اتحاد بین المسلمین اور ایران

محمد غزالی خان

ہم حقیقت سے کتنا ہی منہ چھپائیں ، کتنی ہی میٹھی میٹھی باتیں کرلیں اور کتنا بھی اتحاد بین المسلمین کی اہمیت اور ضرورت پرزور دے لیں مگر حدیث نبوی ﷺ ، ’’اپنی تلواروں کو ایک دوسرے کیلئے نہ نکالنا جو ایک مرتبہ باہر نکل گئی تو قیامت تک اندر نہیں جائے گی‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح) کی جو خلاف ورزی 1400 سال قبل مسلمانوں سے ہوئی تھی اس کا خمیازہ امت مسلمہ کو آج تک جھیلنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر واقعہ کر بلا کے بعد نفرتوں کی جو آگ لگی تھی وہ کسی طرح بجھنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ بہت سی دوسری دنیاوی آزمائشوں کے ساتھ ساتھ شاید مالک کائنات کو اس طرح بھی اپنے بندوں کا امتحان لینا مقصود ہو۔ اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کا طریقہ درمیانہ روی اختیار کرتے ہوئے پرانے واقعات کو بھول کر آج کے حالات میں کسی بھی طرح کی عصبیت سے آزاد ہو کر پوری دیانت داری کے ساتھ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے میں ہی مضمر ہے۔

1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد تہران سے ایک دلربا نعرہ ، ’’لا سنیہ لا شیعہ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ سنائی دیا۔ صدیوں بعد کسی مسلم ملک میں ایک جابر شہنشاہ کو اکھاڑ پھینکنے اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی خبروں کے بعد دلوں کو موہ لینے والا یہ ایک ایسا نعرہ تھا جس سے کوئی بھی وہ شخص متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جو امت مسلمہ کے اتحاد اور اسلام کی سربلندی کا متمنی تھا۔ راقم الحروف ان دنوں علیگڑھ میں طالب علم تھا۔ برخلاف اس عام تأثر کے کہ سنیوں میں صرف خاص جماعت سے تعلق رکھنے والے طلبا ہی اس سے متأثر تھے حقیقت یہ ہے کہ راقم سمیت (مزید وضاحت کردوں کہ میرا آبائی وطن دیوبند ہے، وہیں پلا اور بڑا ہوا اور والدین اور تمام رشتہ دار دیوبند ہی میں ہیں ) دینی رجحان رکھنے والا ہر وہ طالب علم جو مسلمانوں میں فرقہ بندی کے خلاف تھا، اس انقلاب کا حامی بن گیا تھا۔ مجھے مولانا کلب عابد مرحوم کی کنیڈی ہال میں کی گئی وہ تقریر آج تک یاد ہے جس میں موصوف نے کہا تھا کہ اس انقلاب کو شیعہ انقلاب کہنا سراسر زیادتی ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے مرحوم نے کہا تھا کہ کیونکہ ایران شیعہ اکثریتی ملک ہے اس لئے شیعہ فقہ کا نفاذ فطری بات ہے بالکل اسی طرح کہ جب کبھی کسی سنی اکثریتی ملک میں اسلامی انقلاب آئے گا تو وہاں سنی فقہ کے مطابق معاملات چلیں گے۔ اس کے چند ماہ بعد ہی عراق میں شیعہ علماء کے قتل کی خبر آئی اور کنیڈی ہال میں ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جس میں کئی سنی علما ء نے حصہ لیا اور صدام حسین کے مظالم کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔

آج کے فرقہ وارانہ نفرت سے آلودہ ماحول میں جب اُن دنوں کو یاد کرتا ہوں تو، ’’لا شیعہ لا سنیہ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کے نعروں والا وہ دور ایک ٹوٹا ہوا خواب معلوم ہوتا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ خواب شام کے واقعات نے اچانک چکنا چور کردیا ہو بلکہ اس میں دراڑیں ڈالنے کا کام بھی ایران ہی سے شروع ہوا تھا شام کے واقعات تو محض اس کا منطقی انجام ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور وہاں سے اٹھنے والے اتحاد امت کے نعروں کی مسحور کن صداؤں کے اس ماحول میں، ان دنوں میری دعا سلام ایرانی طلبا سے کے ساتھ اور زیادہ ہو گئی تھی جو ایران سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد پڑھنے کیلئے دے دیا کرتے تھے۔ انہی مطبوعات میں ایرانی اسکالر علی شریعتی کی کچھ تحریریں اور بعد میں ان کی کتاب Sociology of Islam پڑھنے کو ملی جن سے اس وقت میں بہت متاثر ہواتھا۔ پھر اچانک علی شریعتی کی تحریریں ان رسالوں میں آنا بند ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ وہ اب ملاؤں کی نظر سے گر گئے ہیں۔ اگر 1975 میں مشتبہ حالات میں ان کی موت نہ ہوجاتی تو شاید وہ بھی ان لوگوں میں ہوتے جنہیں غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر پھانسی لگا دیا گیا تھا۔

