ایک مسلمان نے کی تھی گلوان وادی کی دریافت، اسی کے نام سے منسوب ہے یہ علاقہ

ملت ٹائمز کی خاص رپوٹ
جس گلوان ویلی کو لیکر بھارت اور چین کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ چین دعویٰ کررہا ہے کہ گلوان ویلی ہمارا ہے ، جبکہ بھارت کہہ رہاہے کہ یہ ہمارا حصہ ہے ۔ اس وادیِ گلوان کو لیکر شروع سے دونوں ملکوں میں تنازع چل رہا ہے اس کی دریافت ایک مسلمان نے کی تھی ۔جی ہاں ! آپ نے صحیح سنا ؛ گلوان ویلی کی دریافت ایک مسلمان نے کی تھی ، اسی کے نام سے منسوب ہے یہ وادی اور یہاں بہنے والی گلوان ریور ، اور اس شخص کا نام تھا غلام رسول گلوان ۔
بھارت میں جب انگریزوں کی حکومت تھی اس وقت انہوں نے ایک ٹیم بنا رکھی تھی جس کی ذمہ داری نئے علاقوں کی تلاش تھی ۔ اسی ٹیم میں شامل تھے لداخ کے رہنے والے غلام رسول گلوان ۔ 1899 کی بات ہے ۔ غلام رسول گلوان ایک دن اپنی ٹیم سے الگ ہوگئے اور راستہ بھٹک گئے اور پھر نئے علاقوں کی تلاش اور دریافت میں وہ اس وادی تک پہونچ گئے جسے آج گلوان کہا جاتا ہے ۔
یہاں ایک ندی بھی بہتی ہے جس کا نام غلام رسول گلوان سے ہی منسوب ہے ۔ یہ دریائے گلوان اکسائی چن علاقہ سے لداخ میں بہتا ہے۔ یہ سلسلہ کوہ قراقرم کے مشرقی حصے سے نکلتا ہے اور مغرب میں بہتے ہوئے دریائے شیوک میں ملتا ہے جو کہ دریائے سندھ کے معاون دریاؤں میں سے ایک ہے۔
غلام رسول کا خاندان آ ج بھی لداخ کے لیہ میں موجود ہے اور وہ اسے بھارت کا حصہ نہ صرف مانتے ہیں ۔ بلکہ چین کے ناجائز قبضہ کے شدید خلاف ہیں ۔
لداخ کی گلوان وادی میں آب و ہوا انتہائی سخت ہے اور بہت زیادہ بلندی پر واقع یہ خطہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول یا ایل اے سی کے مغربی سیکٹر کے ساتھ ہوتا ہوا اکسائے چِن کے قریب تک جاتا ہے۔ اس علاقے پر انڈیا کا دعویٰ ہے ہے مگر کنٹرول چین کا ہے۔
1956 میں چین نے پہلی مرتبہ دعوی کیا کہ گلوان ویلی اکسائے چین میں شامل ہے اور چین کا حصہ ہے ۔ 1960 میں چین نے گلوان ویلی کے مغربی حصہ پر بھی دعوی کردیا جو دریائے شیوک میں ملا ہوا ہے ۔
دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان بغیر روایتی ہتھیاروں کے یہ پہلی جھڑپ نہیں ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان 21 سو میل لمبی غیر واضح سرحد یا ایل اے سی پر انڈیا اور چین کے درمیان آمنے سامنے لڑائی کی ایک تاریخ ہے۔
1962 میں پہلی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان آخری بار فائرنگ کا تبادلہ 1975 میں اروناچل پردیش کی ایک دور دراز گھاٹی میں ہوا تھا جس میں چار انڈین فوجی مارے گئے تھے ۔ اس واقعہ کو مختلف سابق سفارتکاروں نے گھات لگا کر حملہ اور حادثہ قرار دیا تھا ۔ اس کے بعد سے آج تک فریقین کے درمیان کبھی گولی نہیں چلی۔
اس کی وجہ 1996 کا وہ دو طرفہ معاہدہ ہے جس کے تحت ’کوئی بھی فریق ایل اے سی کے دونوں جانب دو کلو میٹر کی حدود میں گولی نہیں چلائے گا نہ ہی کوئی دھماکہ خیز مواد کے ذریعے کارروائی کرے گا۔‘
حالیہ ہفتوں کے دوران کشیدگی کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ مئی میں پینگانگ جھیل، لداخ اور شمال مشرقی انڈین ریاست سِکِم کے ساتھ سرحدوں پر انڈین اور چینی فوجیوں کے مابین ہاتھا پائی کے واقعات پیش آ چکے ہیں ۔
پچھلے دنوں چینی فوج نے بھارت کی سرحد میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے بعد ایک جھڑپ میں بھارت کے ایک کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک ہوگئے ۔ اس لڑائی میں مبینہ طور پر چینی فوجیوں کی جانب سے کیل لگی آہنی سلاخوں کے استعمال کی بھی اطلاعات ہیں ۔ انڈین اخبار دی ہندو نے جمعے کو عسکری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ رہا کیے جانے والے افراد میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اور تین میجر بھی شامل ہیں ۔ خبروں کے مطابق چینی حکام نے پیر کی شب انڈیا اور چین کے درمیان ہونے والی سرحدی جھڑپ کے بعد گرفتار کیے گئے دس انڈین فوجیوں کو رہا کیا ہے ۔ انڈین حکومت نے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی ہے اور نہ ہی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے فوجی لاپتہ یا چینی حراست میں تھے ۔ چین نے اپنے فوجیوں میں کسی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے جبکہ انڈیا کے 76 فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں ۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اپنی حدود میں دراندازی کا الزام لگایا ہے ۔ یہ جھڑپ تقریباً 14 ہزار فٹ بلند پہاڑوں کی اونچی ڈھلوانوں پر ہوئی جس کی وجہ سے بعض فوجی نیچے تیز بہاؤ والے دریائے گلوان میں گر گئے جس کا درجہ حرارت صفر سے بھی کم تھا ۔
بھارت نے چین پر لداخ کی وادی گلوان میں ہزاروں فوجی بھیجنے اور 14,700 مربع میل کے علاقے پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا ہے ۔سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں مگر کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