھی کئی بینکوں کے چکر لگاکر حالات کو دیکھنے سمجھنے کی کوشش کی ہے ، ہمیں کہیں بھی کوئی جمع خور لائن میں لگا نظر نہیں آیا ، ہاں روز مرہ کی مزدوری کرنے والے رکشے ٹھیلے والے محنت کش ضرور پریشان دکھائی دئیے کچھ اس لئے کہ پائی پائی کر اپنے بچوں کی تعلیم گھر شادی اور دکھ سکھ کے وقت میں کام دینے کے لئے جمع پونجی کو بچانے کی تشویش میں انکی نینداور بھوک بھی حرام ہوگئی ہے ، وزیراعظم صاحب ہمیں امید ہی نہیں یقین کامل ہے کہ جمع خوروں کا جگاڑ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی ہوجائے گا وہ کم بڑھتی کرکے اپنے مال کو سفید کرنے میں کامیاب ہوجائینگے اور معاف کیجئے گا ہمیشہ کی طرح اقتدار کے قریب افراد ہی انکے کام آتے رہینگے ، ہماری رائے ہیکہ اس مسئلہ پر ملک کو آزمائش میں نہیں ڈالاجانا چاہئے !
اگر اس مسئلہ پر ضد ٹکراوُ اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کیا گیا تو پردھان سیوک جی ہمیں آنے والے کل کا خطرہ صاف نظر آرہا ہیکہ ملک میں غریبوں کا نوالہ چھن جائیگا اور نتیجے میں ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا ، اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھے اور دور اندیش حکمراں کی طرح اپنے رویے اورنظریے میں لچک پیداکرکے مسئلہ کوفوری طورپر حل کرنا چاہئے !
جناب وزیر اعظم صاحب ! ملک میں کس قدر ہاہاکار مچاہوا ھے – اسکا اندازہ ہمیں تو پہلے سے ھے لیکن جناب کے احساس کا اندازہ بھی اسی سے ہوگیا کہ آج ستانوے سال کی عمر میں آپ کی والدہ کو بھی گھر سے نکل کر بیٹے کو بچانے کے لئے بینک کی لائن میں لگنا پڑگیا ، دراصل ماں کی ہستی بنائی ہی ایسی گئی ہے کہ کسی بھی حال میں کسی بھی عمر میں اولاد کی تکلیف برداشت نہیں کرپاتی ، یہی آپکی ماں نے بھی کیا ۔ ایک طرف جہان یہ عمل مانکی عظمت کودرشاتا ھے وہین وزیر اعظم کے لیے یہ شرم کی بات ھے کہ اس کی مان ستانوے سال کی عمر مین بھی چند روپیون کے لیے بینک جاکر لاء ین مین لگے …افسوس مان کی خدمت نہ کرسکے اور دیش کی خدمت کا دعوی کرتے ہین بات کچھ بھاتی نہین ھے.!
آپ نے چونکہ تین دن پہلے گوا کے بھاشن میں جذباتی انداز میں اپنی جان کو خطرہ بتایا تو ہمیں بھی حیرت ہوئی کہ کیا واقعی ہمارے ملک کے حالات اتنے ابتر ہوچکے ہیں کہ وزیراعظم خود اپنی جان کا خطرہ عوامی جلسے میں اعلان کرے ، لیکن فوراً ہی ذہہن میں دوسرا سوال پیدا ہوا کہ جو وزیراعظم اعلانیہ طور پرخود اپنی جان کو خطرے میں بتاکر پورے ملک کو حیرت زدہ ہی نہیں دہشت زدہ بھی کردے – تو ایسے وزیراعظم کو عہدے پر رہنے کا اخلاقی حق کتنا ہے یہ تو آپ خود ہی طے کرسکتے ہیں ۔ لیکن چونکہ ہر ممکن کوشش کرکے ہم آپ کو براہ راست سننے کی کوشش کرتے ہیں اسلئے ایک بات تو ضرورعرض کرینگے کہ گزشتہ چار روز سے تقریروں میں جو زبان آپ استعمال کر رہے ہیں وہ بھارت جیسے عظیم ملک کے وزیراعظم کی زبان تو ہر گز نہیں ہوسکتی اور اس منصب کے شایان تو بالکل بھی نہیں ہے ، اس لئے ہم گزارش کرینگے کہ اپنی زبان کو بھی سنبھالین اور اپنے آپ کو بھی ، یہ بات کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن کہے دیتاہوں کہ شاید بی جے پی مخالف مسلمانوں میں یہ فقیر پہلا شخص تھا جس نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ فوراً تنقید کرنا مناسب نہیں ایک شخص وزیراعظم بنا ہے اسکو کم ازکم ایک سال یا چھ ماہ دیکھنا چاہئے اسکے بعد ہی اسکے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے کہ آیا وہ مسلم دشمن ہے یا نہین – یا پھر دوستی اور دشمنی کے دائر ے سے خود کو باہر رکھتا ہے ۔؟ لیکن۔۔۔۔۔
جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزیراعظم صاحب ۔۔۔۔۔معذرت چاہتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ لوگوں کے اندیشے درست ثابت ہوئے ہیں حالانکہ مجھے یہ امید تھی کہ اپنی مضبوط قوت فیصلہ کو بروئے کار لاکر آپ ملک کے اہم اور دیرینہ تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہونگے ، لیکن آپ نے اچھے سے اچھا فیصلہ بھی نہایت بھونڈے طریقے سے سیاسی مفاد حاصل کر نے کی کوشش کی جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے عوام اور اپوزیشن جماعتوں کاتعاون حاصل کرنے میں بھی آپ پوری طرح ناکام رہے ۔ کیونکہ آپ کا طرز عمل جمہوری حکومت کا طرز عمل نہ ہوکر ڈکٹیٹر شپ کی طرح کاہوتاہے ، اتفاق رائے پر شاید آپ یقین ہی نہیں رکھتے ۔۔۔۔ بہر حال اگر آپ واقعی دیش کی سیوا کے لئے گھر بار چھوڑ ے ہوء ے ہیں تو عوام کی تکلیفوں کا احساس کرکے فیصلے کیجئے نہ کہ بی جے پی کی واہ واہی لوٹنے کے لئے ۔ !
