مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ، ان میں ایک بڑی نعمت اولاد ہے ، انسان کے پاس راحت و آرام کی ساری چیزیں موجود ہیں ؛ لیکن وہ اولاد سے محروم ہے تو اسے اپنی دنیا نامکمل اور ناتمام محسوس ہوتی ہے ، دنیا کے بعض مذاہب میں انسان کا صاحب اولاد ہونا اوربیوی بچوں کی شرکت کے ساتھ زندگی گزارنا ناپسندیدہ اور اس کو روحانی ترقی میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے ؛ لیکن پیغمبر اسلام ا نے نہ صرف اپنے ارشاد ؛ بلکہ اپنے عمل سے بھی اس تصور کی تردید فرمائی ، ایک شفیق باپ کو اپنی اولاد کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے ؟ آپ نے اس کی عملی مثال پیش فرمائی ۔
آپ انے اولاد کے سلسلہ میں یہ اُسوہ پیش کیا کہ انسان کو ماں باپ بننے پر خوش ہوناچاہئے ، آپ اکے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ پیدا ہوئے تو آپ اکو آپ کے آزاد کردہ غلام ابو رافعؓ نے ولادت کی خوشخبری سنائی ، آپ اس قدر خوش ہوئے کہ انھیں اس خوشخبری پر ایک غلام عطا فرمایا : ’’ وبشرہ بہ أبو رافع مولاہ فوھب لہ عبداً‘‘ (زاد المعاد : ۱؍۱۰۴) آپ اپیدائش کے بعد دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کے کلمات کہہ کر کسی میٹھی چیز جیسے کھجور سے تحنیک فرماتے ، اچھا خوبصورت سا نام رکھتے ، اس کا بال مونڈاتے اوربالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ فرماتے ۔ ( زاد المعاد : ۲؍۲۔۴)
آپ اہمیشہ بچوں اور ان کی اولاد کے ساتھ بے حد شفقت کا معاملہ فرماتے ، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ مرض وفات میں حاضر خدمت ہوئیں تو آپ انے فرمایا : خوش آمدید میری بیٹی کو ، پھر ان کو دائیں یا بائیں بیٹھایا ، اور ان سے رازداری کے ساتھ باتیں کی : ’’ مرحباً یا بنتی ، ثم أجلسھا عن یمینہ أو عن شمالہ ثم أسر إلیھا حدیثاً‘‘ (مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل فاطمہؓ ، حدیث نمبر : ۲۴۵۰) اور یہ رسول اللہ ا کا عام معمول مبارک تھا ؛ چنانچہ روایت ہے کہ جب حضرت فاطمہؓ حاضر ہوتیں تو آپ ان کے لئے کھڑے ہوتے ، ان کا ہاتھ تھامتے ، بوسہ دیتے ، انھیں اپنے دائیں طرف بیٹھاتے اور کبھی ان کے لئے اپنا کپڑا بچھادیتے ، (کنز العمال ، حدیث نمبر : ۳۴۰۹) آپ اکا یہ عمل جہاں اولاد کی محبت کو ظاہر کرتا ہے ، وہیں اس بات کو بھی بتاتا ہے کہ جیسے بیٹے قابل محبت ہیں ، اسی طرح بیٹیاں بھی محبت کئے جانے کے لائق ہیں ؛ بلکہ آپ انے بیٹیوں کی پرورش اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو بیٹوں کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی اور فرمایا : جو شخص بیٹیوں کی بہتر طورپر پرورش کرے ، وہ جنت میں مجھ سے اتنا قریب ہوگا ، جیسے یہ دونوں انگلیاں ہیں ، (ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات ، حدیث نمبر : ۱۹۱۴) آپ اکے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کو جو خاتون دودھ پلاتی تھیں وہ مدینہ میں تین میل کے فاصلہ پر عوالی کے علاقہ میں تھیں ، آپ اوہاں تشریف لے جاتے ، ان کا بوسہ لیتے اور ان کو سونگھتے ، پھر وہاں سے واپس ہوتے : ’’ والعوالی علی بعد ثلا ثۃ أمیال من المدینۃ لیزور ابنہ إبراھیم فیقبلہ ویشمہ ثم یعود‘‘ ۔ (مسلم ، کتاب الفضائل ، باب رحمتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الصبیان، حدیث نمبر : ۲۳۱۶)