ایرانی انقلاب کی محبت کے جن بادلوں نے آنکھوں کو دھندلا کر دیا تھا وہ زمانہ طالب علمی میں ہی اس وقت چھٹنا شروع ہوگئے تھے جب ایران سے شائع ہونی والی مطبوعات میں صحابہ اکرام پر تبرہ آمیز زبان پڑھنے کی ملی۔ توجہ دلانے پر بہر حال دودھ پور میں ایرانی طلبا نے جو سینٹر / لائبریری قائم کیا ہوا تھا وہاں سے وہ کتابیں ہٹا لی تھیں۔ اللہ جانتا ہے کہ اس بات میں کتنی صداقت تھی مگر اسی وقت ایک خبر نے بڑی شد و مد سے گشت کرنا شروع کیا اور وہ یہ تھی کہ آیت اللہ خمینی صاحب نے لکھنؤ سے ایران جانے والے ایک وفد سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ پہلے ہندوستان جاکر شیعہ سنی اختلافات کو دور کرو۔ جب آپ کسی فرد یا جماعت کے بارے میں خوش گماں ہوتے ہیں تو اس کی ہر بات پر یقین آجاتا ہے اور پھر جس بات میں آپ کی اپنی خواہشات پوری نظر آنے کی تھوڑی سی بھی امید ہو، اسے قبول کرنے میں ذرا بھی تأمل نہیں ہوتا۔ ہم نے بھی اس خبر پر یقین کر لیا۔

دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ بات سامنے آنے لگی تھی کہ شیعہ سنی اتحاد کا تہران سے بلند ہونے والا نعرہ محض ایک نعرہ تھا۔ اب انقلاب ایران کو دوسرے ممالک میں برآمد کرنے کے ایرانی دعوے کی خبریں سامنے آنے لگی تھیں۔ جو جگہ کمزور ہوتی ہے سیلاب میں پانی وہیں سے پہلے سراعت کرتا ہے اور وہ حصہ ایران کا پڑوسی ملک پاکستان تھا۔ پاکستان میں ایرانی لٹریچر کے پھیلنے کی خبریں تو آ ہی رہی تھیں کہ 1982 میں کراچی میں بھیانک شیعہ سنی فساد بھڑک اٹھا جس پر پاکستان میں ایک ایرانی سفارتکار کا فوری بیان اخبارات میں شائع ہوا کہ ، ’’پاکستان میں اسلامی انقلاب کی شروعات ہو چکی ہے۔‘‘ اس پر پاکستان کے سخت احتجاج کے بعد حکومت ایران نے مذکورہ سفارتکار کو واپس بلا لیا۔ یہاں پر اس بات کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگا کہ پاکستان میں موجودہ بین المسلکی تعلقات میں ابتری میں سعودی اور ایرانی حکومت دونوں ذمہ دار ہیں۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے۔

1983 میں لندن آنے کے بعد جب مزید ایرانی طلبا سے رابطہ ہوا تو معلوم ہوا کہ اُن کے نزدیک ان کی حکومت کے علاوہ ہر کوئی منافق تھا۔ جو لوگ حسن ظن سے کام لیتے تھے انھوں نے اس کی تعبیر یہی کی کہ تازہ تازہ انقلاب آیا ہے اور نئے نئے جذبات ہیں۔ مگر جب پاکستانی اہل تشیع دوستوں سے بات ہوئی تو جنرل ضیا الحق کیلئے ان کے جذبات سے اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ ضیاء الحق سے ان کی عناد کی وجہ سیاسی نظریہ، غیر جمہوری طریقے سے مرحوم کا اقتدار پر قابض ہونا یا ان کا آمرانہ طرز حکومت ہوتا تو اور بات تھی مگر یہاں تو عیجب و غریب سوچ کام کررہی تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب اچھی چیز تھا مگر پاکستان میں ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کی کوشش منافقانہ فعل تھی۔اتحاد کے نام پر تہران میں سنیوں کے مسجد تعمیر کرنے پر پابندی جائز تھی مگر پاکستان میں زکوٰۃ لازمی قرار دیا جانا ظلم تھا (فقہ جعفریہ کے مطابق حکومت زکوٰۃ جمع نہیں کر سکتی)۔

