حضرت قاضی عبد الجلیل صاحب کا انتقال پُرملال ملت اسلامیہ کے لیے ایک بڑا خسارہ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا تعزیتی بیان

حضرت مولانا قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات علمی دنیا کے لیے اور شریعت اسلامی کی تنفیذ کی کوششوں کے لیے بہت ہی بڑا نقصان ہے، وہ ملک کے سب سینئراور معتبر قاضی تھے، اور پورے ملک سے امور قضاء کے سلسلہ میں لوگ ان سے رجوع کیا کرتے تھے، میں جب امارت شرعیہ میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ کے ساتھ رہا کرتا تھا اس وقت مولانا بتیا (چمپارن) میں قضاء کا کام انجام دیتے تھے،مختلف قضاۃ کے جوخطوط آتے تھے جو سوالات آتے تھے، اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان میں سب سے زیادہ وقیع خطوط مولانا عبد الجلیل صاحب کے ہوتے تھے، قاضی صاحب بڑی توجہ سے پڑھتے تھے اور پھر اس کا جواب عنایت فرماتے تھے اور جہاں تک میں نے دیکھا ہے کہ وہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوریؒ اور حضرت مولانا قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ان دونوں پر قضاء سے متعلق امور میں بہت ہی زیادہ اعتماد کیا کرتے تھے، یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ سماعت اور فیصلہ کے اعتبار سے حقیت کے مقدمات بہت اہم اور مشکل ہوتے ہیں، ان کو اس میں بھی بڑی مہارت حاصل تھی، وہ سابق امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کے چہیتے شاگرد تھے، یقینا ان کی وفات نے ایک بڑا خلا پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان میں مردم گری اور افراد سازی کی صلاحیت بھی ودیعت فرمائی تھی، آج ملک بھر میں مختلف جگہ جو دار القضاء قائم ہیں اور وہاں قضاۃ کام کر رہے ہیں ان میں سے بیشتر لوگ ان ہی کے تربیت یافتہ ہیں، قاضی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھا فقہی ذوق عطا فرمایا تھا، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمیناروں میں ان کے مقالات قدر وو قعت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ، وہ اس طرح اکیڈمی کے مختلف علمی کام، اہم فقہی کتابوں کے ترجمے اور ان ترجموں پر نظر ثانی اور نظر نہائی کو قاضی صاحب کے ساتھ مہارت کے ساتھ انجام دیتے تھے، اور کسی چیز کو ڈوب کر پڑھتے اور پھر اس کے بارے میں رائے دیا کرتے تھے، ان کے اسی علمی ذوق اور اکیڈمی کے کاموں میں تعاون کی وجہ سے سن 2016 میں اسلامک فقہ اکیڈمی کی مجلس اساسی کا رکن منتخب کیا، اور پچھلی میٹنگ سے پہلے تک وہ ہمیشہ بہت ہی پابندی کے ساتھ اکیڈمی کی مشاورتی نشستوں میں بھی شریک ہوتے تھے اور سمیناروں میں بھی شریک ہوتے تھے، پچھلی بار انہوں نے شرکت سے معذرت ظاہر کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ میری صحت اب اس لائق نہیں رہ گئی ہے کہ میں سفر کرسکوں، کسے معلوم تھا کہ جلد ہی اللہ کے یہاں سے ان کا بلاوا آنے والا ہے ، بہرحال قاضی صاحب کی وفات سے ملت اسلامیہ ایک بڑے صاحب علم سے محروم ہوگئی اور امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ایک اہم شخصیت سے محروم ہوگئی، اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