جیسے آپ ااپنی اولاد سے محبت فرماتے تھے ، اولاد کی اولاد سے بھی ایسی ہی محبت اور شفقت کا معاملہ فرماتے تھے ، ایک بار حضرت حسن بن علیؓ کا آپ ابوسہ لے رہے تھے حضرت اقرع بن حابسؓ نے دیکھا تو غالباً ان کو خیال ہوا کہ اس طرح بچوں سے پیار کرنا مقام نبوت کے شایانِ شان نہیں ؛ اس لئے انھوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ، آپ انے ان کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو رحم دلی کا تقاضا ہے اور جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا : ’’ من لا یرحم لا یرحم ‘‘ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۵۶۵۱) ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ا حضرت حسنؓ یاحسینؓ سے کھیلتے ، ان کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر انھیں اپنے سینے پر چڑھا لیتے ، پھر ان کا بوسہ لیتے ، ( طبرانی فی الکبیر ، حدیث نمبر : ۲۶۵۳) ایسا بھی ہوا کہ آپ نے حضرت حسنؓ اورحسینؓ کو پشت مبارک پر سوار کرلیا اور فرمایا : تمہاری سواری کیا بہتر سواری ہے اور تم دونوں کیا ہی بہتر سوار ہو ؟ (طبرانی فی الکبیر ، حدیث نمبر : ۲۶۶۱) ایک بار آپ ا خطبہ دے رہے تھے ، اسی درمیان حسنؓ و حسینؓ لوگوں پھاندتے ہوئے آپ کے قریب آگئے ، آپ انے خطبہ روک کر انھیں گود میں لے لیا ، پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ کہا کہ مال و اولاد آزمائش ہیں ، ( تغابن : ۱۵) میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہیں کرپایا ، پھر آپ خطبہ دینے لگے ، ( ابوداؤد ، عن عبد اللہ بن بریدہؓ ، حدیث نمبر : ۱۱۰۹) حضرت یعلی بن مرہ سے روایت ہے کہ آپ اپنے رفقاء کے ساتھ کھانے پر مدعو تھے ، اتفاق سے حضرت حسینؓ گلی میں کھیل رہے تھے ، آپ انے آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا دیا ، حضرت حسینؓ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے ، آپ انھیں ہنساتے رہے ، یہاں تک کہ انھیں پکڑلیا اور ان کا ایک ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھا ، ایک سر کے پیچھے ، پھر انھیں بوسہ دیا اور فرمایا : حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، جو حسینؓ سے محبت رکھے گا ، اللہ ان سے محبت رکھے گا ۔ ( ابن ماجہ ، حدیث نمبر: ۱۱۸)
ایک بار آپ ا ظہر یا عصر کی نماز کے لئے تشریف لائے ، اس وقت آپ نے حضرت حسنؓ یا حضرت حسینؓ کو اُٹھا رکھا تھا ، آپ نے ان کو اپنے قدم مبارک کے پاس رکھا اور نماز میں مصروف ہوگئے ، جب سجدہ فرمایا تو بہت طویل سجدہ فرمایا ، ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں نے اپنا سر اُٹھایا تو دیکھا کہ آپ ا سجدے میں ہیں اور حضرت حسینؓ آپ کی پشت پر بیٹھے ہوئے ہیں ، میں پھر سجدہ میں چلاگیا ، آپ انے نماز مکمل کی تو لوگوں نے پوچھا : آپ انے آج معمول کے خلاف سجدہ فرمایا ہے ، کیا آپ کو اس کا حکم دیا گیا تھا یا آپ پر وحی نازل ہورہی تھی ؟ آپ انے فرمایا : ایسا نہیں تھا ؛ لیکن مجھ پر میرا بیٹا سوار ہوگیا تھا ، مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میں عجلت سے کام لوں ، اس لئے میں نے تاخیر کی ؛ تاکہ وہ اپنا شوق پورا کرلے ۔ ( نسائی ، کتاب صفۃ الصلاۃ ، باب ہل یجوز ان تکون سجدۃ أطول من سجدۃ ؟ حدیث نمبر : ۱۱۴۱)
حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضور ا ایک بار دن میں نکلے ، نہ آپ مجھ سے کچھ بات کررہے تھے اور نہ میں آپ سے کچھ عرض کررہا تھا ؛ چنانچہ بنی قینقاع کی مارکیٹ میں آئے ، حضرت فاطمہؓ کے مکان کی دیوار کے پاس بیٹھ گئے اور حضرت حسنؓ کے بارے میں دریافت کیا : کیا وہ یہاں موجود ہے ؟ تھوڑی دیر ہوئی ، غالباً حضرت فاطمہؓ ان کو کپڑے پہنارہی تھیں یا نہلا رہی تھیں ، پھر وہ بھاگتے ہوئے آئے ، آپ ا نے ان کو گلے لگایا ، بوسہ دیا اور فرمایا : اے اللہ ! اس سے محبت فرما اور جو لوگ اس سے محبت کریں ، ان کو بھی اپنا محبوب رکھ ۔ ( بخاری ، عن ابی ہریرہؓ ، حدیث نمبر : ۲۱۲۲)
آپ اکا جو سلوک اپنے نواسوں کے ساتھ تھا ، وہی سلوک اپنے خادم خاص حضرت زیدؒ کے صاحبزادے حضرت اسامہؓ کے ساتھ بھی ہوا کرتا تھا ؛ چنانچہ ایک موقع پر آپ انے اپنی ایک ران پر حضرت اسامہؓ کو بٹھایا ، ایک ران پر حضرت حسنؓ کو ، اور ان دونوں کو اپنے ساتھ چمٹاکر فرمانے لگے : اے اللہ ! آپ ان دونوں کے ساتھ مہربانی کیجئے ؛ کیوں کہ میں بھی ان دونوں پر مہربان ہوں ۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۶۰۰۳)
یہ عمل آپ کا صرف حضرات حسنینؓ ہی کے ساتھ نہیں تھا ؛ بلکہ خاندان کے دوسرے بچوں اور عام بچوں کے ساتھ بھی تھا ، ایسا بھی ہوتا کہ آپ اس حال میں نماز پڑھتے کہ حضرت امامہ بنت زینبؓ کو اُٹھائے ہوتے جب سجدے میں جاتے تو ان کو رکھ دیتے اور جب سجدے سے اُٹھتے تو ان کو اُٹھالیتے ، ( بخاری ، عن قتادہ ، کتاب ابواب سترۃ المصلیٰ ، باب إذا عمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۴۹۴) حضرت عباسؓ کے صاحبزادوں حضرت عبد اللہؓ ، حضرت عبیداللہؓ وغیرہ کو بلاتے اور فرماتے : جو پہلے میرے پاس پہنچے گا ، اس کو یہ اور یہ انعام ملے گا ، سب دوڑ لگاکر آپ کے پاس آتے ، کوئی سینہ پر چڑھ جاتا ، کوئی پشت پر ، آپ ان کو سب کو چمٹاتے اور ان سب کا بوسہ لیتے ، ( مسند احمد ، حدیث نمبر : ۱۸۳۶) یہی معاملہ آپ کا اپنے رفقاء کے بچوں کے ساتھ بھی ہوتا ، حضرت اُم خالدؓ ہمیشہ اپنے ایک واقعہ کا ذکر کرتی تھیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئی ، میں نے زرد رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی ، آپ انے فرمایا : ’’ سَنَہْ سَنَہْ ‘‘ یعنی : اچھا ہے ، اچھا ہے ، میں آپ کی مہر نبوت (جو دونوں مونڈھوں کے درمیان تھیں ) سے کھیلنے لگی ، میرے والد نے مجھے منع کیا ، آپ انے فرمایا : چھوڑ دو ، پھر آپ نے مجھے تین دفعہ دُعاء دی :’’ پرانا اور بوسیدہ کرو ‘‘ یعنی یہ کپڑا بہت دنوں تک تمہارے کام آئے ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۳۰۷۱) ایسا بھی ہوتا کہ آپ بعض دفعہ بچوں کو لیتے اور وہ آپ ہی کے کپڑوں پر پیشاب کردیتے ؛ لیکن آپ ااس کا بُرا نہیں مانتے ۔ ( مسند احمد ، عن ام کرز خزاعی ، حدیث نمبر : ۲۶۸۳۵)