صدام حسین کے ایک جابر اور سفاک حکمران ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ ان کی بہت سی حماقتوں میں سے ایک ایران پر حملہ تھا۔ خلیجی ممالک کانسل پرستانہ عرب قوم پرستی کا فلسفہ قابل مذمت اور غیر اسلامی ہی صحیح مگر اس بنیاد پر اور ایرانی انقلاب سے خائف ان حکومتوں کے 1980-1988 کی عراق ایران جنگ میں صدام حسین کا ساتھ دینے میں بہر حال ایک منطق تھی۔ مگر حافظ الاسد علوی تھے، جنہیں شیعہ علماء خود بھی مسلمان نہیں سمجھتے، اپنے پین عرب ازم اور سیکولر بعث فلسفے (واضح رہے صدام عرب بھی تھے اور عراق میں پین عرب نیشلزم اور سکیولرازم کے فلسفے پر یقین رکھنے والی بعث پارٹی کے سربراہ بھی تھے) کے بر خلاف انھوں نے صدام حسین کے خلاف ’’جمہوری اسلامی ایران‘‘ کا ساتھ دیا۔ اپنے علاوہ دنیا بھر کو منافق گرداننے والے ملاؤں نے بے دین شامی حکومت کی حمایت نہ یہ کہ محض اُس وقت بخوشی قبول کی بلکہ ہر مقام پر شام کی بے دین حکومت کی مدد بھی کی جس کا بد ترین مظاہرہ حلب میں معصوموں کے قتل عام میں ظالم باپ کے سفاک بیٹے کے ساتھ مکمل اور عملی تعاون کر کے کیا گیا۔

زیادتی دنیا میں کہیں بھی کسی پر بھی ہو قابل مذمت ہے اور خلیجی ممالک میں شیعہ اقلیت کے خلاف برتا جانے والا امتیاز اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس امتیاز کے خلاف آواز اٹھانے میں ایران حق بجانب ہے۔ البتہ دوسرے ممالک میں انصاف کا مطالبہ کرنے والے ایران میں خود سنیوں کے ساتھ جو امتیاز برتا جاتا ہے اور جو ظلم ان پر ہوتا ہے اس کی مذمت کی جائے تو ایران اور اس کے حامیوں کو سخت نا گوار معلوم ہوتا ہے اور تنقید کرنے والا فوراً وہابی یا القاعدہ حامی قرار دے دیا جاتا ہے۔

سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے جو جو الزام ایران یا اہل تشیع دوسروں پر لگاتے ہیں ان سب کے بدترین مرتکب وہ خود ہیں۔ مثلاً القاعدہ ہو یا داعش ان کے مظالم کو سنیوں کی بھاری اکثریت نے نہ یہ کہ سخت سخت مذمت کی بلکہ ان کو خارج از اسلام یا خارجی قرار دیتے ہوئے فتوے تک جاری کردئے۔ مگر جو مظالم ایران نے شامی حکومت کے ساتھ معصوم عوام پر ڈھائے ہیں لبنان کے شیعہ عالم اور حزب اﷲ کے پہلے سیکریٹری جنرل صبحی الطفیلی کے علاوہ کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا۔ شام میں کئے گئے مظالم کی مذت تو کیا کی جاتی سوشل میڈیا پر صبحی الطفیلی سمیت ہر اس شخص کو سعودی ایجنٹ کہہ کر مسترد کردیا گیا جس نے بشار الاسد اور ایرانی حکومت کی ان مظالم میں شرکت کی مذت کی۔ میں القاعدہ یا داعش کی پہلے بھی کئی مرتبہ مذمت کر چکا ہوں مگر جب ایرانی ذرائع ابلاغ میں ان گروہوں کیلئے ’’ تکفیری‘‘ کا لفظ پڑھتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ جو لوگ بڑوں بڑوں کو کافر بنانے سے بعض نہ آرہے ہوں وہ کس منہ سے کسی کو تکفیری کہتے ہیں؟

یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ایران نے حج جیسے مقدس فریضے کو بھی سیاسی اغراض کیلئے استعمال کرنے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ کیا اپنے یہاں سے جانے والے حجاج کی تربیت کرنا اور کسی بھی اشتعال انگیزی سے گریز کرنے کی تاکید کرنا حکومت ایران کی ذمہ داری نہیں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ جن مسلمانوں کو حج کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان میں سے اکثر نے دیکھا ہو گا کہ جس وقت تمام دنیا سے آئے ہوئے مسلمان منیٰ سے لبیک اللّھُمّ لبیک کی صدا بلند کرتے ہوئے جمرات کی جانب روانہ ہورہے ہوتے ہیں اور یکسانیت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اس وقت ایرانی حجاج علم نما جھنڈے اٹھائے لبیک یا حسین لبیک کی صدائیں اور مرثیے گاتے سنائی دیتے ہیں جس سے کچھ ہی دیر کیلئے ہی سہی بہر حال دوسرے حجاج کی توجہ ان کی جانب ضرور مبذول ہوتی ہے۔ اب کوئی پوچھے یہ کیسا اتحاد ہے جس کا پاس اسلام کے اہم ترین رکن کی ادائیگی تک میں نہیں رکھا جاتا؟

حقیقت یہ ہے کہ ایران میں سنیوں کی بڑی آبادی کے وجود کے بارے میں عام طور پر لوگ ناواقف ہیں۔ شاہ کے خلاف بغاوت میں ایرانی سنیوں کا کسی طرح کم حصہ نہیں تھا۔ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد بننے والی پہلی مجلس (پارلیمنٹ ) میں سنی اکثریتی صوبے بلوچستان سے منتخب دو سنی، مولانا عبدالعزیز (فارغ دیوبند) اور حمید اﷲ مرادی اور تیسرے غیر منتخب رکن علامہ مفتی زادہ تھے۔ 1992 میں میں نے مولانا عبدالعزیز صاحب کے فرزند اور 1991 میں قائم کی گئی مجلس اعلیٰ اہل سنت ایران کے خارجی امور کے شعبے کے سربراہ علی اکبر ملا زادہ کا لندن میں ایک انٹر ویو لیا تھا جو م افضل صاحب کی ادارت میں دہلی سے شائع نے والے ہفتہ وار ، ’’اخبار نو‘‘ (3 تا 9 جنوری (1992 میں شائع ہوا تھا۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اسے من و عن نقل کر رہا ہوں۔ کوشش کرنے کے باوجود لندن میں کسی ایرانی سنی گروپ سے رابطہ قائم کرنے میں ہنوز ناکام ہوں۔ بہر حال جو اطلاعات ایران سے وقتاً قوقتاً آتی رہتی ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ حالات پہلے کی بہ نسبت خراب ہی ہوئے ہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس انٹر ویو کے بعد واپسی پر علی اکبر صاحب پر کیا گزری:

سوال: آپ کے والد مرحوم خود قانون ساز اسمبلی کے رکن اور اسلامی انقلاب کے بڑے حامی تھے تو آپ انقلابی حکومت سے کیوں ناراض ہیں؟

جواب پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے والد منتخب نمائندہ تھے۔ مجلس میں ان کو شامل کر کے ان پر یا سنیوں پر کوئی احسان نہیں کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے نفاذ کی کوشش اور ایران سے شہنشاہیت کو ختم کرنے کے لئے سنیوں نے اتنی ہی قربانیاں دی ہیں جتنی شیعوں نے کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ایران میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو گی اور ایران واقعی ایک مثالی اسلامی ملک ہو گا مگر جب حکومت بنی اور قانون سازی ہوئی تو ایران کا سرکاری مذہب شیعت قرار دیا گیا اور دستور میں یہ شرط درج کردی گئی کہ ملک کی صدارت ، وزارت عظمیٰ اور دیگر اعلیٰ مناصب کے لئے شیعہ ہونا لازمی ہو گا۔ اس کے فوراً بعد سنیو ں کی جانب سے احتجاج شروع ہو گئے۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ احتجاج ہوئے۔ اس کے بعد سنیوں کے ایک وفد نے، جس میں میرے والد مولانا عبد العزیز اور میں خود ، شامل تھے، خمینی صاحب سے ملاقات کی اور ان کی توجہ اس طرف دلائی۔ اُس وقت خمینی صاحب نے ہم سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد میرے والد نے اسمبلی میں تقریر کی اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بات کہدی کہ اگر یہ شرائط ختم نہ کی گئیں تو اسلامی حکومت کا انجام وہی ہو گا جو شاہ کی حکومت کا ہوا تھا۔ وہ تقریر آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔ جب بلوچستان میں مظاہرے بڑھنے لگے تو خمینی صاحب نے اس وقت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر یذدی کو حالات کا جائزہ لینے کیلئے بلوچستان بھیجا۔ ڈاکٹر صاحب نے واپس آ کر جو رپورٹ پیش کی اس میں شیعت کو ایران کا سرکاری مذہب نہ بنانے کے علاوہ صدر یا دیگر اعلیٰ عہدوں پر تقرری کیلئے شیعہ ہونے کی شرط نہ لگانے کی سفارش کی۔ مگر نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔ کچھ ہی عرصہ بعد میرے والد صاحب نے استعفیٰ دے دیا۔ وہ بیس دن سے زیادہ مجلس میں رہے ہی نہیں جبکہ دیگر سنی ارکان نے احتجاجاً قانون پر دستخط نہیں کئے۔

