تریپورہ میں مسلمانوں پر حملہ، گراؤنڈ زیرو سے ملت ٹائمز کی تحقیقاتی رپورٹ

شمس تبریز قاسمی
تریپورہ میں کوئی فساد نہیں ہوااور نہ ہی اسے صرف ہندو مسلمانوں کے درمیا ن جھڑپ کہا جاسکتا ہے بلکہ اقلیتوں کے خلاف حملہ تھا اوریہ کوئی عام حملہ نہیں بلکہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا ۔ حملہ پولس کی موجودگی میں ہوا اور اس نے یہ کہہ کر حملہ کو روکنے سے انکار کردیا کہ ہمیں لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغنے کی اجازت نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے پاس اتنے افراد ہیں کہ ہم انہیں روک سکیں ، جب مسلمانوں نے خود سامنے آکر حملہ روکنے کی کوشش کی تو پولس نے یہ کہتے ہوئے گھر جانے پر مجبور کیا کہ آپ لوگ درمیان میں نہ آئیں حملہ روکنے کی کوشش نہ کریں ورنہ ماحول اور خراب ہوجائے گا۔ شدت پسندوں نے پورے تریپورہ میں مساجد کو چن چن کر نقصان پہونچایا ہے، قرآن کریم اور دیگر مذہبی کتابوں کی توہین کی ہے۔ انتظامیہ نے پوری کوشش کہ تریپورہ حملہ کو جھوٹ اور افواہ بتادیا جائے اور کوئی سچائی نہ جان سکے لیکن ملت ٹائمز نے گراؤنڈ پر پہونچ کر پوری دنیا کو سچائی سے آگاہ کیا اور بتایاکہ جوکچھ سوشل میڈیا پر چل رہا تھا گراؤنڈ پر جانے کے بعد معلوم ہوا کہ لوگوں کو صرف دس فیصد کی خبر مل رہی ہے جبکہ یہاں کئی گنازیادہ بڑا معاملہ ہے۔ آئیے جانتے ہیں اس رپورٹ میں مکمل تفصیل ۔
تریپورہ بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل ایک چھوٹا سا صوبہ ہے جس کا کل رقبہ 10 ہزار کلیو میٹر ہے ، 800 کیلو میٹر کی سرحدیں تین جانب سے بنگلہ دیش سے ملی ہوئی ہیں ، مشرق میں آسام اور میزروم سے ملی ہوئی ہیں، 36 لاکھ کی یہاں کی کل آباد ی ہے جس میں تین لاکھ مسلمان ہیں جو کل آبادی کا 8 فیصد ہے ۔ تقیسم ہند سے قبل یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریبا 40 فیصد تھی ، تقسیم کے بعد یہاں کے مسلمان بنگلہ دیش چلے گئے جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا اور وہاں کے ہندو یہاں آگئے ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد تریپورہ ضلع مشرقی پاکستان کا حصہ بن گیا اور ہل ٹیپر کا علاقہ ریجنسی کونسل کے تحت باقی رہا ،ستمبر 1949 میں تریپورہ کی مہارانی کے دستخط کے بعد تریپورہ بھارت کا حصہ بن گیا اور اور بغیر اسمبلی کے یونین ٹریٹی بنایاگیا ، 1971 میں تریپورہ کو مستقل صوبہ کادرجہ ملا ، یہاں پچھلے 25 سالوں سے سی پی ایم کی حکومت تھی جسے 2018 میں بی جے پی نے شکست دیکر اپنی سرکار بنائی ۔
تریپور ہ میں 19 سے زیادہ قبائل آباد ہیں جنہیں پہاڑی بھی کہا جاتا ہے ، بقیہ یہاں بنگالی ہیں ، جنگلات اور پہاڑوں پر لوگ اپنے گھر بناکر بستے ہیں ، زیادہ ترمکانات ٹین اور لکڑی کے بنائے جاتے ہیں ، پختہ مکانات صرف شہروں تک محدود ہیں۔ یہاں اب تک ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی فساد اور تنازع نہیں ہوا تھا ، 1980 میں یہاں بڑے پیمانے پر ایک فساد ہوا تھا لیکن وہ بنگالی اور قبائلیوں کے درمیان تھا ۔