مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دکھاکر خود کو مضبوط کرنا چاہتی ہیں پارٹیاں
مایاوتی کے مقابلہ اکھلیش یادو کے تئیں بڑھ رہاہے مسلمانوں کا اعتماد
’’اترپردیش میں اسمبلی انتخابات بہت قریب ہیں ،آئندہ چند دنوں میں الیکشن کمیشن تاریخ کا اعلان کرسکتی ہے ،توقع ہے کہ جنوری کے آوخر سے انتخاب شروع ہوجائے گا ،اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور علاقائی پارٹیوں کے ساتھ کانگریس ا ور بی جے پی کی بھی بھر پور توجہ اتر پردیش کا قلعہ فتح کرنے پرمبذول ہے ،خاص طور پر بی جے پی ہر ممکن اترپردیش کا میدان جیتنا چاہتی ہے اور یہ ماناجارہاہے کہ ہر ایک پارٹی کا مقابلہ بی جے پی سے ہی ہے ،ووٹوں کی ذراسی بھی تقسیم بی جے پی کی جیت کیلئے راہ ہموار کرسکتی ہے ،برسر اقتدار پارٹی سماجوادی کے ساتھ مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی بھی جیت کا دعوی کررہی ہے ،اس کے علاوہ معروف مسلم لیڈر اسدالدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کی آمد کے بعد مزید ہلچل مچ گئی ہے ،ایک طرف سماج وادی اور کانگریس کے درمیان دوسری طرف بہوجن سماج وادی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین کے درمیان اتحاد کی خبریں بھی کافی دنوں سے گردش کررہی ہیں ،اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے پورے منظرمہ کا تفصیلی جائزہ پیش کررہے ہیں اتر پردیش سے ملت ٹائمز کے بیورو چیف جناب سمیر چودھری‘‘
ریاست میں اسمبلی انتخابات کی آہٹ کے ساتھ ہی مسلم ووٹ بینک کی سیاست نے اپنارنگ دکھانا شروع کردیاہے،ایک طرف مسلمان کو اپناووٹ بینک سمجھنے والی سماجوادی پارٹی خاندانی رسہ کشی کے باوجود مسلم ووٹ بینک کو اپنے حق میں رکھنا چاہتی ہے تو دوسری جانب بی ایس پی سپریمو مایاوتی الیکشن اور مسلمانوں کی ہوا دیکھتے ہی دلت مسلم اتحاد کی بات کرنے لگں ہیں تو کانگریس بھی نوٹ بندی اور بی جے پی کی مخالفت کے سبب مسلمانوں کو اپنے قریب لانے کی کوششوں میں مصروف نظر آرہی ہے تو مسلم مسائل پر کھل کر اپنی رائے رکھنے والے حیدر آباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی مسلمانوں کے سہارے اپنی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کی یوپی میں زمین تلاش کررہے ہیں۔ ابھی تک ان پارٹیوں کے نہ تو انتخابی منشور تیار ہوئے ہیں اور نہ ان سے مسلمانوں کی زیادہ امیدیں وابستہ ہیں لیکن ان تمام جماعتوں کا فی الوقت ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دکھاکر خود کو مضبوط کیاجائے ۔
الیکشن کمیشن پانچ ریاستوں کے ساتھ اترپردیش میں بہت جلد انتخابی تاریخوں کا اعلان کرنے جارہاہے ،جس کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں نے سرگرمیوں شروع کردی ہیں اور بی جے پی سمیت مذکورہ تمام پارٹیاں ریاست میں انتخابی جلسوں اور میڈیا کے ذریعہ اترپردیش کا اقتدار حاصل کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طورپر استعمال کرنے والی پارٹی ایک مرتبہ پھر اپنے نقاروں کے ساتھ نکل آئی ہیں اور مظفرنگر فساد سے لیکر ریزویشن کے انتخابی وعدے اور نوٹ بندی سے لیکر اقلیتوں کو ہراساں کرنے و فرقہ وارانہ فسادات کا ڈر دکھاکر مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر ووٹ بینک کے طوراستعمال کرنے کی فراق میں ہیں۔ اترپردیش میں مسلم ووٹر بیس فیصد ہیں جو کسی بھی پارٹی کی حکومت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن تقسیم کے سبب وہ اپنی اہمیت گنوادیتے ہیں ۔ ریاست میں دلت 22؍ فیصد ہیں اسی مایاوتی مسلمانوں کو ساتھ لیکر ریاست میں حکومت سازی کے خواب دیکھ رہی ہیں لیکن اب تک مایاوتی مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں کرپائی ہیں ، ماضی میں کی گئی بی جے پی کی حمایت بھی ان کے لئے بڑی مشکلیں پیدا کررہی ہیں۔ اس کے علاولیڈران کو اہمیت نہ دینا اور مسلم مسائل پر کھل کر بات نہ کرنے سے مسلمان بھی کہیں نہ کہیں خود کو ہراساں محسوس کرتے ہیں جس کے سبب اب مایاوتی کو وہ مقام نہیں دے پائے ہیں جس کی مایاوتی کو امید تھی اور اسی وجہ سے وہ اب بی جے پی کا خوف دکھاکر دلت مسلم اتحاد پر زور دے رہی ہے۔ بی ایس پی کے مسلم چہرے نسیم الدین صدیقی کو بھی مسلمانوں کو پارٹی کے ساتھ لانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ ادھر اکھلیش یادو گزشتہ ساڑھے چار برس میں اعتماد کا چہرہ بن کر ابھرے ہیں لیکن ان کے دور میں ہوئے مظفرنگر سمیت متعدد سنگین فسادات اور18؍ فیصد مسلم ریزرویشن کاوعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکاہے لیکن ریاست میں ان کے ذریعہ کرائے ترقیاتی کاموں کی مسلم حلقوں میں بھی چرچائیں عام ہورہی ہیں ،ان کا عام لوگوں سے ملاقات کرنا بھی ان کے لئے پلس پوائنٹ ثابت ہوا ہے حالانکہ خاندانی رنجش کے سبب سماجوادی پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہورہی ہے لیکن شخصی طورپر اکھلیش یادو کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہواہے۔ جس کے سبب مسلم حلقوں میں تمام ناکامیوں اور وعدہ خلافیوں کے باوجود اکھلیش یادو مایاوتی سے کافی مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس کا ایس پی سے اتحاد سیاسی گلیوں میں موضوع بحث بنا ہواہے مگر کانگریس بھی نوٹ بندی سمیت اقلیتوں کے ساتھ کئے جانے والے سوتیلے برتاؤ کے سہارے مسلمانوں کی ہمدردی چاہتی ہے اور وہ مسلمانوں کو بی جے پی سے خوف زدہ کرکے ان کاووٹ چاہتی ہے ۔ اگر کانگریس سماجوادی پارٹی کا اتحاد ہوتاہے تو جہاں یہ اکھلیش یادو کی واپسی کا سبب بن سکتا ہے تو وہیں ریاست کی مردہ کانگریس میں بھی جان پڑ سکتی ہے۔ حالانکہ گزشتہ دس برسوں میں مسلم لیڈر شپ کا چہرہ بن کرابھرے حیدر آبادی رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی بھی سماجوادی ،بی جے پی اور کانگریس کو نشانہ بناکر مسلم ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ریاست میں اپنی پارٹی کی سیاست میں حصہ داری کرنے کے لئے کوشاں ہیں،حالانکہ اسد الدین اویسی بھی مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کی بات کرتے ہیں جس کے سبب وہ مایاوتی کے تئیں کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں اگر مایاوتی اور اسدالدین متحدہوکر انتخاب لڑتے ہیں یہ دونوں کے لئے کافی نفع بخش ثابت ہوسکتاہے۔ وہیں بی جے پی مسلمانوں کا خوف دکھا کر ایک مرتبہ پھر ہندوووٹروں کو متحد کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئی ہے۔ (ملت ٹائمز)