سوال: ایران ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے ۔ اگر شیعہ مسلک کو سرکاری مذہب کا درجہ دیدیا گیا ہے تو یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں۔ ایران میں پانچ فی صد سنیوں کے اس وقت بھی 12 نمائندے مجلس میں موجود ہیں تو پھر آپ کو اعتراض کیا ہے؟

جواب : ایران میں سنی آبادی بارہ سے پندرہ ملین کے درمیان ہے جو تقریباً 20% ہے۔ صرف تہران میں نصف ملین سنی ہیں مگر وہاں پر ایک بھی سنی مسجد نہیں ہے۔

سوال : کیا مسلکی بنیاد پر مسجدوں کا بٹوارہ ضروری ہے؟ کیا شیعہ سنی ایک ساتھ نماز ادا نہیں کر سکتے؟
جواب: اس سوال کا جواب تو حکومت کو دینا چاہئے کہ کوئی ایک بھی مسجد ایسی کیوں نہیں ہے جس میں امام سنی ہو۔ اتحاد کی بات کرنے والوں کو اس کا عملی نمونہ بھی تو پیش کرنا چاہئے۔ آخر انہیں سنی امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کیا قباحت ہے؟ آپ کو یاد ہو گا کہ مرحوم جنرل ضیا ء کے دور میں پاکستان میں زکوٰۃ لازماً ادا کرنے سے متعلق ایک بل منظور کیا گیا تھاجس پر پاکستان کے شیعوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا تھا کیونکہ ان کے مسلک میں حکومت زکوٰۃ وصول نہیں کرسکتی لہٰذا انہیں اس سے استثنیٰ دیا گیا اور حد تو یہ ہے کہ خود وزیر اعظم صاحبہ کی والدہ نصرت بھٹو نے بھی استثنیٰ لیا ہوا ہے۔

سوال : مگر اس میں ایرانی انقلاب کا کیا دخل ہے؟
جواب: میں اسی طرف آ رہا ہوں۔ دنیا بھر میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کا عزم رکھنے والی ایرانی حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ پاکستان کے شیعوں سے کہتی کہ محض اتحاد و یکجہتی کی خاطر زکوٰۃ دومگر اس کے بر عکس ہوا یہ کہ جب کراچی میں شیعہ سنی فساد ہوا تو اس وقت پاکستان میں ایک ایرانی سفیر نے فوراً بیان داغ دیا کہ یہ پاکستان میں اسلامی انقلاب کی شروعات ہے۔ بعد میں نہ تو حکومت پاکستان کی ایران سے وضاحت کرنے کی جرأت ہوئی اور نہ ہی ایرانی حکومت نے اپنے سفیر سے کوئی جواب طلب کیا۔ کرتی بھی کیسے اس نے ان کے دلوں کی بات کہی تھی۔ اس کے علاوہ آپ افغانستان میں ایران کے کردار پر نظر ڈالئے۔ صرف پچاس لاکھ افغانی شیعوں کیلئے وہ مجاہدین کی کابینہ میں 120 ارکان چاہتے ہیں۔ جبکہ ڈیڑھ کروڑ ایرانی سنیوں میں سے وزیر، نائب وزیر، سفارتکار، فوجی افسر، عدلیہ کا سربراہ اور گورنر جنرل یا دوسرے شعبوں میں سے کہیں پر کوئی نظر نہیں آئے گا۔ زاہدان، جہاں پر بلوچستان یونیورسٹی ہے اور جہاں کی نوے فیصد آبادی سنی ہے، مگر بلوچستان یونیورسٹی میں، دو ہزار طلبا میں صرف نو سنی ہیں۔