مسلمانوں پر پہلی مرتبہ سال 2019 میں ایک بھیڑ نے حملہ کیا اور ایک مسجد کو نقصان پہنچایا تھا ۔ اس سے قبل 1992 میں بھی وہاں ایک مسجد شہید کردی گئی تھی جب پور ے ملک میں بابری مسجد کے خلاف تشدد کی آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ 15 اکتوبر 2021 کو بنگلہ دیش کی سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائل ہوئی جس میں قرآن کریم کو درگا پوجا کے پنڈال میں مورتی پر رکھ دیا گیا تھا ، اس تصویر کے ردعمل میں مسلمانوں نے بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں میں ہندوؤں کے مندرو ں پر حملہ کردیا جس میں چھ کی موت ہوگئی اور متعددزخمی ہوئے ، بنگلہ دیش کی سرکار نے فوری قدم اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کو تحفظ فراہم کیا ، تمام ملزمین کی گرفتاری شروع ہوئی ، وزیر اعظم شیخ حسینہ نے خود سامنے آکر وہاں کی اقلیتوں کے ساتھ ہمددردی جتائی ، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ایک قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کیا اور یہ بھی کہاکہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی خمیازہ یہاں کی اقلیتوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
بنگلہ دیش کے ردعمل میں تریپورہ میں بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد اور دوسری شدت پسند تنظیموں نے مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کردیا ، ریاست کے الگ الگ علاقوں میں مسجدوں کو جلایا گیا ، نقصان پہنچایا گیا ، کچھ جگہوں پر مسلمانوں کی دکانوں کو آگ لگادیا گیا ، گھروں پر پتھراؤ کیا گیا ۔ 16 اکتوبر کو بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے بعد پڑوسی ریاست تریپورہ میں بجرنگ دل ، وشو ہند پریشد اور دوسری شدت پسند تنظیموں نے ریلی نکالی ، اس ریلی میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی گئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے جملے بھی کہے گئے ۔ 19 اکتوبر کی رات میں گومتی ضلع کے درگاہ بازار کی مسجد کو شرپسندوں نے آگ لگادیا اور پوری طرح اس مسجد کوجلادیا ، 23 اکتوبر کو سپاہی جالاضلع کے نار ا اووڑا گاؤں کی مسجد کو آگ لگایا جس میں وہاں کے مقامی مسلمانوں نے بجھادیا ، 26 اکتوبر کو شدت پسند تنظیموں نے پانی ساگر میں ریلی نکال کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی ، روا گاؤں کے بازار پر واقع مسلمانوں کی نو دکانوں کو جلادیا ، تین گھروں کو بھی نقصان پہونچایا ، کئی مسجدوں کو بھی آگ لگایا ، اس دوران شرپسندوں نے صوبہ کی مختلف مسجدوں کو نقصان پہونچانے کا کام کیا۔ پانی ساگر میں ہزاروں کی بھیڑ تھی ، پولس اہلکار بھی موجود تھے لیکن فسادیوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، جب مسلمانوں نے خود اپنی دکانوں اور گھروں کی حفاظت کرنے کیلئے شرپسندوں کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا تو پولس نے روک دیا اور کہاکہ آپ لوگ یہاں سے جائیں ورنہ حالات اور خراب ہوجائیں گے ، پولس نے یہ بھی کہاکہ ہمارے پاس ان فسادیوں کو روکنے کی فی الحال طاقت نہیں ہے، ہمارے پاس افراد بہت کم ہیں اور نہ ہی اوپر  سے لاٹھی چارج کرنے کی اجازت ہے ۔