حلب میں انساینت لہولہان

noorusalam-nadwiنورالسلام ندوی
لہو لہان ہے حلب ہمارا
کب جاگے گا ضمیر ہمارا
سرزمین شام اس وقت خون آشام معرکہ آرائیوں سے گذر رہا ہے ،خاص طور پر شام کی ایک اہم ریاست ”حلب “ پر قیامت صغریٰ کا منظر ہے ۔ ”حلب “مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے، بھیانک قتل عام جاری ہے ۔ شہر” حلب “کی جو خبریں اور تصویریں آر ہی ہیں اس کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد جسم کا رواں رواں کانپ جاتا ہے۔ شہر” حلب “اب تقریباً ملبہ کا ڈھیر ہو کر رہ گیا ہے، وہاں صرف انسانی لاشوںکا انبار ہے۔ چیخ و پکارکی صدائیں ہیں، کراہتے، بلکتے، دم توڑتے انسانوں کی آہ بکاءہے، بم و بارود کی بھیانک اور خوفناک آوازیں ہیں۔ حالات اس قدر سنگین ، دردناک اور المناک ہیں کہ کچھ بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ شام کی بشارالاسد حکومت روس اور ایران کے ساتھ مل کر جس طرح ”حلب “کے شہریوں کو تہہ تیغ کر رہا ہے، اس نے سابقہ تمام ریکارڈ کو توڑ دیا ہے۔ ان کی حرکتوں پر شیطان بھی ضرور شر مندہ ہوگا۔ آخر کیا گنا ہ ہے حلب کے ان باشندوں کا؟ ان معصوم بچوں کا ، ان پاک دامن عورتوں کا ، ان مظلوم لوگوں کا؟ ؟؟ کن جرائم کی پاداش میں انہیں قتل کیا جا رہا ہے ؟ کیا قصور ہے ان کا کہ توپ و تفنگ کی بارش کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے ؟؟؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ”باشندگان حلب“ زبان حال سے اور” شہیدان حلب “زبان دل سے بالعموم پوری دنیا سے اور بالخصوص پورے عالم اسلام سے پوچھ رہے ہےں۔
گذشتہ دنوں جنگ بندی معاہدہ ہونے کے باوجود شہریوں کی ہلاکت کی برابر خبریں آرہی ہےں۔ جنگ بندی معاہدہ کے بعد” حلب “کے لوگوں کا انخلا شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً چھ ہزار افراد شہر چھوڑ چکے ہیں ، تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اب بھی کم از کم پچاس ہزار سے زائد لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ روس کی حمایت سے شامی فوج ”مشرقی حلب “کے ان تمام محلوں پر اپنا تسلط قائم کر چکی ہے جو باغیوں کے قبضے میں تھے۔ ”مشرقی حلب “کے ان علاقوں سے ہزاروں لوگوں کو نکالنے کا عمل نہایت مشکل ہے جہاں حکومتی فورسیز حملے کر رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے میں حلب کے پھنسے ہوئے مریضوں اور زخمیوںکو نکالنے کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا وہ روسی فوجیوںکے حکم کے بعد سے معطل کرنا پڑا ہے۔
بشارالاسد” حلب “کے جن گرہوں کو باغی قراردے کر روس اور ایران کے ساتھ مل کر ان کا اجتماعی قتل کر رہے ہیں، وہ دراصل باغی نہیں ہیں، وہ اسی شہر کے باشندے ہیں، انہیں اقوام متحدہ نے باقاعدہ ایک حزب اختلاف کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اس لئے انہیں باغی اور دہشت گرد کہنا مناسب نہیں۔یہ استحصال زدہ لوگ ہیں، جنہیں حق وانصاف نہیں ملا، یہ لوگ اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں، انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، نا انصافی و حق تلفی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ عام لوگوں کا انہیں ساتھ ملا، بشارلاصد کے خلاف جب عوامی آواز بلند ہوئی اور انہیں اپنی حکومت خطرہ میں جاتی دکھائی دی تو انہوں نے اقتدار باقی رکھنے کے لئے ان احتجاجیوں کو باغی اور دہشت گرد قرار دے کر روس اور ایران کو ساتھ ملا کر ان کو تہہ تیغ کرنا شروع کردیا ۔ ایک انداز ے کے مطابق” حلب “میں حالیہ جنگ میں اب تک ایک ہزار سے زائد بے قصور افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