سوال : آپ ایران کی سنی آبادی ڈیڑھ کروڑ بتا رہے ہیں جبکہ عام تاثر یہ ہے کہ سنی آبادی 40 یا 50 فیصد ہو گی۔ ڈیڑھ کروڑ مبالغہ تو نہیں ہے؟

جواب : مجھے آپ کے سوال پر حیرت نہیں ہے۔ آپ نے صحیح کہا ہے کہ عام تاثر پچاس لاکھ کا ہی ہے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایران ایک سنی اکثریتی ملک تھا۔ جب تین سو سال قبل پہلے شاہ اسماعیل نے ایران پر قبضہ کیا تو اس نے سنیوں کا قتل عام کیا۔ صرف صوبہ آذر بائیجان میں تین لاکھ سنی شہید کئے گئے تھے۔ یہ تو ایک لمبی داستان ہے۔ میں یہاں پر صرف اتنا بتانا کافی سمجھتا ہوں کہ کتب حدیث کے مؤلفین مثلاً مسلم شریف، ترمذی شریف جیسی تمام شخصیات ایران سے تعلق رکھتی تھیں۔ مگر آج سنی ایران کی سرحدوں اور پہاڑی علاقوں میں باقی ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ صفیوں کا لشکر ان تک نہیں پہنچ سکا تھا یا یہ لوگ پہاڑوں میں چھپ کر اپنا دفاع کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بچی ہوئی آبادی آج ایران کی آبادی کا 30% ہے۔

سوال: مگر اسلامی انقلاب کے بعد تو کوئی ایسی خبر ایران کے متعلق کہیں بھی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی کہ وہاں پر سنیوں پر کوئی ظلم ہو رہا ہے؟
جواب: یہی تو ہماری بد قسمتی ہے کہ دنیا ہم سے بے خبر ہے۔ یہ سب اس خوبصورتی کے ساتھ ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کچھ اور ہی سمجھتی ہے۔ انقلاب کے بعد سب سے پہلے ان کی نظر اہل سنت کے صوبہ کردستان پر پڑی۔ انہوں نے بڑی مکاری کے ساتھ ایرانی ک کمیونسٹوں کو کردستان بھیجنا شروع کردیا تا کہ لوگوں کو گمراہ کر سکیں اور انہیں وہاں جنگ چھیڑنے کا بہانہ ہاتھ آجائے۔ لہٰذا یرانی حکومت نے کردستان پڑ چڑھائی کی او ر ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو اپنے ہوائی جہازوں کے ذریعے پھینکے گئے بموں سے کچل ڈالا۔ سیکڑوں گاؤں تباہ کر دئیے گئے اور یہ اعلان بھی کردیا کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اسے کمیونسٹوں کے خلاف جنگ کا رنگ دے دیا گیا۔ حالانکہ جن گاؤں کو مسمار کیا گیا وہ سب مسلمانوں کے تھے۔ جن عورتوں کو لوٹا گیا وہ سب مسلمان تھیں اور جب بچوں کو ٹینکوں تلے کچلا گیا وہ سب مسلمان تھے۔ اس کے بعد ایسا قانون لایا گیا جس کی رو سے سنیوں کو یہود اور نصاریٰ کی صف میں کھڑا کردیا گیا اور انھیں تمام حقوق سے محروم کردیا گیا۔

میں اپنے والد محترم کی تقریر کا ذکر کرچکا ہوں۔ بھری مجلس (اسمبلی) میں اس قانون کے خلاف بولتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ خدا را مسلمانوں میں اختلاف نہ ڈالئے اور سنیوں کو ان کے حق سے محروم نہ کیجئے اور ایران میں تعصب اور بربریت کو پھر سے زندہ نہ کیجئے ورنہ آپ کا بھی وہی انجام ہو گا جو شاہ اور اس کے خاندان کا ہوا۔ مگر ان کی نہیں سنی گئی تو انھوں نے مجلس کا بائیکاٹ کر دیا۔ خمینی صاحب سے ملے مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ سنی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے اور (کسی جگہ کا نام دیا گیا ہے جو فوٹو کاپی میں بندر کے علاوہ صاف نہیں پڑھا جا رہا ہے) میں نماز جمعہ کے بعد نمازیوں پر فوجی حملہ ہوا اور بیس سے زاید سنیوں کی شہادت۔ پھر ترکمن صحرا پر حملہ کیا گیا اور تین دنوں تک لوگوں کو گھروں میں محصور رکھا گیا جس نے باہر آنے کی جرأت کی اسے گولی ماردی گئی۔