ملت ٹائمز کی گراؤنڈ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ دو مسجدوں کو پوری طرح شرپسندوں نے جلاکر زمین دوز کردیا جس میں ایک مسجد گومتی ضلع کے درگاہ بازار کی ہے ۔ دوسری پانی ساگر کی سی آر پی ایف مسجد ہے ، بقیہ مساجد میں کچھ کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے اور کچھ مساجد کا نقصان معمولی ہے ۔ مندرجہ ذیل سطور میں تفصیل سے مسجدوں کا تذکرہ ہے ۔
(1) تریپورہ کے سپاہیجالاکے نارہ اورا کی مسجد میں 23 اکتوبر 2021 کو شرپسندوں نے رات تقریباً دس بجے آگ زنی کی ، مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں 45 گھر مسلمانوں کے اور 200 گھر غیر مسلموں کے ہیں۔ شرپسندوں نے جب آگ زنی کی تو مسلمان فوراً وہاں پہونچ گئے اور آگ کو بجھادیا ، اس مسجد کی دیوار اینٹ کی ہے اور اوپر الویسٹر ہے ،باہر رکھی ہوئی چٹائی ، کھاٹ وغیرہ جل گئے ، شرپسندوں نے اندر داخل ہوکر آگ لگانے کی کوشش کی تھی لیکن بند ہونے کی وجہ سے وہ نقصان نہیں پہونچاسکے ، یہاں اب نماز پابندی سے ہورہی ہے ۔
(2) تریپورہ کی راجدھانی اگرتلہ کے کرشنا نگرکی مسجدمیں فسادیوں نے دو دن تک اذان نماز نہیں ہونے دی اور مسجد کی کھڑکی کو نقصان پہنچایا۔
(4) تریپورہ کی راجدھانی اگرتلہ کے چندرا میں واقع مسجد پر شرپسندوں نے حملہ کیا اور آگ لگانے کی کوشش لیکن مسلمانوں نے انہیں حملہ کرنے سے روک دیا ، وہاں کے مقامی ہندو بھی آگئے اور کہاکہ ہم ان لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے جو یہاں کا ماحول خراب کررہے ہیں ، بعد میں پولس بھی پہونچی اور کہاکہ آپ لوگ سی سی ٹی وی کیمرے لگالیں ، دو دن بعد پھر وہاں خنزیر کا گوشت پھینک دیا گیا ، مسجد کے سکریٹری سرفراز عالم نے بتایاکہ پولس تحقیق کررہی ہے ۔
(5) راجدھانی اگرتلہ سے 320 کلو میٹر دور راتا چھارا میں واقع مسجد پر بھی شرپسندوں نے پتھر بازی اور حملہ کیا لیکن جانی مالی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اس گاوں میں تقریباً 45 گھر مسلمانوں کے ہیں اور 100 غیر مسلم گھر ہیں۔پولس کا کہناہے کہ ایف آئی آر درج ہوگئی ہے اور تحقیق جاری ہے ۔
(6) تریپورہ کے کمار گھاٹ میں حاجی گاؤں کی پال بازار جامع مسجد پر 22 اکتوبر 2021 کو شرپسند عناصر نے حملہ کیا اور پنکھا، کھڑکی، دروازہ توڑ دیا ، قران مجیداور دیگی مذہبی کوکتابوں کو جلادیا، مائیک بھی اٹھا لے گئے۔ مسجد کے ذمہ داروں نے بتایاکہ تقریباً لاکھوں کی املاک کا نقصان ہوا ہے۔
(7) سایہ دار پارک راتا چھار کی مسجد پر بھی شرپسندوں نے پتھراؤ کیا ،کوئی جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ البتہ ہزاروں کی بھیڑ نے دہشت انگیزی کی جس سے علاقے کے سبھی مسلمان گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے جو اب رفتہ رفتہ واپس آرہے ہیں۔ مقامی افراد کے چہروں پر خوف و ہراس چھائے ہوئے تھے۔