آپ ابچوں کے ساتھ خوش طبعی بھی فرماتے ، ایک کم سن صحابی حضرت ابوعمیرؓ کے پاس ایک پرندہ تھا ، جس سے وہ کھیلتے تھے ، جب آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو فرماتے : ’’ یا أبا عمیر ما فعل النغیر؟‘‘ (ترمذی ، کتاب الصلاۃ ، باب ماجاء فی الصلاۃ علی البسط ، حدیث نمبر : ۳۳۳) یعنی اے ابو عمیر ! تمہارے ساتھ گوریئے نے کیا کیا ؟ ۔۔۔ حضرت محمود ابن ربیعؓ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب میری عمر پانچ سال کی تھی تو آپ ا نے ڈول سے منھ میں پانی لیا اور اس کی پچکاری میرے منھ پر ماری ، (مسلم ، کتاب الوضوء ، باب استعمال فضل وضوء الناس ، حدیث نمبر : ۱۸۶) اس میں تبرک کا بھی پہلو ہے کہ رسول اللہ اکے جھوٹے سے بڑھ کر کسی مسلمان کے لئے برکت و سعادت کی چیز اور کیا ہوسکتی ہے اور خوش طبعی کا پہلو بھی ہے ۔
آپ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ بچوں کے نام اچھے اور بامعنی رکھے جائیں ، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت حسنؓ پیدا ہوئے تو میں نے ان کا نام ’’ حرب ‘‘ رکھا ، آپ انے فرمایا : نہیں ان کا نام ’’ حسن ‘‘ ہوگا ، پھر جب حضرت حسینؓ پیدا ہوئے تو آپ انے نام پوچھا ، میں نے پھر وہی کہا ’’ حرب ‘‘ آپ انے فرمایا : نہیں اس کا نام ’’ حسین ‘‘ ہوگا ، پھر جب تیسرے صاحبزادے پیدا ہوئے تو میں نے اس کا نام ’’ حرب ‘‘ رکھنا چاہا ، آپ انے فرمایا : نہیں اس کانام ’’ محسن ‘‘ ہے ، (السنن الکبریٰ للبیہقی ، باب الصدقۃ فی ولد البنین والبنات ، حدیث نمبر ۱۱۷۰۶) جب حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے آپ کے صاحبزادے پیدا ہوئے تو آپ نے ان کا نام ابراہیم رکھا اور فرمایا : میں نے اس کانام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر رکھا ہے : ’’ سمیتہ باسم أبی ابراہیم‘‘ (کنز العمال : ۱۲؍ ۷۰۵ ، حدیث نمبر : ۳۵۵۵۰) حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو بیٹا پیدا ہوا ، وہ ان کو حضور اکی خدمت میں لائے ، آپ نے ان کا نام بھی ابراہیم رکھا ، کھجور سے تحنیک کی اور ان کے حق میں برکت کی دُعا فرمائی ، (بخاری ، کتاب العقیقہ ، حدیث نمبر : ۵۱۵۰) ایک لڑکی خدمت اقدس میں لائی گئی ، آپ نے لڑکی نام پوچھا بتایا گیا : ’’ عاصیہ ‘‘ جس کے معنی نافرمان کے ہوتے ہیں ، آپ انے فرمایا اس کا نام ’’ جمیلہ ‘‘ ہے ۔ (ترمذی ، کتاب الأدب ، باب فی تغییر الأسماء ، حدیث نمبر : ۲۸۳۸)
آپ بال بچوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتے تھے ، ایک بار آپ افاقہ سے تھے ، ایک صحابی نے آپ کو مدعو کیا ، آپ نے وہاں سے کچھ کھانا حضرت فاطمہؓ کو بھی بھجوایا ، (اسد الغابہ : ۱؍۵۵۱) حضرت ابراہیمؓکی والدہ حضرت ماریہ قبطیہؓکو دودھ کم آتا تھا تو آپ نے ان کے لئے دودھ پلانے والی خاتون کا انتظام کیا ، (مسلم ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر : ۲۳۱۶) آپ ااس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے آئے ، تو گھر میں کچھ تحفہ لے کر آئے یہاں تک کہ آپ انے فرمایا : اگر کوئی اور چیز میسر نہ ہو تو کوئی خوبصورت پتھر ہی لے آؤ ، جو بچوں کے کھیلنے