اس کے بعد بلوچستان کے دارالخلافہ زاہدان میں سیکڑوں افراد کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک ہفتہ تک شہر میں کرفیو لگایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ سنیوں میں دہشت پھیلادی جائے مگر اس کے باوجود سنی علماء، جن میں مولانا عبدالعزیز مرحوم، علامہ احمد مفتی زادہ، مولوی عبدالملک اور مولوی عبدالعزیز الہیاری، ناصر سبحانی، مولی ابراہیم مدمنی، مولوی نظر محمد اور متعدد دیگر سنی علما نے اس کے خلاف آواز بلند کئے رکھی اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا مگر انھوں نے اعلان کیا کہ ہمارے پچاس سالہ منصوبے کے تحت کوئی سنی ایران میں نہیں رہے گا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ علماء کو جیلوں میں ڈال دیا گیا، کچھ کو شہید کردیا گیا۔ شر سے بھی اللہ تعالیٰ خیر پیدا کردیتا ہے۔ اگر ایران عراق جنگ نہ شروع ہوتی تو کوئی بالغ سنی ایران میں نہ بچتا۔ بچوں کو شیعہ بنانا مشکل کام نہ ہوتا۔

سوال: یہ تو ماضی کی باتیں ہیں۔ اس وقت کیا صورت حال ہے؟
جواب: میں عرض کرچکا ہوں اس وقت ایک بھی سنی وزیر، نائب وزیر، سفیر، فوجی افسر، عدلیہ کا کوئی افسر سنی نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ نے سنیوں پر حملے کروانے اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ اس میں تین خلفا اور ام المومنین حضرت عائشہ 94 پر تبرے شامل ہیں۔ پرائمری اسکول کس سطح سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک جو اسلامی تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ شیعی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے جس میں تبرہ بازی کی گئی ہے۔ تعلیمی میدان میں سنیوں کو ان کے حق سے بالکل محروم کردیا گیا ہے۔ انھیں کوئی اخبار یا کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں ہے۔ بینکوں سے قرضے یا دوسرے لائسنس صرف شیعوں کے لئے ہیں۔ سنیوں کے مختلف قبیلوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ سنی علاقوں میں دوسرے علاقوں سے شیعوں کو لا کر آباد کیا جا رہا ہے۔ سنیوں کو پاکستان اور دوسرے سنی ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ عام سنی کی تو بات ہی کیا معروف شخصیات مثلاً علامہ احمد مفتی زادہ کو بڑی دردناک حالت میں جیل میں رکھا گیا ہے۔ پہلی قانون ساز اسمبلی میں دو منتخب نمائندوں کے علاوہ احمد مفتی زادہ کو نامزد کیا گیا تھا۔ اُس وقت وہ اس لئے پسند کئے گئے تھے کہ انقلاب میں انھوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا مگر جب انھوں نے حق کی بات کی تو آج اُنہیں اسی درندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو شاہ کے مخالفین کو کرنی پڑی تھی۔

سوال: آپ کہتے ہیں کہ ایران میں آپ کی کوئی داد فریاد سننے والا نہیں ہے۔ تو کیا اب آپ مسلح جدو جہد شروع کریں گے؟
جواب: نہیں۔ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہم نے تو ملک سے باہر بھی پہلی مرتبہ اس معاملہ کواس وقت اٹھایا ہے جب ہم نے دیکھ لیا کہ جائز باتوں کو منوانے کی کو شش پر امن اور پر خلوص کوششوں کے نتیجے میں محض ظلم ہی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ بیرونی دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہو جائے جس پر ہر شخص حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔

سوال : مجلس اعلیٰ اہل سنت ایران کیا ہے؟
جواب: یہ ایرانی سنیوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ میں اس کے خارجی امور کے شعبے کا سربراہ ہوں۔ یہ ایران میں سنیوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کیلئے قائم کی گئی ہے۔ اس کے قیام کے لئے عرصے سے کوششیں ہو رہی تھیں۔ لہٰذا 20 اپریل (1991) کو اس کی باقاعدہ تشکیل دی گئی۔ اس میں سازمان اہل سنت ایران، جنبش مجاہدین بلوچستان، حنبش پائیداری بلوچستان، اتحاد اسلامی بلوچستان، مباررض اہل سنت ایران اور دیگر سنی جماعتیں شامل ہیں۔