(8) پانی ساگر کی چام ٹیلہ جامع مسجد پر بھی شرپسندوں نے حملہ کیا ، یہ پختہ مسجد ہے اس لئے باہر کی دیواروں کو توڑ دیا، کھڑکیاں اکھاڑ دی ، روشن دان ، پنکھا، بلب ،وائرینگ سب کچھ کو توڑ دیا۔ احاطہ کے درختوں کو بھی توڑ دیا گیا۔ یہاں غیر مسلم آبادی کی اکثریت ہے جب کہ کل 12 گھروں میں مسلمان آباد ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایاکہ 1992 میں بھی اس مسجدو کو شدت پسندوں نے توڑ دیاتھا ۔
(9) پانی ساگرشہر کی سی آر پی ایف مسجد کو پوری طرح شرپسندوں نے جلا دیا ہے ، قرآن کریم اور دیگر مذہبی کتابوں کے جلانے کے بھی آثار ملے ، ساتھ ہی متصل امام صاحب کے کمرے کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ مقامی افراد نے ملی کونسل کو بتایاکہ یہاں پہلے سی آر پی ایف کا کیمپ تھا اس لئے انہیں لوگوں نے نماز ادا کرنے کیلئے یہ مسجد بنائی تھی ، کیمپ یہاں سے منتقل ہوگیا جس کے بعد یہ مسجد غیر آباد ہوگئی تھی بعد میں یہاں کے لوگوں نے اس کو آباد کیا اور ابھی صرف جمعہ کی نماز ہورہی تھی ، مسجد سے متصل ایک مندر بھی ہے اور آس پاس میں کوئی بھی مسلم گھر نہیں ہے ۔
(10) گومتی ضلع میں درگاہ بازار کی مسجد کو بھی مکمل طور پر جلا دیا گیا ہے ۔ یہ مسجد ٹین کی تھی ، اس کی دیواریں ، چھتیں پنکھا ، وائر سمیت سبھی کچھ کو جلاکر خاکستر کردیا گیا ہے ، قرآن کریم اور مذہبی کتابوں کو بھی جلا دیا گیا ہے ۔ مقامی لوگوں نے بتایاکہ 19 اکتوبر کی رات کو ہی یہ مسجد جلادی گئی تھی ، بعد میں وہاں علاقے کے ہندو اور مسلمان دونوں پہونچے ، مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں کا کہنا تھا کہ باہر سے آئے ہوئے کچھ لوگ تھے ، ہم انہیں نہیں جانتے ہیں ۔
(11) سونامورا اتر کلم چورا کی مسجد کو شرپسندوں نے نقصان پہنچایا تھا لیکن بازار اور اہل محلہ نے مل کر مسجد کی مرمت کا کام کرلیا ہے۔
(12) سپاہی جالا ضلع کے بلوچر گاؤں میں بھی ایک مسجد ہے جہاں شرپسندوں نے مسلمانوں کو اذان بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پھر بعد میں ہندو مسلم کی مشترکہ میٹنگ ہوئی، جس میں باہمی میل ملاپ کی بات کی گئی ہے اور حالات مکمل طور پر پرامن ہیں۔
(13) دھرم نگر کی کالا جامع مسجد پر بھی شرپسندوں نے حملہ کیا اور مسجد کے متعدد سامانوں کو نقصان پہونچایا ۔
(14) تریپورہ کی راجدھانی اگرتلہ کے رام نگر 6 میں بھی ایک پرانی مسجد ہے جس پر شرپسندوں نے حملہ کیا ، کھڑکی کا شیشہ اور بلب وغیرہ کو توڑدیا ، شرپسندوں نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی لیکن گیٹ بند ہونے کی وجہ سے نہیں جاسکے ، جہاں پر یہ مسجد وہاں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے ، دوسرے محلہ سے آکر لوگ نمازا دا کرتے ہیں ۔
(15) اس کے علاوہ گومتی ضلع کے اودے پورکی چھ مسجدوں کی بجلیاں کاٹ دی گئی تھیں اور نمازیوں کو دھمکی دی گئی۔
پانی ساگر میں مسلمانوں کی نو دکانوں کو بھی شرپسندوں نے آگ لگایا ۔