بلادشام مذہبی ، تاریخی اور ثقافتی نقطہ نظر سے دنیا کے نقشہ پر ہمیشہ اہمیت کا حامل مانا جاتا رہا ہے۔ دنیا کے تین بڑے آسمانی مذاہب یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں کے نزدیک یہ علاقہ مقدس اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی کافی ہے کہ قرآن کریم کی مختلف آیت کریمہ اور احادیث نبویہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر مکہ ومدینہ کے بعد سب سے زیادہ فضیلت اسی خطہ کو حاصل ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت داو¿د علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بھی بہت سے انبیاءکا ماوی و مسکن اور ان کی خدمت کا میدان کار رہا ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس بھی اسی خطہ میں آباد ہے۔ تاریخ انسانی میں تہذیب وثقافت کی رفعت و بلندی کی کتنی ہی عظیم داستانیں اسی سرزمین سے وابستہ ہیں۔ ”انقلاب شام “کے مصنف اس بابت روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
”محل وقوع کے اعتبار سے شام دنیا کا بہت ہی اہم اسٹراٹیجک خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی مغرب و مشرق کی تہذیبی اور تجارتی راہ داری کے طور پر اسے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کی بڑی بڑی انسانی تہذیبیں اس سرزمین پر پروان چڑھیں، یونان و روما سے لے کر عرب کے عہد ساز تہذیبوں نے یہاں اپنے دیرپا نقوش چھوڑے ہیں۔ اس ملک کا چپہ چپہ قدیم انسانی تہذیب و تمدن کی نادر یادگار وں سے بھرا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مو¿رخین اس ملک کو تاریخ عالم کا دروازہ کہتے ہیں۔“ (انقلاب شام: ص 83)
”حلب “شام کی ایک ایسی ریاست ہے، جو اپنی زرخیزی ، شادابی اور قدرتی و سائل کے لحاظ سے بے مثل ہے ۔ یہاں ملک کی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی یعنی پچیسواں حصہ آباد ہے۔ یہاں کے لوگ ایمان دار، غیرت مند اور جفاکش ہوتے ہیں۔ ”حلب“ کی موجودہ صورت حال اور بشارالاسد کا روسی و ایرانی افواج کی مدد سے یہاں کے شہریوں کا قتل عام ہنوز جاری ہے۔ اس واقعہ کو سمجھنے کے لئے تھوڑا ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا۔ تاریخ کے جھروکوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مخالف طاقت و حکومت شروع ہی سے اس سرزمین سے مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ انہیں جب بھی کوئی ایساموقع ملا تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔عیسائی دنیا دو ہزار سالوں تک یہاں اپنی پوری طاقت جھونکتی رہی ہے۔ سات مرتبہ صلیبی حملوں کا شکار ہوچکا ہے۔ لیکن ایمان و یقین کے متوالے اور دین و اسلام کے جانباز بڑی دلیری وبہادری سے اس کا مقابلہ کرتے آرہے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران 1917 ءمیں برطانیہ اور فرانس نے شام پر حملہ کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ برطانیہ اور فرانس نے ”سایکس پیکو “معاہدہ کیا اور بلاد شام کو چار ملکوں سیریا، اردون، لبنان اور فلسطین میں بانٹ دیا اور ان میں ہر ایک جگہ اسلام مخالف طاقتوں کو اقتدار سونپ دیا ۔چنانچہ فلسطین یہودیوں کو لبنان موارنہ کو اور سیریا نصریوں کو سونپ دیا۔ جب حافظ الاسد کے ہاتھ میں اس کا اقتدار آیا تو اس نے حیوانیت اور درندگی کی ساری حدیں پار کردیں۔ 1971 ءمیں حافظ الاسد اقتدار میں آتے ہی سنی مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد و خواتین کو قتل کر وادیا یا زنداں میں ڈلوادیا۔ انہوں نے سیریا میں ظلم و بربریت کی ایسی مثال قائم کی جسے بیان کرتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے۔ پوری اسلامی دنیا، اقوام متحدہ ، حقوق انسانی کی تنظیمیں دیکھتی رہی، خاموش تماشائی بنی رہی، کسی نے حافظ الاسد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ چنانچہ شیخ مروان حدید نے سب سے پہلے اس حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ۔ انہوں نے 1975 ءمیں شہر” حماة “سے اس کی سور پھونکی ۔ جس کی پاداش میں وہ جیل کی صوبتیں جھیل کر 1976 ءکو شہید ہوئے ۔ اسی کی بنیاد اوراسی کی آڑ میں حافظ الاسد نے شہر” حماة“ کے لوگوں کو جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکردہ شخصیات شامل تھے کا قتل کروایا یا پھر جیل کی آہنی سلاخوں میں ڈالوا دیا۔ جیل میں ان قیدیوں کو دردناک سزائیں دی جاتیں ،جن کے سننے کے بعد رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس سے بھی اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو انہوں نے 1982 ءکو” حماة“ شہر پر فوجی حملہ شروع کردیا اور تقریباً ایک مہینہ تک بے رحمی کے ساتھ میزائلوں ، ٹینکوں اور بموں سے پورے شہر کو قبرستان میں تبدیل کردیا۔ اس کا روائی میں چالیس ہزار سے زائد افراد قتل ہوئے۔ 10 / جون 2000 کو حافظ الاسد اپنے انجام کو پہونچا، توا ن کی جگہ ان کا بیٹا بشارالاسد اقتدار پر بیٹھا۔ بیٹا سقاوت قلبی اور اسلام دشمنی میں باپ سے دو قدم آگے نکلا ، اس نے باپ کے راستہ پر چلتے ہوئے ان باغیوں اور احتجاجیوں کی آڑ میں اب ”شہر حلب“ کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا ہے۔
سیریا میں یوں تو سنی مسلمان گذشتہ چالیس برسوں سے کشت و خون کی ہولی کھیلتے آئے ہیں۔ لیکن 2011 سے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوںمیں اس وقت تیزی آئی جب شہر” درعا “سے اسدی حکومت کے خلاف عوام کا احتجاج بلند ہوا، اور دیکھتے دیکھتے احتجاج کے یہ شرارے مزید بھڑک اٹھے اور حمص، حماة، بعدازاں اب” حلب“ پہنچاہے۔ اسدی فوجوں نے آناًفاناً اس کے خلاف اپنی کاروائی شروع کردی، روس اور ایران نے اس کا ساتھ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے” حلب شہر “بھی برباد ہوگیا۔
2011 ءسے اب تک گذشتہ پانچ سال میں سیریا میں اب تک دو لاکھ سے زائد مسلمان قتل کئے جا چکے ہیں، دو ملین سے زائد مسلمان ترکی، اردن اورلبنان میں مہاجر کیمپوں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں مکمل طورپر معذور و اپاہج ہو چکے ہیں۔ حالیہ جنگ میں” شہر حلب “کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ پچاسوں ہزار لوگ پھنسے ہوئے جن کا نکالنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جو لوگ زخمی ہوچکے ہیں اور اسپتالوں میں زیر علاج ہیں انہیں دوائیاں نہیں مل رہی ہےں ۔ جو لوگ بچے ہوئے ہیں انہیں غذا ئیں نہیں مل رہی ہےں، پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ افسوس ہے عرب ممالک کی خاموشی پر، ماتم ہے مسلم حکمرانوں پر جن کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگیں۔ آج حقوق انسانی کے علمبرداروں کی آنکھوں میں دھول پڑگیا، انہیں حلب میں حقوق انسانی کی پامالی نظر نہیں آرہی ہے۔ عالمی امن کے اداروں کے دعویٰ کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ ہاتھی کے دانت بن کر رہ گئے ہیں۔” حلب“ کے مسلمانوں کو کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے۔ ان کا بس اللہ مالک ہے۔۔۔ سلام ہو تم پر اے حلب کے جانبازو! تمہارے صبرواستقلال کی ہم داد دیتے ہیں، ہم شرمندہ ہیں کہ تمہاری مدد نہ کرسکے۔لیکن ہمیں یقین ہے کہ تم اللہ کے حضور ضرور سرخرو ہوگے، تمہارا خون رائیگاں نہ جائے گا۔ ایک دن تمہارا خون ضرور رنگ لائے گا۔ اسدی ، ملیشیائی، ایرانی اور روسی سبھی ذلیل و خوار ہونگے۔ اسلام تمہارے خون سے سر بلند ہوگا،حق کی فتح ہوگی۔ الحق یعلی لا یعلی۔ حق ہی سربلند ہوگا وہ کبھی زیر نہیں ہو سکتا۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
E-mail.nsnadvi@gmail.com

SHARE