میں کام آجائے ، (کنز العمال ، حدیث نمبر : ۲۷۹۵۹) اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک بار آپ کو ایک خوبصورت ہار تحفے میں پیش کیا گیا ، جس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا تھا ، اس وقت بارگاہ اقدس میں تمام ازواج مطہراتؓ اکٹھا تھیں اور گھر کے ایک کونے میں آپ کی نواسی حضرت امامہ بنت ابی العاصؓ کھیل رہی تھیں ، آپ نے ازواج مطہراتؓ سے دریافت فرمایا : تم لوگوں کو یہ ہار کیسا لگتا ہے ؟ سبھوں نے کہا : بہت خوب ، اس سے اچھا اور اس سے خوبصورت ہار تو ہم نے دیکھا ہی نہیں ، آپ انے فرمایا : مجھے واپس کرو ، پھر آپ نے ہار اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا : یہ میں اس کو دوں گا ، جو مجھے اپنے گھر میں سب سے زیادہ محبوب ہے ، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں : میرے اوپر اس ڈر سے اندھیرا چھا گیا کہ کہیں آپ ا میرے بجائے کسی اورزوجہ کو نہ دے دیں ، اور میرا حال ہے کہ یہی ہار آپ اکی دوسری بیویوں کا بھی تھا ، ہم سب پر خاموشی چھاگئی ، آپ اامامہؓ کی طرف بڑھے اور ہار ان کے گلے میں ڈال دیا ، اب جاکر مجھ سے یہ کیفیت ختم ہوئی ۔ ( مجمع الزوائد : ۹؍۲۵۴)
آپ اپنی اولاد کی خوشی اور رنجش کا بھی خیال رکھتے تھے ، حضرت علیؓ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا ، تو آپ انے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : فاطمہ میرا ٹکڑا ہے اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کو تکلیف پہنچے ، خدا کی قسم ! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی ، اسی طرح ہشام بن مغیرہ کے لوگوں نے حضرت علیؓ سے اپنی لڑکی کے نکاح کی اجازت چاہی تو آپ انے دو دفعہ فرمایا : نہیں ، پھر فرمایا : اگر علی ایسا چاہتے ہی ہوں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ان کے یہاں نکاح کرلیں ؛ کیوں کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے ، اور ایک روایت میں ہے کہ میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا ، ( بخاری ، حدیث نمبر : ۳۷۲۹) آپ کے منع کرنے میں دو مصلحتیں تھیں ، ایک یہ کہ ابوجہل اور مغیرہ کا خاندان فتح مکہ تک اسلام کا بدترین دشمن رہا ، ایسے دشمنانِ رسول کی بیٹی کا اس گھر میں آنا ، جس میں جگر گوشۂ رسالت حضرت فاطمہؓ ہو ، مصلحت کے خلاف تھا ، دوسرے : انسان کے جو طبعی جذبات ہوتے ہیں ، وہ رسول اللہ اکے اندر بھی رکھے گئے تھے اور یہ فطری بات ہے کہ سوکن کا وجود عورت کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے اور بیٹی کی تکلیف باپ کو متاثر کردیتی ہے ؛ اس لئے اس عمل کی وجہ سے حضور ا کو حضرت علیؓ سے تکلیف پہنچتی اور کسی مسلمان سے اللہ کے پیغمبر کو تکلیف پہنچ جائے ، یہ اس کے لئے دنیا و آخرت میں سخت نقصان کا باعث تھا ، اس لئے آپ ا نے فرمایا کہ اگر چاہیں تو نکاح کرلیں ؛ کیوں کہ میں کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا ؛ لیکن ایسی صورت میں وہ میری بیٹی کو طلاق دے دیں ، اس ارشاد میں حضرت فاطمہؓ کی محبت کے ساتھ ساتھ حضرت علیؓ کو دنیا و آخرت کے خسارے سے بچانا بھی مقصود تھا ۔ (جاری )