سوال: اس قسم کی تحریک کے بارے میں آپ کے والد صاحب کی حیات میں کوئی بات سننے میں نہیں آئی جبکہ آپ کے بقول مسائل اس وقت بھی موجود تھے؟
جواب : نہیں، والد صاحب کے زمانے میں بھی ایسی تحریک چلی تھی۔ انھوں نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی تھی جس کا نام حزب اتحادالمسلمین تھا۔ مگر اس وقت انقلاب کے بعد حالات کچھ ایسے تھے کہ یہ جماعت بلوچستان سے باہر سنی علاقوں میں زیادہ کام نہ کر سکی۔ بعد میں حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ مگر بعد میں جب ضرورت پڑی تو انھوں نے کردستان کے ترکمان اہل سنت کے ساتھ ایک جماعت بنائی جس کا نام شوریٰ مرکزی اہل سنت تھا اور شمس کے نام سے اس کا مخفف تھا۔ اس کے قائدین والد صاحب اور علامہ احمد مفتی زادہ تھے۔ مگر حکومت نے اس پر سعودی عرب اور امریکہ سے وابستگی کا الزام لگادیا اور اس پر بھی پابندی لگا دی چونکہ ایران میں اس قسم کی جماعتیں قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد جو جماعتیں وجو د میں آئیں وہ ایران سے باہر ہی وجود میں آئیں اور ان کا دائرہ عمل بہت محدود تھا۔ لہٰذا مجلس اعلیٰ اہل سنت اپنے انداز کی پہلی جماعت ہے جس کا دائرہ عمل بہت وسیع ہے اور یہ تما م ایران کے سنیوں کی ترجمان ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ اسی اخبار میں (20-26 مارچ) ایرانی پارلیمنٹ کے سنی رکن مولانا اسحاق مدنی کا ، دہلی میں ایرانی سفارت خانے میں لیا گیا ایک انٹرویو بھی شائع کیا گیا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے اس کے کچھ اقتباسات کی نقل پیش کر رہا ہوں جنہیں پڑھ کر آپ کو معاملات سمجھنے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔

سوال: تہران میں سنی مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟
جواب: ایران کی مردم شماری کبھی بھی سنی شیعہ بنیاد پر نہیں کی گئی ہے لہٰذا یہ بتانا مشکل ہے کہ تہران میں کتنی سنی آبادی ہے اور نہ ہی وہاں کوئی محلہ سنی اکثریت کی حیثیت سے معروف ہے۔

سوال : کیا ایران میں سنی حضران کی تنظیمیں ہیں؟
جواب: ایران میں تنظیمیں ہیں لیکن وہ سنی یا شیعہ بنیاد پر نہیں ہیں۔ ایرانی سیاست میں سنی شیعہ بنیاد پر دوکانداری نہیں چل سکتی ہے۔

سوال : سنا ہے کہ ایران کے سنی برادران حکومت سے ناراض ہیں، آپ کا کے نظریہ ہے؟
جواب: اگر کچھ ایرانی حکومت سے خوش نہیں ہیں تو وہ سنی یا شیعہ ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کی بنا پر ناراض ہیں۔

سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ تہران میں ایک بھی مسجد نہیں ہے جبکہ شیعہ حضرات کی وہاں سیکڑوں مساجد ہیں؟
جواب: جہاں تک مساجد کی بات ہے وہ انقلاب کے بعد کی بات نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی مسجد پہلے سے ہو اور اسے بند کر دیا گیا ہو یا کسی ایک فرقے کی مسجد کسی دوسرے فرقے کو دے دی گئی ہو ۔۔۔۔

سوال: انقلاب اسلامی ایران اور جنگ تحمیلی کے دوران کیا برادران اہل سنت نے بھی قربانیاں پیش کی تھیں؟
جواب: جی ہاں، انقلاب اسلامی ایران اور جنگ تخمیلی کے دوران تقریباً تقریباً گیارہ ہزار سنی برادران شہید یا زخمی ہوئے تھے۔

سوال: آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ ایران میں سنی شیعہ بنیاد پر کبھی مردم شماری نہیں ہوئی تو پھر آپ نے شہدا ء و معلولین میں سنی حضرات کی تعداد کا پتہ کیسے لگالیا؟
جواب: یہ تعداد ان کے علاقوں سے موصولہ اطلاعات کی بنیاد پر ہے جہاں سنی اکثریت میں ہیں یا جس جگہ پر صرف سنی حضرات رہتے ہیں۔

SHARE