اسکے علاوہ بھی درجنوں مسائل پر آپ سے بات کرنی ھے ۔ کشمیر کو آپ کی حکومت نے جیل خانے میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ پاکستان سے گفتگو کے آپکے فیصلے کو ہمنے بلائنڈ سپورٹ کیا تھا ، اس مسئلہ پر آپکے خلاف صف بندی کرنیوالوں کو آئینہ دکھا نے میں بھی کو ئی کسر نہیں چھوڑی ، کشمیر مسئلہ پرآپ نے شروع میں کچھ سنجیدگی ظاہر کی تو بھی ہم نے امید قائم کی شاید یہ آگ بجھ جائے گی لیکن کیا ہوا ؟ غریبوں کے لئے جن دھن یوجنا کا سواگت کیا ، مگر آج جو مارا ماری ہے اس پر کیا کریں ؟
انکے علاوہ درجنوں مسائل ملک کی اقلیتوں دلتوں بالخصوص مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی مہم چلائی گئی آپ چپ رہے ، دادری میں ایک جھوٹی افواہ کی بنیاد ایک انسان کی جان لے لی گئی اور آپکی پارٹی کے وزیر، ایم پی لیڈر ماحول کو بگاڑتے رہے فرقہ پرستی پھیلاتے رہے آپ چپ رہے ، دادری کے مجرموں کے ساتھ آپکی حکومت کھڑی رہی ، لو جہاد کا فتنہ آپکی پارٹی کے لیڈروں نے اٹھایا ، مدرسوں پر حملے کئے مسلمان صبر کرتے رہے ، گائے رکشا کے نام پر ملک بھر میں فتنے برپا کئے گئے ایک طرح سے گیؤ رکشا کا نعرہ مسلمانو کے قتل کا لائسنس بن گیا ۔۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ مسئلہ مسلمانوں سے آگے بڑھ کر دلتوں کے لئے بھی جان لیوا بن گیا تو آپکی خاموشی ٹوٹی ، لیکن سوال یہ ھیکہ کیا اس ملک کی اقلیتین دلت اور پسماندہ طبقات RSS کی رعیت ہین ؟
اسی طرح آپ کی حکومت نے کچھ نام نہاد مسلم عورتوں کو منظم منصوبہ بندی کے ساتھ تین طلاق کے بہانے اسلامی شریعت میں مداخلت کی ناجائز کوششیں کی گئیں ، ایسے جاہل بلکہ بعض احمق لوگوں کو مسلمانوں اور اسلامی اسکالروں کے نام پر قرآن کے معنی بھی گستاخانہ نکلوانے کی مہم چلائی گئی ۔ عدالتوں کو متاء ثر کرنے کے لئے میڈیا مہم جیسے نہایت مکروہ طریقوں سے شریعت کو شکار کرنے کی سازش بھی آپ ہی کی سر پرستی میں کی جاتی رہی ہیں ۔!
کشمیر کے بچوں کے پتھر پھینکنے کا تو زبردست پرچار تشہیر کیا جاتا ہے لیکن بچوں کی موت بچوں پر ظلم بچوں کی آنکھیں لیلی گئی ہیں اس پر کسی کے دل میں ٹیس نہیں سر سر سر کوء مسلمان کچھ بولے تو پاکستانی ہے ، حکومت کے فیصلے پر تنقید کی یا سوال اٹھایا تو دیش دروہی ۔ ؟ آخر یہ دیش آپکی قیادت میں کہاں جارہا ہے ۔ محترم کیا آپ صرف بی جے پی کے وزیراعظم ہیں ،؟ یا ملک کے وزیراعظم ہیں ۔؟ محترم یہ ملک جمہوری ملک ہے ہٹلر کے زمانے کا جرمنی نہیں ہے سر !!!
آپکی نیت کچھ بھی ہو لیکن طریق کار بالکل آمرانہ تغلق شاہی کا ہے ، یہ دیش کو بنانے کے بجائے بگاڑنے کی طرف لے جارہاہے ۔ مودی صاحب آپ وزیراعظم ہیں سدھرنا سب سے پہلے آپکو پڑے گا۔ اگر نہیں سدھر سکتے تو دیش کو قطعاً نہیں سدھارسکتے ۔۔ امید ہیکہ اس تحریر کا خلاصہ آپکو ضرور پہونچے گا اور آپ اس پر سنجیدگی سے غور کرکے اپنا اور اپنی پارٹی کا رویہ تبدیل کرینگے ۔۔ اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر آپکو دیش سے قربانی اور تیاگ کی اپیل کرنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ھے ۔۔۔امید پر دنیا قائم ھے ۔۔!!!
(مضمون نگار سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)