امیر الدین کی پانی ساگر کے روا بازار میں راشن کی دو دوکان تھی ، شرپسندوں نے پوری دکان کو لوٹ لیا اور اسے آگ کے حوالے کردیا ، ملی کونسل کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے امیر الدین نے بتایاکہ اس کا کم وبیش بیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے ، انہوں نے یہ بھی کہاکہ جب ان کی دکان کو جلایا جارہا تھا، اُس وقت پولس کے نوجوان موجود تھے لیکن روکنے کی کوشش نہیں کی ، جب ہم لوگوں نے ان سے کہاکہ یہ ہماری دکان جلارہے ہیں اور آپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری تعداد بہت کم ہے ، ان لوگوں پر قابونہیں پاسکتے ہیں ، لاٹھی چارج کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے ۔
پانی ساگر کے روا بازار میں عامر حسن کی کمپیوٹر اور الیکٹرک کی دکان تھی ۔
پانی ساگر کے روا بازار میں سنوبر علی کی کپڑا اور چپل کی دکان تھی ، انہوں نے بتایاکہ تقریبا سترہ لاکھ روپے کا نقصان ہے ، حکومت کی طرف سے ان کو صرف 90 ہزار روپے کا معاوضہ ملاہے ۔
پانی ساگر کے روا بازار میں صابر علی کی بھی راشن کی دکان تھی ۔
پانی ساگر کے روا بازار میں یوسف علی کا جنرل اسٹور تھا ۔
پانی ساگر کے روا بازار میں محمد علی کی کمپیوٹر اور اسٹشنری کی دکان تھی۔
پانی ساگر کے روا بازار میں محمد سلطان کی زیروکس کی دکان تھی ۔
ضیا ء الدین اور شمیم احمد کی بھی دکانوں کو آگ لگادیا گیا تھا ۔
مساجد اور دکانوں کو نقصان پہونچانے اور ان پر حملہ کرنے کے علاوہ دنگائیوں نے کچھ مسلمانوں کے گھروں کو بھی نشانہ بنایا ۔ کیل ٹاؤن میں دو مرتبہ شرپسندوں نے عبد المنان کے گھر پر بھگوا جھنڈا لہرادیا ۔دھرم نگر میں شرپسندوں نے محمد توحید کے گھر کو بھی نقصان پہونچایا ۔ پانی ساگر میں ثانیہ بیگم نام کی ایک خاتون کے گھر میں بھی شرپسند عناصر داخل ہوگئے اور ان کے ساتھ بدتمیزی کی ، ہاتھ میں پہنے ہوئے زیورات کو چھین لیا ۔
تریپورہ پولس اور حکومت نے مکمل طور پر کوشش کی کہ یہ معاملہ دب جائے ، اس پر کوئی بحث نہ ہو،مساجد ، دکانوں اور گھروں پر حملہ کو مسترد کردیا جائے ، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور فوٹوز کو لگاتار تریپورہ پولس نے فیک اور فرضی بتایا ، افواہ قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کیس درج کرنے کی بھی دھمکی دی ، سوشل میڈیا پر اس تعلق سے ایک دو ویڈیوز اور تصویر بھی ایسی پوسٹ کی گئی جس کا تعلق تریپورہ سے نہیں تھا لیکن اسے تریپورہ حملہ سے جوڑ دیا گیا لیکن تریپورہ حملہ سے متعلق سوشل میڈیا پر جو کچھ وائرل ہورہا تھا وہ صرف دس فیصد تھا ، گراؤنڈ پر پہونچنے کے بعد حقیقت سامنے آئی کہ یہ حملہ منظم تھا، پورے صوبہ میں مساجد کو نشانہ بنایا گیا ، مختلف علاقوں میں ریلیاں نکال کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے گئے اور پھر 26 اکتوبر کو ہزاروں کی بھیڑ اکٹھا کرکے پانی ساگر میں مسلمانوں کی دکانوں پر حملہ کرکے جلا دیا گیا ، گھروں پر پتھراؤ کیا ، اس دوران ایڈوکیٹ انصار اندوری کے ساتھ ایڈوکیٹ کی ٹیم نے وہاں کا دورہ کرکے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کی ، آل انڈیا ملی کونسل ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ، جماعت اسلامی ہند ، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور نارتھ ایسٹ امارت شرعیہ کے مشترکہ وفد نے بھی وہاں کا دورہ کرکے پریس کانفرنس کیا اور میڈیا کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کیا ، جمعیت علماء ہند کے ایک وفد نے بھی وہاں کا دورہ کیا ، تحریک فروغ اسلام کا ایک وفد بھی وہاں کے دورہ پر ہے جسے پولس نے ڈیٹینڈ کر رکھا ہے ۔ بہر حال گراؤنڈ زیرو سے سچائی دکھانے اور فیکٹ فائنڈنگ رپوٹ آجانے کے بعد اب پولس نے تسلیم کرلیا ہے کہ تریپورہ میں مسلمانوں پر حملہ کے واقعات پیش آئے ہیں ، مساجد کو جلایا گیا ہے ۔ 3نومبر کو تریپورہ کے ڈی آئی جی فیس بک پیج پر ایک ویڈیو جاری کرکے اعتراف کیاکہ تریپورہ کے کچھ علاقوں میں تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں ، کچھ علاقوں میں مساجد کو جلایا گیا ہے ، کچھ جگہوں پر معمولی نقصان پہنچایا گیا ہے ، پانی ساگر میں دکانوں کو جلا دیا گیا ہے ، شرپسندوں کے خلاف مختلف علاقوں میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور پانچ ملزمین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے ۔ چوطرفہ دباؤ کے بعد پہلی مرتبہ تین نومبر کو پولس نے تریپورہ حملہ کا اعتراف کیا ، اس سے قبل پولس اور انتظامیہ اسے چھپانے اور دبانے کی کوشش کررہی تھی ، جن کی دکانوں کا نقصان ہوا تھا انہیں بھی پانچ فیصد معاوضہ دیکر خاموش کرنے کی کوشش کردی گئی تھی ، لیکن ملت ٹائمز کے کیمرے پر متاثرین نے کھل کر اپنے درد کا اظہار کیا اور انہوں نے بے خوف ہوکر اپنے اوپرہونے والے مظالم کا تذکرہ کیا ۔
پولس کا کہناہے کہ حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہوپارہی ہے ، بھیڑ میں یہ پہچاننا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ کون تھے ، لوگوں کا کہناہے کہ حملہ آوروں کو ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا اس لئے گرفتاری مشکل ہوگئی ہے ، قانونی کاروائی نہیں ہورہی ہے ۔ پولس کی یہ دلیل محض بکواس اور جھوٹ پر مبنی ہے ، پولس کا جو رویہ تھا اس سے یہی ثابت ہوتاکہ ریاست اس حملہ میں ملوث تھی اور پولس کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ حملہ آوروں کو نہ روکے ،بہرحال پولس کی دلیل مان بھی لی جائے تب بھی کاروائی کے بہت سارے راستے موجود ہیں ۔ یہ بھیڑ بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد ، ہندو جاگر ن منچ اور اس طرح کی دوسری شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکنان کی تھی ، انہیں تنظیموں نے ریلیاں نکالی تھی اس لئے افراد کے خلاف کاروائی کے بجائے بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد اور ہندو جاگر ن منچ کے خلاف کاروئی ہونی چاہیئے ، یہ حملہ دہشت گردانہ تھا ، اس لئے ان تنظیموں کو دہشت گرد قرار دینا چاہیئے ، ان پر پابندی عائد کرنی چاہیئے ، صرف تریپورہ میں نہیں بلکہ پورے میں ہونے والے کمیونل واقعات ، ماب لنچنگ اور دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے اسی تنظیم کے کارکنان ملوث پائے جاتے ہیں ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com